10جولائی 2017ء کوپہلگام سے تقریباََپچاس کلو میٹر
دور امرناتھ میں واقع شولنگ کے درشن سے واپس لوٹ رہے یاتریوں پر نامعلوم
بندوق برداروں نے حملہ کیا ۔جس میں سات یاتری ہلاک اور بیس کے قریب لوگ
زخمی ہو گئے ۔اس افسوسناک خبر کے میڈیا میں آتے ہی پورے برصغیر میں غم و
غصے کی لہر دوڑی کہ آخر یاتریوں پر حملہ کون کر سکتا ہے ؟بھارت بھر کی تمام
ٹیلی ویژن چینلز نے بلا تاخیر و تحقیق یہ کاروائی کشمیری عسکری تنظیم کے سر
تھونپ دی ،رہے کشمیری وہ جہاں اس کاروائی پر مضطرب اور بے چین تھے وہی
انہیں بھارتی میڈیا کی طرف سے چلائے جا رہے پروپیگنڈا مہم سے اس بات کا خوف
لاحق ہوا تھاکہ کہیں اس کے نتیجے میں بھارت میں ’’ہندؤ مسلم فساد‘‘شروع نہ
ہو جائیں اس لئے کہ انہیں یاد ہے کہ ’’مشکوک گودھرا ٹرین حملہ‘‘کا ڈرامہ
صرف گجرات مسلم کش فسادات کے لئے رچایا گیا تھا ۔کشمیر کے اہل دانش سکتے
میں ہیں کہ کس طرح کشمیر میں بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیل کر
کشمیری مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کر نے کی کوششوں کا آغاز کیا جا چکا
ہے اور المیہ یہ کہ بھارت کی درجنوں ٹیلی ویژن چینلز اس آگ پر پانی کے
برعکس پیٹرول چھڑک کردانستہ یا نا دانستہ طور پر مسلمانوں کے ’’قتلِ
عام‘‘کی راہ ہموار کر رہے ہیں جبکہ سیکولر اور لبرل طبقہ مودی اینڈ کمپنی
کے مکمل دباؤ میں ہے اور عملاََ ’’ ناک میں دم ‘‘کی حالت سے دوچار ہیں ۔
اس مشکوک حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جن کے جواب تلاشنے کی کوشش ہر
حساس کشمیری کو ضرور کرنی چاہیے کہ آخر اس حملے کے تار کہاں سے جڑے ہیں اور
حملہ آوروں کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ حملے کے فوراََ بعد روزنامہ
’’ہندوستان ٹائمز‘‘نے یاتریوں اور اُس بس سے متعلق چند اہم سوالات اٹھائے
جو یاتریوں کو لیکر جموں واپس لوٹ رہی تھی ؟ہندوستان ٹائمز پوچھتا ہے کہ جس
گاڑی میں یاتری سوار ہو کر ’’شولنگ کے درشن‘‘ کے لئے کشمیر آرہے تھے
امرناتھ رجسٹریشن بورڈ میں اس نے اپنی رجسٹریشن کیوں نہیں کرائی تھی؟ جموں
سے لیکر سونا مرگ اور پہلگام تک سینکڑوں’’ سیکورٹی چیک پوائنٹس‘‘کو یہ گاڑی
بغیر رجسٹریشن کیسے اور کس طرح عبور کرنے میں کامیاب ہو گئی؟اہم اور تیسرا
سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ آخر ساڑھے پانچ بجے کے مقررہ وقت کے بعد یہ گاڑی
کس طرح وادی کشمیر کے ملی ٹینسی سے متاثرہ علاقے میں سفر کر رہی تھی ؟چوتھا
سوال یہ کہ ’’بغیر رجسٹریشن یاتریوں سے بھری بس‘‘کے آگے آگے ایک پولیس
پیٹرولنگ جپسی کہاں جا رہی تھی؟پانچواں اہم سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ’’
ممکنہ دہشت گردانہ ‘‘حملے کے اندیشے کے باوجود راستے کو پورے طور پر محفوظ
کیوں نہیں کیا گیا تھا؟اسی بیچ انٹیلی جنس ایجنسیز کی امرناتھ یاترا پر
حملے کے امکانات پر مشتمل وارننگ والی رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی
ہو ئی نظر آتی ہے جس میں صاف صاف یہ بتا دیا گیا تھا یاترا پر حملے کے
امکانات روشن ہیں گویا کہ سیکورٹی ادارے پہلے سے باخبر تھے مگر اس سب کے
باوجود وہ حملہ روکنے میں ناکام ہو گئے کیوں؟ ۔
سوشل میڈیا پر لوگ اس حملے میں گجراتی یاتری ،گجراتی بس اور آنے والے گجرات
