عالمی مارکیٹ میں قطر اور امریکہ کے درمیان قدرتی گیس کیلئے جنگ تو نہیں۰۰۰؟

دنیا کے امیرترین ممالک کے درمیان کشیدگی عالمی معیشت کی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتی ہے!

دنیا کے امیر ترین ممالک کے درمیان اختلافات عالمی سطح پر معیشت کی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنے مفاد اور اجارہ داری کیلئے ان امیرترین ممالک کو کروڑوں ڈالرس کے ہتھیار اور فوجی تعاون کے ذریعہ دنیا میں امن و سلامتی کی فضا کو پھر ایک مرتبہ مکدر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے اصل ذمہ دار کون ہیں اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل اور دشوار بات نہیں۔ اصل دہشت گرد وہ طاقتیں ہیں جو کسی نہ کسی بہانے اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے یا اپنی طاقت منوانے کے لئے مختلف موقعوں پر اسلامی ممالک میں مداخلت کرکے، وہاں کے حکمرانوں کے درمیان تفرقہ ڈال کر لڑانے کی کوشش کئے اور اس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ ایران ،عراق جنگ، کویت میں عراقی فوج اور پھر اس کے بعدامریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی جانب سے عراق پر فضائی حملوں کے ذریعہ تباہی و بربادی، 9/11کے بعد افغانستان کی طالبان حکومت کا بن لا دین کو پناہ دینے کی وجہ سے خاتمہوفضائی حملوں کے ذریعہ افغانستان کی تباہی و بربادی، عراقی صدرصدام حسین پر الزامات امریکہ، برطانیہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے عراق پرخطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ تباہی اورتاریخی ورثہ کو ملیامیٹ کردیا گیا ، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے نام پر فضائی حملے جس کی وجہ سے کئی مقامات پر معصوم افراد کا قتل عام ، عراق، شام، یمن، مصر میں طالبان، داعش، حوثی باغیوں،القاعدہ، اخوان المسلمون ،النصرہ وغیرہ شدت پسند گروپوں اور باغی گرپوں کو ختم کرنے کے حوالے سے مسلسل فضائی ، زمینی کارروائیوں کاسلسلہ جاری ہے ۔ ان تمام حالات کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں کیوں وجود میں آئیں۔؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے اصل ذمہ دار امریکہ ،برطانیہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کے حکمراں ہیں۔ جنہوں نے عالمی سطح پر ان ممالک کے اندرونی حالات کو منظرعام پر لاکر اسے دہشت گردی کا لیبل لگایا کیونکہ ہر ملک میں اندرونی طور پر حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات و لڑائی یا پڑوسی ممالک کے درمیان اختلافات شدید ہوتے ہیں جن کا حل وہ خود نکال لیتے ہیں۔اسلامی ممالک میں بھی آپس میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں ۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ان ممالک میں پائے جانے والے اختلافات کا فائدہ اٹھاکر ان میں مزید دشمنی پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جو چارمشرقِ وسطی کے خلیجی ممالک سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین کا قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑلینا اور پابندیاں عائد کرنا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا بھر کے ممالک خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کا جائزہ لیجئے ہر روز ان ممالک میں فائرنگ و دیگر جرائم کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور اس کا فیصد تناسب ان اسلامی ممالک سے زیادہ دکھائی دیتاہے۔ آخر عالمی طاقتوں کو ان اسلامی ممالک سے کیا لینا دینا ہے ؟ انہیں مسلمانوں سے ایسی کونسی ہمدردی ہے جس کے لئے وہ ہزاروں میل دور سے انکی مدد کیلئے فوراً حاضر ہوجاتے ہیں؟ بس ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ اسلامی ممالک کو اﷲ رب العزت نے اتنی دولت سے سرفراز فرمایا کہیہاں کے حکمراں اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے اپنے ہی مسلم بھائیوں کو ذلیل و خوار کرنے اور انکے قتل عام کیلئے اسلام دشمن طاقتوں کا سہارا لینا معیوب نہیں سمجھتے۔آج کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار خریدے جارہے ہیں صرف اس لئے کے اپنے پڑوسی ممالک کے سامنے طاقت و قوت کا مظاہرہ کرسکیں اور ان پر اپنا رعب و دبدبہ بنائے رکھے۔ان دنوں چھ خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات نے اپنے پڑوسی ملک قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے اور اس پر معاشی و سیاسی پابندیاں عائد کردیں۔ کویت ان ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے جبکہ عمان غیر جانبدار دکھائی دے رہا ہے۔ خلیجی ممالک کے ساتھ مصر نے بھی قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے اور پابندیاں عائد کردیں۔