پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
17 جولائی کوجے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت
شروع کر دی ۔سماعت کے آغاز پر ہی شریف فیملی نے اِس رپورٹ کو چیلنج کر دیا
جس پر دلائل 18 جولائی کو شروع ہوں گے ۔پہلے دِن کی کارروائی میں وقفے کے
دوران اور سماعت کے خاتمے پر سپریم کورٹ کے باہر ایک دفعہ پھر نوازلیگ اور
تحریکِ انصاف کی جانب سے مجمع لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اصل
عدالت سپریم کورٹ کے باہر ہے نہ کہ اندر ۔ تحریکِ انصاف کے بابر اعوان اور
فواد چودھری نے ایسی زبان استعمال کی جو کسی ’’ڈان‘‘ کی تو ہو سکتی ہے ،سیاستدان
کی نہیں ۔گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے بابر اعوان نے کہا کہ نوازلیگ نے گزشتہ
رات اسلحہ اور ڈنڈے بانٹے ۔ نوازلیگ حملے کے لیے آئے گی تو لگ پتہ جائے گا
۔ فواد چودھری نے محترمہ مریم نواز کو نشانۂ تنقید و تضحیک بناتے ہوئے کہا
کہ اُن پر فوجداری مقدمہ بنتا ہے جس کی سزا سات سال ہے ۔ اُس نے یہ بھی کہا
کہ نوازشریف کو عدالت بلانا ضروری ہے تاکہ اُن پر جرح کی جا سکے ۔ یہ دونوں
اصحاب جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے رہے جو کسی بھی صورت میں ملکی مفاد
میں نہیں۔
عقیل و فہیم اہلِ وطن بتائیں کہ کیا ٹکراؤ کی سیاست کسی بھی ملک و قوم کے
لیے سمِ قاتل نہیں ہوتی؟۔ کیا کپتان صاحب وہی کردار ادا نہیں کر رہے جو پی
این اے کی تحریک میں اصغر خاں کا تھا اور جس کا نتیجہ طویل مارشل لاء ،
کلاشنکوف کلچر اور اندھی ،بے چہرہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ یہ جنگ تاحال جاری
ہے جس میں ہم ساٹھ ہزار سے زائد جانیں گنوا چکے اور اپنی معیشت کو عشروں
پیچھے دھکیل چکے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کرپشن کے ناسور کو ختم نہیں ہونا
چاہیے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قوم کی نَس نَس میں سمائے اِس ناسور کا عملِ
جراحی بہ اندازِ حکیمانہ کیا جانا چاہیے ۔ اگر شریف خاندان کرپشن میں ملوث
ہے تو اُسے نشانِ عبرت بنا دینا ہی ہر کسی کا فرضِ عین ٹھہرا۔ سوال مگر یہ
ہے کہ اِس کا فیصلہ کون کرے گا؟۔ کیا تحریکِ انصاف سڑکوں پر آکر دھرنوں کی
صورت میں کرے گی یا شیخ رشید کی جلاؤ گھیراؤ اور لاشوں کی خواہش پوری کی
جائے گی؟ ۔ کیا میڈیا پر بیٹھے بزرجمہر اِس کا فیصلہ کریں گے یا پھر فوج کو
آواز دی جائے گی ۔
زندہ قومیں تو فیصلوں کے لیے درِعدل کھٹکھٹاتی ہیں لیکن ہمارے فیصلے یا تو
نیوزچینلز پر ہوتے ہیں یا پھر سڑکوں پر۔ آج کپتان صاحب اور اُن کی ٹیم
سپریم کورٹ کی محافظ بنی بیٹھی ہے لیکن غالباََ یہ وہی کپتان صاحب ہیں
جنہوں نے ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کہا
’’آپ کتنے میں بِکے‘‘ ؟۔ یہ وہی کپتان صاحب ہیں جنہوں نے 2013ء کے الیکشن
کو تواتر کے ساتھ آر اوز کا الیکشن کہا ،سبھی آر اوز عدلیہ ہی سے لیے گئے
تھے اور وہ بھی کپتان صاحب کی ضِد اور خواہش پر ۔ یہ وہی کپتان صاحب ہیں جن
کا تازہ ترین بیان ہے کہ قوم کو الیکشن کمیشن پر اعتبار نہیں رہا۔ یہ وہی
کپتان صاحب ہیں جو دہشت گردی کے کورٹ کے مفرور اور جن کی جائیداد کی قُرقی
کا حکم صادر ہو چکا ہے ۔
رہی بات آرٹیکل 62/63 کی تو جاوید ہاشمی نے بالکل درست کہا کہ سوائے حضورِ
اکرم ﷺ کے کوئی بھی صادق و امین نہیں ۔کیا عدلیہ ، کیا انتظامیہ ، کیا
مقننہ ، کیا سیاستدان اور کیا فوج ، اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔کپتان
صاحب کو تو نا اہل قرار دلوانے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سابق نگران وزیرِ
اعلیٰ نجم سیٹھی پر متواتر پینتیس پنکچرز کا الزام لگاتے رہے اور آخرکار یہ
تسلیم بھی کر لیا کہ ’’وہ تو سیاسی بیان تھا‘‘۔ گویا وہ متواتر جھوٹ بول کر
قوم کو گمراہ کرتے رہے اور یہ بھی طے کہ ’’جھوٹا‘‘ آرٹیکل 62/63 کے معیار