الیکشنوں کو ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط قرار دیکر حملے کی ذمہ داری
’’کشمیری عسکریت پسندوں‘‘کے برعکس ان مشکوک خفیہ طاقتوں پر عائد کرتے ہیں
جنہوں نے کئی سال پہلے گودرا میں ریل جلائی پھر گجرات میں مسلمانوں کا قتل
عام کیا ۔کشمیر میں اسے پہلے بھی چھٹی سنگھ پورہ میں نامعلوم بندوق برداروں
نے سکھوں کو قتل کیا تھا جس کی ذمہ داری حکومت نے ’’عسکریت پسندوں‘‘پر ڈالی
تھی، مگر عوام نے اس میں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کو ذمہ دار مانا تھا۔ آج کا
سانحہ کئی وجوہات سے مختلف ہے نمبر 1: یہ حملہ ہوتے ہی بھارت کی تمام تر
ٹیلی ویژن چینلز نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس کی ذمہ داری حزب المجاہدین
اور لشکرِ طیبہ پر عائد کی ۔نمبر2:بھارتی میڈیا نے اس میں ذاکرموسیٰ کا
ہاتھ تلاش کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ پہلے الزام ہی کی طرح یہ الزام بھی
بلا تحقیق لگا کر پورے ملک میں سنسی پھیلا دی ۔نمبر3:بلا تحقیق ٹیلی ویژن
اینکروں نے اس کو ’’مجاہدین ‘‘کی کاروائی قرار دیکر ’’جہاد‘‘جیسے مقدس
اسلامی رکن پر شدید حملے کرنے شروع کر دئے ۔نمبر4:مختلف چینلز میں کام کر
رہے ہندؤ اینکراس کاروائی کو ’’اسلامی دہشت گردی ‘‘قرار دیکر اسلام کے خلاف
اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف ہو گئے ۔نمبر5: ٹیلی ویژن مباحث میں
شامل کئی ’’ہندؤ انتہا پسند ‘‘تنظیموں سے وابستہ پینلسٹوں نے اسلام پر ہی
حملے شروع کر دئے ۔نمبر6: ٹی ،وی اینکر بیہودگی کی تمام تر سرحدیں پھلانگنے
کے بعد کشمیر ی پینلسٹوں سے باربار یہ مطالبہ کرنے لگے کہ آپ کس کے ساتھ
ہیں ،جاں بحق ہونے والے یاتریوں کے ساتھ یا دہشت گردوں کے ساتھ؟سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ آخر میڈیا سے وابستہ لکھے پڑھے ان ’’جہلا‘‘کی عقل جب اس
قدر سطحی ،تعصب اوربغض و عناد سے بھری پڑی ہے تو کسی مشکوک سانحہ کے حوالے
سے یہ لوگ کس طرح اس میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد مجرمین تک پہنچنے
دیں گے ۔
سوگوار ہندوستان میں ٹیلی ویژن چینلز کے مسلمانوں ،اسلام اور جہادکے خلاف
شدید پروپیگنڈا مہم کا نتیجہ فوراََ یہ نکلا کہ ’’ہسار‘‘میں بجرنگ دل کے
کارکنان نے جامع مسجد کے سامنے احتجاج کرتے ہو ئے نہ صرف مسجد کے تقدس کو
پامال کرنے کی کوشش کی بلکہ امام مسجد کو سڑک پر نکال کر ’’بھارت ماتا کی
جئے‘‘کے نعرے لگانے کا مطالبہ کیا ۔جب امام مسجد نے وہاں سے نکلنے کی کوشش
کی تو بجرنگ دلی دہشت پسندوں نے اس کی مار پیٹ کی ۔سچائی یہی ہے کہ بھارتی
میڈیا ان مواقع پر خبریں اس طرح چلاتے ہیں کہ بھارت کے اسی(80)کروڑ ہندؤکے
سیدھے نشانے پر مسلمان آجاتے ہیں ۔بھارت کے بے لگام ٹیلی ویژن چینلز کے
متعصب اینکر جان بوجھ کر بیرون کشمیرمقیم طلاب کے خلاف بھارت بھر کے عوام
کے جذبات یہ کہہ کر بھڑکاتے رہے کہ اگر یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا تو بیرون
کشمیر زیر تعلیم طالب علم ہندوستان بھر میں نشانہ بن سکتے ہیں! گویا کہ چند
ٹیلی ویژن چینلز میں براجمان چند نفرتوں کے نقیب اینکر بھارتی ہندو عوام کو
یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’اٹھو اور کشمیریوں کو ڈھونڈ کر مارنا
