شاباشی یا لعنت بے شمار

ستر کے الیکشن ایک ایسا کارنامہ تصور کیا جاتاہے۔جس کی نظیر نہیں ملتی ۔قریبا تمام سیاسی جماعتیں ان الیکشن کو پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن قرار دیتی ہیں۔اگر یہ الیکشن سقوط ڈھاکہ کا سبب نہ بن جاتے۔تو جنرل یحیی کو تاحیات اس کارنامے پر شاباشی ملتی رہتی۔مگرایسا نہ ہوسکا۔ سقوط ڈھاکہ اس قدر بڑا بلنڈر ثابت ہوا کہ یحیی خاں کو چھپنے کے سو ا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔جلدی جلدی اقتدار اپنے پارٹنر بھٹو کے سپرد کیا۔اور منظر عام سے غائب ہوگیا۔بٹھوصاحب نے فوجی شکست کا تمام ملبہ اپنے سر لینے کاسودا کیابدلے میں اقتدار کا وہ سنگھاسن اسے دے دیا گیا۔جس کے لیے اس نے پہلے اپنے سیاسی ڈیڈی کی خدمت کی پھریہ طریقہ کامیاب نہ ہونے پر اس کے خلاف بغاوت کرگئے۔ اب راج کرے گی خلق خدا کا ڈھونگ رچاکر عوام کو آمریت کے خلاف متحدتو کردیا گیا۔مگر یہ نعرہ بھی جلد ایک چال نکلی۔اگر بھٹو الیکشن ہارنے کے بعد انتقال اقتدار میں رکاو ٹ نہ بنتا۔سیدھی طرح الیکشن جیتنے والی پارٹی کو حکومت بنانے دی جاتی تو یہ اب راج کرے گی خلق خدا کا عملی نمونہ ہوتا ۔اسے بھٹو صاحب کی اصول پسندی او راستقامت تصور کیا جاتا۔مگر بھٹو نے آمریت کے خلاف نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ لیے او ربعد میں اس مینڈیٹ سمیت ایک دوسرے آمر کی گودمیں جابیٹھا۔یحیی او ربھٹو اب تک سقوط ڈھاکہ کے مرکزی ذمہ دار ان تصور کیے جاتے ہیں۔جب بھی سولہ دسمبر آتاہے۔مجیب الرحمان ۔بھٹو اور یحی کی مثلت عوامی غیض وغضب کا نشانہ بن جاتی ہے۔ ستر کے الیکشن منصفانہ کرواکے جو شاباشی سمیٹنے کی تمنا پالی تھی۔پوری نہ ہوئی۔الٹا ہوس اقتدار کے کچھ پتلوں کے لیے یہ الیکشن ان کے مقدر میں دائمی لعنت لکھ گئے۔

پانامہ عملدرامد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیاہے۔یہ فیصلہ اب کب سنایا جائے گا۔اس کا علم معزز عدالت کو ہے۔اور کسی کونہیں۔البتہ اس کیس کے آخری کچھ ایام خاصے اہم گزرے۔انہی ایام میں مسلم لیگ ن کے بلند وبانگ دعوے زمین بوس ہوئے۔او رڈری سہمی اپوزیشن کو قرا ر آیا۔شریف فیملی کے تجزیہ کارمتواتر میڈیا پر شور مچا رہے تھے۔کہ تما م تر مطلوبہ ڈاکومینٹس مل گئے ہیں۔اب عدالت میں کیس کا پانسہ پلٹ جائے گا۔عدالت کے پاس شریف فیملی کو باعز ت بری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔اپوزیشن ڈری ڈری تھی۔خیا ل تھاکہ شاید یہ ڈرامہ جو اس کی سیاست کو آکسیجن فراہم کررہا ہے۔سمٹنے جارہا ہے۔جس انداز میں شریف فیملی کے میڈیا سے خبر یں آرہی تھی۔ا ن کے سبب اپوزیشن کی شکل دیدنی تھی۔مگر عدلیہ نے اپوزیشن کو زیادہ دیر تک مایوس رہنے کی اذیت سے بچالیا۔سلمان اکرم راجا کے ا ن دستاویز کے پیش کیے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی لیگی وکیل کی وہ درگت بنی۔جس نے اس کا سارا دن بوجھل بنائے رکھا۔اس دن کیس کا پانسہ تو نہیں بدلا مگر خوش ہونے والے اداس ہونے والوں کی پوزیشن ضرور بد ل گئی۔عدالت نے میڈیا پر بار بار کی تشہیر پر سلمان اکرم راجہ کی خصوصی سرزنش کی۔ایک بار تو عدالت اتنی برہم ہوگئی کہ معزز جج صاحب نے یہ تک کہ دیا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے۔اپنی دلیلیں بھی وہیں جاکے دیں۔ن لیگی وکلا ٗ جو بڑا معرکہ مارنے کا ذہن بناکر آئے تھی۔عدالت کی ڈانٹ ڈبٹ کے بعد تھکے تھکے سے رہے۔او روہ انہونی نہ ہوسکی جس کا پچھلے کئی گھنتو ں سے ڈھنڈورہ بیٹا جارہاتھا۔

