خدا وند متعال کی صفات سلبی کے بارے صحیح عقیدہ

"اللہ موجود ہے ليکن اس کا وجود مخلوقات جيسا نہيں ہے؛ اللہ صاحب علم ہے ليکن اس کا علم ، موجودات کے علم کي طرح نہيں ہے ؛ اللہ صاحب قدرت ہے ليکن اس کی قدرت مخلوقات کي قدرت کي مانند نہيں ہے؛ اللہ صاحب حيات ہے ليکن اس کي حيات مخلوقات کي حيات کي مانند نہيں ہے-

خدا وند متعال کی صفات سلبی کے بارے صحیح عقیدہ

ہم اپني عقل کے مطابق اللہ تعالی کے اوصاف کو سمجھتے ہيں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ليکن صرف اس لئے کہ يہ مفاہيم اللہ تعالی کي نسبت ، حقيقي اور ہمارے فہم سے برتر، معاني کے حامل ہوں، صفات سلبيہ سے استفادہ کرتے ہيں اور يوں اوصاف الٰہيہ کي نسبت اپني قلّت فہم کا ازالہ کرتے ہيں؛ ہم بيک وقت کہتے ہيں کہ "خداوند عالم، قادر اور حىّ --- ہے"، يہ بھي کہتے ہيں کہ "خداوند وصف ميں نہيں آتا اور اس سے کہيں زيادہ عظيم ہے کہ اوصاف کي چار ديواري ميں محصور ہوجائے، اور يہ ہميں حقيقت امر سے قريب تر کرديتا ہے- 1
ہمارا عقيدہ ہے کہ: يہ مفاہيم ان ہي مفاہيم ميں سے ہيں جن کو ہم سمجھتے ہيں--- جب کہا جاتا ہے کہ "زيد جان گيا" اور "خدا جان گيا"، ہم دونوں سے ايک ہي چيز سمجھتے ہيں اور وہ يہ کہ عالم معلوم کو جانتا ہے- حقيقت يہ ہے کہ ہم جانتے ہيں کہ "زيد" کا علم صرف اس صورت (يا تصوير) کے توسط سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے ذہن ميں ہے اور يہ صورت اللہ کےلئے ممتنع ہے؛ کيونکہ وہاں کوئي ذہن نہيں ہے؛ تا ہم يہ خصوصيت علم کے مصداق سے تعلق رکھتي ہے اور مفہوم ميں کسي تبديلي کا سبب نہيں بنتي- پس مفہوم ايک ہي مفہوم ہے اور مصداقي خصوصيات مفہوم ميں عمل دخل نہيں رکھتیں- چنانچہ صفات خداوندي بيان کرنے کا عمومي ضابطہ يہ ہے کہ ان کے مفاہيم کو مصداقي خصوصيات سے خالي کريں؛ بالفاظ ديگر صفات سلبيہ کو بروئے کار لاکر ان مفاہيم کو ديگر عدمي پہلووں اور نقائص سے خالي کريں-2
چنانچہ ہم خدا کي صفات سے ان ہي معاني کو سمجھتے ہيں جو ہم انسان کي صفات سے سمجھتے ہيں- اور جس طرح کہ عقل، انسان کے بارے ميں ان صفات کا ادراک کرسکتي ہے خداوند متعال کي صفات کے بارے ميں اسي قسم کے ادراک پر قدرت رکھتي ہے تاہم انسان اور خدا کے درميان مصداق کا اختلاف ہے اسي وجہ سے صفات الہيہ ميں نقص کا شائبہ وجود ميں آتا ہے
اور صفات سلبيہ سے کام لےکر يہ شائبہ ختم ہوجاتا ہے- يوں ہم ايجابي اور سلبي صفات کي مدد سے نہ صرف مفہوم ميں کوئي تبديلي نہيں لاتے بلکہ اس (مفہوم) کو حقيقي مصداق کي طرف لے جاتے ہيں اور کہتے ہيں: "اللہ موجود ہے ليکن اس کا وجود مخلوقات جيسا نہيں ہے؛ اللہ صاحب علم ہے ليکن اس کا علم ، موجودات کے علم کي طرح نہيں ہے ؛ اللہ صاحب قدرت ہے ليکن اس کی قدرت مخلوقات کي قدرت کي مانند نہيں ہے؛ اللہ صاحب حيات ہے ليکن اس کي حيات مخلوقات کي حيات کي مانند نہيں ہے-
یہ عقیدہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام صفات جمالیہ اور جلالیہ خداوند متعال کے ساتھ خاص ہیں اور جو کوئی بھی ان صفات میں کسی کو خدا کا شریک قرار دے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ آج کے دور میں علامہ غضنفر تونسوی اور ضمیر اختر نقوی جیسے نام نہاد ملاں اور ان کے چاہنے والے کچھ لوگ خدا کی صفات جمالیہ اور جلالیہ کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بالفرض اگر بعض صفات ثابت ہو بھی جائیں تب بھی اتنا فرق تو ہے کہ خدا کی تمام صفات ذاتی ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی عطائی ہیں خدا کی ذات یا صفات میں کسی کو شامل کرنا کھلم کھلا شرک ہے جو کسی صورت میں بھی قابل معافی نہیں ہے ۔
حوالہ جات:
1- الميزان، ج 8، ص 57 و ج 6، ص 102- 100
مجموعه رسائل، صص 224- 226 ؛
اصول فلسفه و روش رئاليسم، ج 5، ص 125 و.... .
2- علامہ طباطبايى ، رسائل توحيدى، ترجمه و تحقيق على شيرو

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.