شروع کردو‘‘نہیں تو یاتریوں پر حملے کے ساتھ بیرون کشمیر زیر تعلیم طالب
علموں کا کیا تعلق ؟ ۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر بلا تحقیق کس بنیاد پر
بھارتی میڈیا اس سانحہ کا ذمہ دار مجاہدین اور جہادی تعلیمات کو قراردیتا
ہے ۔سانحہ کو جن جاندار سوالات نے ہر طرح سے مشکوک بنا رکھا ہے کے بعد
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی تحقیقات غیر جانبدار اور تعصب سے پاک کسی
اعلیٰ ترین عدالتی کمیشن کے ذریعے کراکے رپورٹ عوام کو سامنے لاکر مجرمین
کو قرارِ واقعی سزا دی جائے ایسا نا ہو کہ کشمیری عسکریت پسندوں کی آڑ
میں’’کرنل پروہت ‘‘جیسے لوگوں کو بچ نکلنے کا موقع دیا جائے اور سچائی یہی
ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت کی بیروکریسی اور صحافت
سنگھ پریوار کو خوش کرنے کے لئے اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ غیر جانبدار اور
سیکولر مزاج افراد کو یا تو غیر متعلق کیا جا چکا ہے یا تنگ آکر وہ خود ہی
رٹائر منٹ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔
جہاں تک اسلام اور جہاد کا تعلق ہے یہ بات ہر مسلمان کو اچھی طرح معلوم ہے
کہ اسلام کسی بھی غیر مسلم پر اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہو ئے جبر و
تشدد کا قائل نہیں ہے بلکہ اسلام کے نزدیک یہ ناقابل معافی جرم ہے ۔قرآنِ
پاک میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ آیت نمبر 285میں مسلمانوں کو واضح حکم دیا
ہے کہ’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ‘‘۔یہ حکم صرف غیر
مسلموں کے ساتھ خاص ہے مسلمانوں کے ساتھ نہیں اس لئے کہ ایک اسلامی حکومت
اپنی رعایا کو قوانین و ضوابط پر بالجبر بھی اسی طرح عمل کراسکتی ہے جس طرح
حالیہ ایام میں مودی حکومت نے نوٹ بندی اور جی،ایس،ٹی پربالجبر عمل کرایا
۔نبی کریم ﷺ نے واضح کردیا ہے کہ کوئی مسلمان فرد کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ
ایک اسلامی ریاست میں کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کر سکتا ہے ،نا ہی اس کے
مال ،جان اور عزت و آبرو کے ساتھ چھیڑ سکتا ہے ۔اگر کسی بھی فرد نے اس طرح
کی دست درازی کی تو حکومت اور حکمران انصاف بہم پہنچانے کے مکلف ہوں گے
نہیں تو قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ ظلم کرنے والے کواس کی سخت سزا دے
گا۔اسلامی ریاست میں جزیہ کی شکل میں ’’ایک حقیر رقم ‘‘کوئی بھی غیر مسلم
اسلامی ریاست کو ادا کر کے اپنے عقائد اور مذہب کے ساتھ سکونت اختیار کر
سکتا ہے ۔غیر مسلم کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت ایک عام فرد
تو درکنار کسی بھی حاکم کو نہیں ہو گی۔اسلامی ریاست میں ہندوستانی ججوں کی
طرح مذہب کی بنیاد پر عدل و انصاف سے محروم رکھنے کے برعکس مذہب دیکھے بغیر
غیر جانبدارانہ بنیادوں پر انصاف فراہم کیا جائے گا چاہیے انصاف سے فائدہ
غیر مسلم کو ہی ہو ۔
جب اسلام خالص اسلامی ریاست میں عقائد بدلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نا
ہی وہ غیر مسلموں کواپنے مذہبی اعمال سے بازرکھنے کی اجازت دیتا ہے تو غیر
مسلموں کے ہاتھوں قبضہ شدہ مسلم اکثریتی ریاست میں رہنے والے اسلام کے سچے