پر پورا نہیں اترتا۔ ویسے اگر 2011ء سے اب تک اُن کے جھوٹ پکڑے جائیں تو
پوری ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے ۔ اُنہیں یو ٹرن کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے
اور مولانا فضل الرحمٰن نے تو ایک مرتبہ از راہِ تفنن کہا تھا کہ جہاں سڑک
پر یو ٹرن ہو ،وہاں عمران خاں کی تصویر لگا دینی چاہیے۔ یوٹرن تو ایسا سفید
جھوٹ ہوتا ہے جس کا اقرار ’’جھوٹا‘‘ خود ہی کر لیتا ہے ۔ پھر کپتان صاحب
کِس مُنہ سے آرٹیکل 62/63 کی بات کرتے ہیں۔
پاناما کیس میں میڈیا کا کردار کسی بھی لحاظ سے قابلِ ستائش نہیں ۔ نیوز
چینلز زیبِ داستاں کے لیے بات کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ جھوٹ میں سے سچ
نتھارنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ہمارے نیوزچینلز کے ٹاک شوز میں میزبان ہی
تجزیہ نگار بن کر فیصلے صادر کرتے رہتے ہیں ۔اُنہیں سکرین کی حُرمت کی
بجائے ریٹنگ عزیز ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ سیاست میں کثافت کی آمیزش کرتے
چلے جاتے ہیں۔ اب تو ناظرین بھی یہ جان چکے کہ کون سا اینکر کِس سیاسی
جماعت کے حق میں بات کرے گا اور کِس کے مخالف ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی
نہ کسی سیاسی جماعت کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا رکھا ہے اور اُسی کے دَر پر
سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اِن کی شدید ترین خواہش یہی ہوتی ہے کہ ملک میں
افراتفری کا ماحول برقرار رہے تاکہ اُنہیں اپنے ٹاک شوز کے لیے مواد ملتا
رہے ۔ نیوزچینلز کے مزاحیہ پروگراموں ، جن میں سٹیج کے سارے جُگت باز اکٹھے
ہوتے ہیں ، وہاں بھی پاناما کا بخار سَر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ اپنے پورے
وجود سے ہنسنے والے مزاحیہ پروگرام کے ایک اینکر تو بات ہی نوازلیگ سے شروع
کرکے نواز لیگ پر ختم کرتے ہیں ۔ اُن کی باتیں سُن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وہی ہوں اور اُنہوں نے نوازلیگ کے خلاف فیصلہ
دے دیا ہو ۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ نوازلیگ کے وکلاء نے ٹھوس بنیادوں پر
جے آئی ٹی پرجو جوابی حملہ کیا ہے ،اُس کا نتیجہ آنا ابھی باقی ہے ۔
وزیرِاعظم میاں نوازشریف کی طرف سے جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر متعدد
اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں ۔ اِن اعتراضات میں جے آئی ٹی رپورٹ کو ناقص ،
متعصبانہ ، یک طرفہ ، جانبدارانہ اور قانون کے خلاف قرار دیا گیا ہے ۔
اعتراضات میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کا نمائندہ حاضر سروس نہیں
۔ اُس کی تعیناتی بطور سورس ہوئی جو خلافِ قانون ہے۔ میاں نواز شریف کی
جانب سے یہ مؤقف بھی اپنایا گیا ہے کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو تیرہ سوالات
کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے جے آئی ٹی
کے سربراہ واجد ضیاء نے قانونی معاونت کے لیے برطانیہ میں رہائش پذیر کزن
اختر راجہ کی خدمات لی ہیں جو لندن میں پی ٹی آئی کے کارکُن ہیں ۔ اعتراض
میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے ۔
بلال رسول کی اہلیہ پی ٹی آئی کی امیدوار رہی ہیں جبکہ عامر عزیز کا تعلق
قاف لیگ سے ہے ۔اِس کے علاوہ بھی ٹھوس بنیادوں پر کئی اعتراضات اُٹھائے گئے
ہیں اوراستدعا کی گئی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔
18 جولائی کو نواز لیگ کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل کا آغاز کریں گے اور
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ہماری تو اعلیٰ عدلیہ سے بس اتنی
سی استدعا ہے کہ وہ فریقین کو سختی سے منع کریں کہ عدالت کے باہر عدالت نہ
لگائی جائے کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں ملک کے لیے بہتر نہ قوم کے لیے۔
|