سپریم کورٹ اپنا فیصلہ جانے کب سنائے گی۔مگر ان دنوں اس کیس کا فیصلہ مختلف اطراف سے بار بار سنایا جارہاہے۔تحریک انصاف اور ان کے پارٹنرز کا تو اوڑھنا بچھونا ہی یہ پراپیگنڈہ ہے کہ نواز شریف اور مریم صاحبہ چور اورناہل ہیں۔ان کے لیے پاکستانی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ۔ان کی جگہ حکومت میں نہیں اڈیالہ جیل میں ہے۔تحریک انصاف کے پارٹنرز میں شیخ رشید ۔طاہر القادر ی صاحب ۔اور چوہدری برادران کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔مگراب غیر محسوس طریقے سے پی پی بھی اس گروہ کا حصہ بنتی چلی جارہی ہے۔قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے لیکر پارٹی چیئرمین بلال بھٹو زرداری تک او رسابق صدر زرداری سے پارٹی کے ادنی ورکر تک ہر طر ف سے مسلم لیگ ن سے قطع تعلقی کا اظہا رکیا جارہا ہے۔پہلے جمہوریت کو بچانے کی آڑ میں پی پی قیادت نواز شریف حکومت کو بچانے کی متعد د بار کوشش کرتی رہی ہے۔مگر اب یہ سلسلہ ٹوٹتا دکھائی دے رہاہے۔ شاید ہی کوئی ایسا بیان ان دنوں اس پارٹی کی طرف سے آرہا ہو۔جس میں نواز شریف حکومت سے کسی قسم کی ہمدردی جھلکتی ہو۔بلکہ اب پی پی کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفی کی بات اتنی ہی شدو مد سے کی جانے لگی ہے۔جتنی تحریک انصاف کی طرف سے کی جاتی تھی۔شاید پی پی قیادت بھی اب بھانپ چکی ہے۔کہ نوازشریف کو بچانا ممکن نہیں رہا۔انہیں فارغ کرنے کا فیصلہ ہوچکاہے۔اس لیے یہ بھی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تحریک میں حصہ بن گئی۔صورتحال اب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل ہی ایک مخصوص ماحول بنادیا گیاہے۔ایسا ماحول جس میں مائنس نواز شریف سیاست نظر آئے۔اس سیاست کو جو قبول کرے گا۔اس کے لیے جگہ ہوگی جو مزاحمت کرے گا۔اسے بھی جانا ہوگا۔پی پی یہ صورتحال دیکھ کر ہی تحریک انصا ف کی آواز سے آواز ملانے پر آمادہ ہوگئی۔ مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی ان بندوں کو اشارے دیے جارہے ہیں۔جو اسی موقع کے لیے گھسادیے گیے تھے۔ممکن ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک دس پندرہ لیگیوں کا ایمان جاگ جائے او روہ تحریک انصاف کو حق پر تسلیم کرلیں۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی رخصتی ان لوگوں کے لیے شاباشی کا سبب بنے گی۔جو انہیں ہٹانے کے لیے سرگر م ہیں۔یا اس رخصتی کے نتیجہ میں انہیں شرمندگی کا سامنا ہوگا۔ستر کے الیکشن بھی کچھ لوگوں کے لیے شاباشی کی بجائے لعنت ملنے کا سبب بن گئے تھے۔تب ان کی بد نیتی او ربے ایمانی آڑے آگئی۔نواز شریف کو ہٹانے پر اگر وقت نے ان کے مخالفین کے لیے عزت دلوائی تو نوازشریف کو تاریخ کسی گناہ گار کے طور پر متعارف کروائے گی۔اگر ایسا نہ ہوا۔ہٹانے والوں کو ذلیل اور نامراد ہونا پڑا تو نواز شریف کی بے گناہی ان کے مخالفین کے لیے لعنت بے شمار کا سبب بن جائے گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.