پیروکار امرناتھ یاتریوں پر حملہ کرکے اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا عمل
کیسے اور کیونکر انجام دے سکتے ہیں؟ہندوستان کی مختلف ٹیلی ویژن چینلز میں
بیٹھے اسلام سے ناواقف غیر مسلم اینکروں نے جہاد کا مطلب ’’غیر مسلموں کا
قتل عام‘‘ سمجھ رکھا ہے اور داعش اور پاکستانی طالبان کی حماقتوں اور مظالم
نے اس سوچ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے حالانکہ یہ سب داعش اور طالبان کے اسی
طرح کے اعمال ہیں جیسے کوئی ہندؤ یا عیسائی انفرادی یا چند افراد کو ساتھ
لیکراجتماعی طور پر انجام دیتا ہے مگر اس کا تعلق کسی بھی طرح ان کے مذہب
سے نہیں بلکہ ذات سے ہوتا ہے المیہ یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا میں سنسنی
پھیلانے کے خوگر صحافی اسلام اور مسلمان کے معاملے میں اس اصول کو نظرانداز
کر دیتے ہیں اور اپنے ’’پر شور مباحث‘‘سے مسلمانوں کواجتماعی طور پر مجرموں
کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں ۔کشمیر میں برسرِ پیکار جہادی تنظیموں کی
غلطیوں اور کوتاہیوں سے انکار نہیں مگربلا تحقیق ہر سانحہ کا ذمہ دارانہیں
قرار دینا بھی صحافتی اقدار کے خلاف ہے ۔ ان تماشوں اور ڈراموں سے اینکروں
کو ریٹنگ کا فائدہ شاید ہوتا ہوگا مگر انہیں احساس ہونا چاہیے اور نہ ہونے
کی صورت میں احساس کرایا جانا چاہیے کہ یہ ’’امن اور جمہوریت پسنددنیاکے دو
سو کے قریب ممالک ‘‘کی موجودگی میں بھارت کے مخلوط سماج کے لئے سم قاتل کی
حیثیت رکھتا ہے ۔یہ رویہ بھارت کو قتل عام ،کشت و خون اوردوسری توڑ پھوڑ کی
جانب لے جائے گاامن و ترقی کی جانب نہیں ۔
جہاں تک کشمیری جہادی تنظیموں کا تعلق ہے نوے کے عشرے میں کشمیر میں ان کی
طوطی بولتی تھی وہ چاہتے تو بلا خوف و خطر یاترا پر پابندی لگا سکتے تھے،
مگر انھوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا سوائے اس واقع کے جب سیکورٹی ایجنسیوں
کے ہاتھوں انسانی حقوق کی شدید پامالی کے بعدردعمل میں انھوں نے یاترا کو
روکنے کی دھمکی دیدی ۔جہادی تنظیموں کے ہاں غیر مسلموں کو تنگ طلب نہ کرنے
کا ایک ضابط موجود ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں بالائی نظم ان کے خلاف
کاروائی کرتا ہے ۔اٹھائیس برس کے عسکری دور میں جب انھوں نے یاتریوں کے
خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تو آج کے تیز میڈیائی دور میں کیوں ؟جہاں تک اس
کاروائی کے نقصانات کا تعلق ہے وہ براہ راست کشمیراور کشمیریوں پر مرتب ہو
تے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔کشمیری پوری دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ہم سے
چھینا گیا پیدائیشی اور سیاسی حق دلوانے میں ان کی مدد کریں تو کیا دنیا
کشمیر کی عسکری تنظیموں کی طرف سے غیر مسلموں پر حملوں کی صورت میں ان کی
مدد کرے گی؟جہادی طاقتیں بعض کاروائیوں کو لیکر دنیا میں خاصی بدنام ہو چکی
ہیں جس سے غیر مسلم دنیا خوف زدہ ہے تو کیا یاتریوں پر حملوں سے خوف زدہ
غیر مسلم دنیا کشمیر مسئلہ کے حل میں مدد دے گی کہ بھارت کے پلڑے میں اپنا
وزن ڈال دے گی ؟ بھارت جہاں پچیس کروڑ مسلمان مقیم ہیں جن کے مال و جان کو
ہر وقت ہندو انتہا پسندوں سے شدید خطرہ لاحق رہتا ہے اور آج کل انہی انتہا
پسندوں کی حکومت مرکز سے لیکر کشمیر تک قائم ہے کشمیری اچھی طرح سمجھتے ہیں
