حکمراں اگر ظالم ہے تو ظاہر ہے ہر طرف ظلم و جور کی
ہی حکمرانی ہوگی لیکن اگر وہ متعصب اور فرقہ پرست ہے تو پھرملک کے تباہ
و برباد ہونے میںدیر نہیں لگتی ،ویسے تو یہ دونوں اندازاصول حکمرانی کے
خلاف ہیں لیکن جب ان کا تقابل کیا جائے گا تو متعصب و فرقہ پرست
حکمرانی کے سامنے ظلم و جور والی حکمرانی بہتر نظر آئے گی ۔ظالم
حکمراں اگر فرقہ پرست نہیں ہے تو رعایا پر اس کےبرے اثرات ظلم و جور تک
ہی محدود رہیں گے اور لوگ متعصبانہ روش سے محفوظ رہیںگے ۔ظالم کیلئے یہ
ضروری نہیں ہے کہ وہ متعصب و فرقہ پرست بھی ہو لیکن متعصب حکمراںکے
ساتھ ظلم و طغیان لازمی عنصر ہے ،کسی بھی حکمراں کیلئے یہ ممکن نہیں کہ
وہ طلم و جور سے اپنے آپ کو بچاسکے ۔آج ٹھیک یہی حال ہمارے ملک کی
نریندر مودی اور یوگی حکومت کا ہے جس کی متعصبانہ سیاست سے پوری قوم
لہولہان ہورہی ہے ،جب چاروں طرف سے شرم شرم کی آوازیں اٹھتی ہیں تو
تھوڑی دیر کیلئے ان کی آنکھیں کھلتی ہیں اور متعصب گئورکشکوں کو کچھ
محبت بھری ڈانٹ پلادی جاتی ہے ۔
پارلیمنٹ کے جاری مانسونی اجلاس سے ایک روز قبل لوک سبھا کی اسپیکر
سمترا مہاجن کی طرف سے منعقدہ کل جماعتی میٹنگ میں وزیراعطم نریندر
مودی کے چہرے پر فکر مندی صاف طور پر نظر آئی کیونکہ جی ایس ٹی ،
کسانوں کی خودکشی ، گئو رکشکوں کے ملک گیر ہجومی حملے اورنوٹ بندی سے
پیدا ہونے والے مسائل پر اپوزیشن متحدہ طور پر حملے کی تیاری میں ہے
۔اپوزیشن کے سخت تیور کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے میٹنگ میں جہاں ایک
طرف تمام پارٹیوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی پرامن طور سے چلانے کی اپیل
کی وہیں دوسری طرف گئو رکشکوں کو ایک مرتبہ پھر انہوں نے سخت تنقید کا
نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گئو رکشا کے نام پر تشدداور ہنگامہ خیزی اچھی
بات نہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اس سےکھلواڑ کرنے کا حق
کسی کو نہیں ہے ۔وزیراعطم نے گائے کے نام پر تشدد کرنے والوں کے خلاف ’
کٹھور ‘ کارروائی کئے جانے کی پر زور وکالت ضرور کی لیکن اس سے خود کو
اور مرکزی سرکار کو بری الذمہ کرتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری ریاستی
حکومتوں پر تھوپ دی ۔ان کا یہ بیان جیسے ہی شوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو
ہر طرف سے ان پر سوالات کی بوچھار ہونے لگی ،اکثر لوگوں نے ان کے اس
بیان کا مذاق یہ کہہ کر اڑایا کہ آپ کی سنتا ہی کون ہے ۔
سچ بھی یہی ہے کہ ان کے احکامات کو خود ان کے فالورس ایک کان سے
سنتےہیں اور دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں ۔اگر اس بات میں صداقت نہ ہوتی
تو ان کے بیانات کے بعد پے در پے تشدد کے واقعات کیوں ہوتے ۔گذشتہ ماہ
عین عید کے موقع پر خریداری کی غرض سے جانے والے جنید کے چلتی ٹرین میں
بے رحمانہ قتل کے بعد جب ’ ناٹ ان مائی نیم ‘ کے تحت پورے ملک میں
احتجاج ہونے لگا تو اس کے دباؤ میں آکر اس وقت بھی وزیراعظم نے ایسا
ہی بیان جاری کیا تھا کہ گئو رکشا کے نام پر تشدد نہ کیا جائے ،مگر ان
کی کسی نے نہیں سنی یہا ں تک کہ بیان کے دوسرے ہی دن سے تشدد کے واقعات
اسی طرح سےجاری ہیںجورکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔ ابھی گذشتہ
۱۷؍جولائی کو بھاگلپور میں چلتی ٹرین میں ایک امام مسجد کو بری طرح
