صفات ثبوتی وسلبی باری تعالی

صفات ثبوتی وہ صفات ہیں جوایسے کمال پر دلالت کرتی ہیں جس میں نقص کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
صفات سلبی وہ صفات ہیں جو ذات خدا سے کسی بھی طرح کے نقص کی نفی کرتی ہیں جیسے جسمانی نا ہونا، عاجز نہ ہونا، مکانی یا زمانی نہ ہونا ۔

صفات ثبوتی وسلبی باری تعالی

صفات ثبوتی
صفات ثبوتی وہ صفات ہیں جو ذات خدا کے کمالات کو بیان کرتی ہیں۔ قابل غور ہے کہ خدا کی صفات ثبوتی میں ذرہ برابر نقص وکمی کا شائبہ نہیں پایا جاسکتا اور اگر کوئی ایسا مفہوم پیدا بھی ہوگیا جو کمال پردلالت کرنے کے باوجود کسی طرح کا نقص بھی رکھتا ہو تو اس کو خدا کی صفات ثبوتی کا جز قرار نہیں دیا جاسکتا مثلاً صفت ”شجاعت“ کہ جس کے معنی کسی ایسی شیٔ سے روبرو ہوتے وقت خوف نہ کھانے اور نہ ڈرنے کے ہیں جس سے کسی طرح کے نقصان یاخطرے کا اندیشہ ہو۔ اگرچہ ایک جہت سے یہ صفت کمال ہے کیونکہ موجود شجاع، موجود غیر شجاع سے افضل اورکامل تر ہے۔ لیکن صفت شجاعت، اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شخص شجاع کو کسی نہ کسی طرح کا نقصان پہنچ سکتا ہے اور کائنات میں ایسی کوئی شےٴ نہیں ہے جو خدا کو نقصان پہنچا سکے لہٰذا خدا کو ”شجاع“ نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح کے موارد میں خدا سے یہ دونوں صفتیں، شجاعت اور بزدلی سلب ہوجاتی ہیں۔
المختصر یہ کہ صفات ثبوتی وہ صفات ہیں جوایسے کمال پر دلالت کرتی ہیں جس میں نقص کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

صفات سلبی
یہ وہ صفات ہیں جوذات خدا سے کسی بھی طرح کے نقص کی نفی کرتی ہیں جیسے جسمانی نا ہونا، عاجز نہ ہونا، مکانی یا زمانی نہ ہونا ۔
صفات سلبی، دیگر موجودات سے خدا کی غیریت کوبیان کرنے کے ساتھ ساتھ خدا کی ذات کے اِن نقائص سے مبرہ ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ لیکن صفات ثبوتی، خدا کے ان کمالات پر دلالت کرتی ہیں جن کا خدا حامل و واجد ہے۔
تھوڑی توجہ دینے پر واضح ہوجاتا ہے کہ صفات سلبی کی بازگشت بھی صفات ثبوتی کی طرف ہے کیونکہ جو کچھ صفات سلبی کے ذریعے خدا سے نفی یا سلب ہوتا ہے، نقص ہے اور نقص خود بذاتہ امرعدمی وسلبی ہے اور سلبِ سلب ، ایجاب واثبات ہوتاہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”خدا عاجز نہیں ہے“ تو درحقیقت ہم یہ کہتے ہیں کہ ” خدا فاقد قدرت نہیں ہے“ اور ” عاجز نہ ہونا “ مساوی ہے ”قادر ہونے“ کےیعنی خداوند صاحب قدرت ہے ۔
صفات ثبوتی کو صفات جمالیہ اور صفات سلبی کو صفات جلالیہ بھی کہا جاتا ہے۔

قرآني مثاليں
عقلي دلائل سے ہٹ کرقرآن کريم کي نہ جانے کتني آيات ہيں جو علم خدا کے لامتناہي ہونے پر دلالت کرتي ہيں:
واعلموا ان الله بکل شي عليم
اور جان لو کہ خدا کو ہر چيز کا علم ہے-
الا يعلم من خلق وھو اللطيف الخبير
کيا پيدا کرنے والا نہيں جانتا ہے جب کہ وہ لطيف بھي اور خبير بھي ہے-
وھو الله في السمٰوات وفي الارض يعلم سرکم وجھرکم ويعلم ماتکسبون
وہ آسمانوں اور زمين ہر جگہ کا خدا ہے وہ تمھارے باطن اور ظاہر اور جو تم کاروبار کرتے ہو، سب کو جانتا ہے-
ويعلم مافي السمٰوات ومافي الارض
اور وہ زمين و آسمان کي ہر چيز کوجانتا ہے-
وعندہ مفاتح الغيب لا يعلمھا الا ھو ويعلم مافي البر والبحر وما تسقط من ورقة الايعلمھا ولا حبة في ظلمات الارض ولا رطب ولا يابس الا في کتاب مبين
اور اس کے پاس غيب کے خزانے ہيں جنہيں اس کے علاوہ کوئي نہيں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے- کوئي پتہ بھي گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے- زمين کي تاريکيوں ميں کوئي دانہ يا کوئي خشک و تر ايسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو-
یہ عقیدہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام صفات کمالیہ خداوند متعال کے ساتھ خاص ہیں اور جو کوئی بھی ان صفات کمالیہ میں کسی کو خدا کا شریک قرار دے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ آج کے دور میں علامہ غضنفر تونسوی اور ضمیر اختر نقوی جیسے کچھ لوگ خدا کی صفات کمالیہ کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بالفرض اگر بعض صفات ثابت ہو بھی جائیں تب بھی اتنا فرق تو ہے کہ خدا کی تمام صفات ذاتی ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی عطائی اور ان کو جو مقام بھی ملا ہے وہ عطائی ہے ۔
خداوند ہم سب کو دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.