کہ ہماری کسی بھی چھوٹی بڑی غلطی کا نزلہ ہندوستانی مسلمانوں پر گرا دیا
جائے گا لہذا وہ اس طرح کی حماقت نہیں کر سکتے ہیں ۔کشمیر کے ایک لاکھ سے
بھی زیادہ طالب علم بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم
ہیں اس طرح کی کاروائی کی سزاانہیں بھگتنی پڑ سکتی ہے لہذا وہ اپنے ایک
لاکھ نوجوان طالب علموں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہیں ۔نقصانات کے برعکس
اس طرح کی کاروائی کا یک طرفہ فائدہ بھارت ہی کوقومی اور بین الاقوامی سطح
پر حاصل ہو سکتا ہے لہذا کشمیر کی تحریک کو بدنام کرنے کے متمنی بھارتی اس
طرح کی کاروائی کسی بھی بے ضمیر فرد یا افراد سے کرا سکتے ہیں نہیں تو
حکومت آج تک غیرجانبداربین الاقوامی ادارے سے تحقیقات سے کیوں ہچکچاتی آئی
ہے ؟
بھارت بھر کی ٹیلی ویژن چینلز میں کام کر رہے اینکر وں کی اکثریت ان متعصب
ہندؤں پر مشتمل ہے جو خود بھی ہندؤمذہب سے ناواقف ہیں ۔یہ دراصل لا مذہب
لوگ ہیں مگر حالات کی تندی کے پیش نظر ان ’’دہریوں‘‘نے ہندؤ انتہا پسندوں
کا روپ دھارن کر کے مودی اینڈ کمپنی کو خوش کرنے ایک انوکھا طریقہ یہ ایجاد
کر لیا ہے کہ ہر برائی اور گناہ کے پیچھے کسی نہ کسی مسلمان یا پاکستانی کا
ہاتھ ڈھوندلو، نا بھی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ تعلق بنا لو ۔اس کا نتیجہ یہ
نکل رہا ہے بھارت کی اسی کروڑ ہندؤ مسلمانوں کو ہندو دشمن اور غدار وطن
سمجھنے لگے ہیں ۔بھارت کی وزارتِ داخلہ باربار کہہ چکی ہے کہ داعش کا بھارت
کو مطلقاََ کوئی خطرہ نہیں ہے مگر بھارت کی درجنوں چینلز روزانہ کئی گھنٹے
پروگرام چلاتی ہیں اور داعش سے متعلق مغربی اور عربی میڈیا کی جاری کردہ وی
ڈیوزاور تصاویرنشر کرنے کے بعد اس میں بھارتی مسلمانوں ، مدارسِ اسلامیہ
اور ذاکر نائیک کے تار جوڑنے کی ناکام کوششیں ضرورکرتے رہتے ہیں تاکہ کسی
نہ کسی طرح بھارت کا مسلمان بالعموم اور کشمیری مسلمان بالخصوص احساسِ
کمتری میں مبتلا رہ کر اپنے حقوق کی بحالی اور برحق جدوجہد سے دستبردار ہو
جائے جبکہ بھارت کے جنونی میڈیا سے وابستہ جاہل اینکر اور پینلسٹ مسلمانوں
کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ کسی بھی طرح اپنی برحق جدوجہد سے
پیچھے ہٹ جائیں گے اس لئے کہ یہ حقوق کا نہیں بقاء کا مسئلہ ہے ۔افسوس یہ
بھی ہے کہ 12جولائی کو نیشنل کانفرنس کے باتونی ترجمان نے یاتریوں پر حملے
کے بعد خرافاتی ٹیلی ویژن چینل ’’ٹائمز ناؤ‘‘پر ایک سوال کے جواب میں کہا
کہ بھارت میں بالعموم اور کشمیر میں بالخصوص اسلامی انتہا پسندی کے لئے
یوپی اور بہار کے مدارس اسلامیہ ذمہ دار ہیں ۔المیہ یہی ہے کہ دورِ حاضر کے
لکھے پڑھے لوگ جن چیزوں سے ناواقف ہوتے ہیں ان پر بھی غیروں کو خوش کرنے کے
لئے تبصرے جھاڑنا فرضِ عین تصور کرتے ہیں ۔موصوف کو اسلامی مدارس کی ہوا
بھی نہیں لگی ہے پھر بھی ان پر تبصرہ کرتے ہو ئے انہیں تمام تر برائیوں کی
جڑ قراردینا ضروری ہے ۔کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کشمیر کی عسکری
تنظیموں سے وابستگان میں اشاریہ ایک فیصد بھی مدارس کے علماء اورفضلاء نہیں
ہیں پھر بھی ترجمان ’’فرما گئے‘‘کہ کشمیر میں اسلامی انتہا پسندی عرب ممالک
سے نہیں یو،پی کے مدارس سے درآمد ہوتی ہے ۔ |