زدوکوب کیا گیا ۔ایک ہجوم نے پہلے تو ان کے ساتھ مارپیٹ کی پھر انہیں
کمپارٹمنٹ کے باہر دھکیل دیا ،اس وحشی بھیڑ کا شکار امام گلزار
احمدہوئے جن کا تعلق بہار کے بھاگلپور سے ہے،جو گیا کی ایک مسجد میں
امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ان کے مطابق جب وہ ٹرین میں بیٹھے اس
وقت کمپارٹمنٹ تقریباً خالی تھا لیکن آہستہ آہستہ بھیڑبڑھنے لگی اس
دوران ایک نوجوان ان کے قریب آیا اور اچانک کالراتنی زور سے کھینچا کہ
وہ سیٹ سےنیچے گر گئے ،تبھی دوسرے لوگ مار ومارو کہہ کر چیخنے چلانے
لگے،مگر ٹرین میں بیٹھی کچھ خواتین کے بیچ بچاؤ پر ہجو م نے مجھے
چھوڑدیا پھر بھی ٹرین میں جمع بھیڑ بری طرح سے مشتعل تھی اور مجھے جان
سے مارنے پر تلی ہوئی تھی ، میں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی
،صورتحال اتنی نازک تھی کہ اگر میں اس وقت کچھ بولتا تو یہ لوگ میرا
حال شاید جنید سے بھی بدتر کردیتے کیونکہ جنید پر حملہ آور گروہ کی
تعداد پھر بھی کم تھی لیکن مجھے مارنے کیلئے پوری سے ٹرین آوازیں
آرہی تھیں ۔وہ بھیڑ بار بار یہ کہہ رہی تھی کہ کسی مسلمان کو سیٹ پر
بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے ، اسے یہا ں سے نکالو ،پہلے تومیرا سامان
پھینکا گیا پھر مجھے بھی باہر دھکیل دیا گیا ، میں کسی طرح سے دوسرے
کمپارٹمنٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اورگرتے پڑتے اپنی منزل پر
پہنچ گیا ، اس دن سے سفر کے نام سے ہی میرا دل کانپنے لگتا ہے کیونکہ
میری ہمت ٹوٹ چکی ہے ۔ جس طرح دلتوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے
اور آج بھی بہت سی جگہوں پر اونچی ذات والوں کے سامنے انہیں بیٹھنے کی
اجازت نہیں دی جاتی ، لیکن ہماری حالت تو اب دلتوں سے بھی بدتر ہوتی
جارہی ہے ۔
عجیب بات ہے کہ وزیراعظم گئو رکشکوںسے اپیل کرتے ہیں لیکن ان کی ایک
نہیں سنی جاتی،پھر بھی وہ بڑےصابر ہیں شاید اسی لئے ان پر کوئی
کارروائی نہیں کرتے ،حیرت انگیزبات تو یہ ہے کہ اپیل کے دوسرے ہی دن اس
سے بھی بڑا اور بھیانک حملہ ہو جاتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ وزارت عظمیٰ
کی کرسی کا بس اتنا ہی کام ہے کہ خطاکاروں اور قاتلوں کو صرف تلقین
کردی جائےاور ضرورت پڑے تو ہلکی سی سرزنش کردی جائے۔ان حالات کو دیکھتے
ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یا تو وزیراعظم اس تعلق سے سنجیدہ نہیں ہیں یا
پھر اس محاورے کی صداقت پر یقین کرلیا جائےکہ ’چور سے کہو چوری کرو اور
ساہوکارسے کہو جاگتے رہو ‘ ۔سرکار کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے کہ بڑے سے
بڑے شہ زوروں اور سورماؤں کے بھی دل دہل اٹھتے ہیں اور وہ گھٹنے ٹیک
دیتے ہیں۔ اس کے برعکس یہاں تو چوہوں کے بھی دل شیر کے ہوتے جارہے ہیں
۔آخر سرکار کی یہ کون سی حکمت ہے ، کہیں یہ چوہوں کو شیر بنانے کی مہم
تو نہیں ۔اگر اس طرز عمل میں تبدیلی نہیں کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب
یہ ملک شدید قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے،پھر کچھ بھی باقی نہیں
رہے گا ۔تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جب چنگیز و ہلاکو نہ رہے ،نمرود ،
شداد اور ہٹلر بھی فنا ہوگئے ، پھر کون ہے جو ظلم و تشدد کی سیاست سے
خود کو بچا پائے ۔رعایا غربت و افلاس کی مار جھیل سکتی ہے لیکن ظلم و
جور نہیں، کیا تم یہ نوشتہ ٔ دیوار بھی نہیں پڑھ سکتے ۔
|