مصر کا حکمراں عبدالفتاح السیسی جو پہلے ہی اپنے ملک میں فوجی بغاوت کے ذریعہ ایک جمہوری طور پر منتخبہ صدر کے خلاف بغاوت کی تھی اور اخوان المسلمون کے کارکنوں کوجو تحریر اسکائرپر خاموش احتجاج کررہے تھے ان میں بچے ، مرد وخواتین سب ہی شامل تھے ان پر بے دریغ فائرنگ کرکے ان کے خیموں کو جلاکر خاکستر کردیا تھا جس کی وجہ سیذرائع ابلاغ کے مطابق دو ہزار کے لگ بھگ اخوان المسلمین کے کارکن اور ان کے افراد خاندان داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ایسے سفاک اور ظالم حکمراں کا ساتھ دیتے ہوئے خلیجی ممالک کے حکمراں بھی امریکی صدر کے اشارہ پر قطر سے دوری اختیار کرلئے ہیں جس کا خمیازہ لاکھوں عوام بھگت رہے ہیں جبکہ ان حکمرانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ماضی میں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مسلمانوں نے ہر دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے جام شہادت نوش فرمایا اور آج بھی اسلامی ممالک میں خصوصاً شام ، عراق ، یمن ، مصرمیں مسلمان ظلم و بربریت کے سایہ میں جی مر رہے ہیں۔لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں میں آسرا لئے ہوئے ہیں ۔ عراق کے شہر موصل میں دولت اسلامیہ سے عراقی فوج نے چھٹکارہ دلانے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن 2014کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سے کم و بیش 9لاکھ عراقی شہری بے گھر ہوگئے۔ شام کے پناہ گزینوں کا تو کوئی حساب نہیں ذرائع ابلاغ کے مطابق کم و بیش 10ملین افراد بے گھر ہوچکے ہیں ۔ ان پناہ گزینوں کو سب سے زیادہ امداد پہنچانے والا ملک ترکی ہے جس کے تعلق سے جرمن چانسلر انجیلا مریکل نے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی تعریف کی ہے ۔شام، عراق، وغیرہ کے بے گھر ،ظلم و بربریت کے شکار لاکھوں پناہ گزینوں کیلئے اس وقت مختلف ممالک میں پناہ گاہ کیمپس قائم ہیں ان میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو آسرا دینے اور انکی امداد کرنے والا ملک ترکی ہے جس کے صدر رجب طیب اردغان ہیں جنہوں نے مظلوم انسانوں کو پناہ دے کر انکی خدمت کا شرف حاصل کیا ہے اسی لئے جرمن چانسلر مریکل نے اس عظیم کام کیلئے خدمت کرنے والے صدر کی تعریف کرکے اسے ایک مستحسن اقدام قرار دیا۔ قطر پر سعودی عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور پابندیاں عائد کرنے کے بعدترکی نے مکمل تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا اور ترکی کی فوج کو قطر روانہ کیا۔

موصل میں عراقی فوج کی کامیابی اوریہاں سے داعش کا خاتمہ اپنی جگہ۔ عراق میں متعین سینئر امریکی کمانڈر جنرل اسٹیفن ٹاؤنسینڈ کے مطابق دولت اسلامیہ کے جنگجو ابھی تک عراق میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں حکومت کو سنی برادری سے بات چیت کرنی چاہیے تاکہ اس دہشت گرد تنظیم کو تجدید نو سے روکا جائے۔ عراق میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن حکمراں شیعہ ہے اس لئے امریکی فوجی کمانڈر کا کہنا ہیکہ عراقی حکومت کو سنی برادری تک پہنچنا ہوگا اور ان سے مصالحت کرنی ہوگی اور انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ بغداد میں حکومت ان کی نمائندگی کرتی ہے۔ کیونکہ اگر دولت اسلامیہ کو دوبارہ ابھرنے سے روکنا ہے تو عراقی حکومت کو چاہیے کہ وہ عراق کے تمام شہریوں کو انکے حقوق دینے ہونگے۔ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر جون 2014میں قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے عراق اور شام کے دوسرے علاقوں میں قبضہ کرکے اپنی خلافت کا اعلان کیا ۔ گذشتہ نو ماہ سے جاری جنگ کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے موصل میں دولت اسلامیہ کے خلاف باضابطہ طور پر فتح کا اعلان کیا ہے۔ اس جنگ میں حکمراں فوج کو امریکی فوجی تعاون کے علاوہ کرد پیش مرگاافواج، سنی جنگجوؤں ، شیعہ ملیشیاکی مدد حاصل تھی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ عراقی فوج کو فضائی اور زمینی امداد فراہم کرنے والی اتحادی افواج کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ موصل کی جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شہری علاقوں میں ہونے والی یہ شدید ترین جنگ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عراقی ہم منصب کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ موصل ،دولت اسلامیہ کے زیر حکومت ’طویل خوفناک خواب سے آزاد ہوگیا ہے‘۔ ایسا محسوس ہوتاہیکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ موصل کی جنگ کو خلیجی ممالک کی جانب لے جائیں گے اور قطر پر جس طرح ان ہی کے اشارہ پر سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، مصر نے دہشت گردوں کو تعاون فراہم کا الزام عائد کیا ہے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ قطر پر منڈلاتے دشمنوں کے سایہ ایک اور مسلم امیر ترین ملک کو برباد کرنے کے درپر ہے۔ کیونکہ گلف وار سے قبل عراق کی کرنسی کی قدرو قیمت ایک دینارکے عوض 3.22امریکی ڈالر تھی جبکہ جنگ کے بعد یعنی 1991ء میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 3000دینار ہوچکی تھی اور آج قطری ریال کی قیمت 0.27امریکی ڈالر ہے جو کہ ہندوستانی کرنسی 17.52روپیے ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ قطر نے امریکہ کو ایک اہم جھٹکا دیا ہے جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیند حرام ہوسکتی ہے کیونکہ ٹرمپ کے اقتصادی ماہرین نے جس طرح توانائی کی عالمی مارکیٹ میں حکمرانی کے لئے منصوبہ بنایا تھا کہ آنے والے برسوں میں قدرتی گیس کی برآمدات میں نمایا اضافہ کرے گا لیکن قطر نے اس کے اس منصوبہ پر پانی پھیر دیا قطر نے اپنی قدرتی گیس کی پیداوار میں غیر معمولی اضافے کا اعلان کرکے امریکہ کی ساری امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ سی این بی سی کے مطابق قطر کی سرکاری توانائی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نارتھ فیلڈ میں مجوزہ گیس پراجیکٹ کا حجم دوگنا کردے گی ۔ یہ پراجیکٹ خلیج فارس کے بڑے توانائی ذخائر میں سے ایک ہے جس نے پہلے ہی قطر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت میں نمایاں حصہ ادا کیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے حجم میں اضافے کے بعد قطر کی جانب سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی پیداوار 2022سے 2024کے درمیان 77ملین ٹن سالانہ سے بڑھ کر 100ملین ٹن سالانہ ہوجائے گی۔ قطر پہلی ہی عالمی مارکیم میں قدرتی گیس کی برآمد میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کی جانب سے پیداوار میں مزید اضافے کے بعد عالمی توانائی مارکیٹ پر اس کی پکڑ اور مضبوط ہوجائے گی۔ ادھر امریکی کمپنیوں نے بھی قدرتی گیس کی پیداوار میں اضافہ کررہی ہیں اور توقع کی جارہی تھی کہ امریکہ آنے والے برسوں میں قدرتی گیس کی برآمدات میں نمایا ں اضافہ کرے گا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں ٹرمپ انتظامیہ نے قدرتی گیس کی برآمدات کو عالمی توانائی مارکیٹ پر غلبہ پانے کی اپنی حکمتج عملی کا بنیادی ستون قرار دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ میں قدرتی گیس کی پیداوار میں اضافہ ہونے سے 2020تک مارکیٹ میں گیس کا سیلاب آجائے گا۔ رسد کی فاضل مقدار کی وجہ سے عالمی سطح پر گیس کی قیمتیں تیزی سے کم ہونا شروع ہوجائیں گی جس کی وجہ سے امریکہ کے لئے اپنے نئے ایل این جی ایکسپورٹ ٹرمینلز کی تعمیرات جاری رکھنامشکل ہوجائے گا۔ امریکی فیڈرل انرجی ریگولیٹری کمیشن کے مطابق امریکہ درجن بھر نئے گیس ٹرمینل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے ، لیکن قطر کے اقدام نے ان ٹرمینلز کے مستقبل کو بدترین غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قطر کے اس منصوبہ کو کامیاب ہونے دیں گے؟ کیونکہ جس طرح انکے اشارہ پر قطر پر پڑوسی ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد اور سفارتی تعلقات منقطع ہوچکے ہیں ۔ پاکستانی کالم نگار کمال عالم کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور متعدد تنازعات کے دوران پاکستان غیر جانبدار ہے اور جنرل قمر باجوہ کی سربراہی میں پاکستانی فوج قطر ، ترکی اور ایران کے ساتھ ایک متوازن تعلق قائم کررہی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جس وقت پاکستانی فوجی سربراہ قطر کے دورہ پر تھے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کے نئے دور کی بات کی اور قطریوں نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہیکہ پاکستان 2022کے ورلڈ کپ کی سیکیوریٹی کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ اس وقت قطر کو ترکی اور ایران سے مکمل تعاون حاصل ہورہا ہے اور مستقبل میں قطر ایران کے ساتھ مزید بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کو ایران سے تعلقات منقطع کرنے کے لئے کہا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ امریکہ قطر کی جانب سے قدرتی گیس کی پیدوار میں مزید اضافہ کو خاموشی سے برداشت کرتا ہے یا پھر ٹرمپ اپنی پہلی صدارتی تقریر کو مدّنظر رکھ کر قطر سے آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لئے انہیں قطر پر کسی نہ کسی طرح کادباؤ ڈالنا ہوگا اور شاید وہ ایسا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۰۰۰
**

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.