عطاءالرحمان طارق کی پراثر نظمیں
کتاب : ملائی کھائے چھورا ( گیت اور نظمیں )
شاعر : عطاء الرحمان طارق ( فون: 23013812/ 09773238043
قیمت : 55/-روپئے ، ضخامت : ۶۴صفحا ت
ملنے کے پتے : گل بوٹے کیڈی شاپنگ سینٹر۲۸؍گراؤنڈفلور ناگپاڑہ جنکشن
ممبئی ۸ ۔
سیفی بک ایجنسی، امین بلڈنگ جے جے روڈ ممبئی ۹ ۔کتاب دار ۱۱۰؍۱۰۸،جلال
منزل
ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی ۸ ۔مکتبہ جامعہ لمٹیڈ پرنسس بلڈنگ جے جے روڈ ممبئی
۳
شاعری جذبات و احساسات کا ایسا ذریعہ ٔ اظہار ہے جو ذہن و دل پر براہ
راست نقش ہوجاتا ہے اور اس کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں لیکن ان صفات
کے حصول کیلئےلفظوں کی کشش اور انسانی نفسیات کا عرفان لازمی ہے ۔افکار
و احساسات چاہے غزل میں پروئے جائیں یا نظموں کے ذریعے ترسیل کئے جائیں
یا پھر کسی اور صنف سخن میں ہر جگہ مندرجہ بالا بنیادی نقاط لزوم کا
درجہ رکھتے ہیں ۔عطاء الرحمان طارق کے یہاں یہ عناصر پوری قوت کے ساتھ
دکھائی دیتے ہیں ۔رائج الوقت اور پراثرمحاورے اور ان کا برمحل استعمال
ان کی شاعری کا خاص وصف ہے جو انہیں شعراءکی بھیڑ میں منفرد بناتا ہے
۔انہوں نے زیادہ تر نظمیں بچوں کیلئے لکھی ہیں ۔ہرّے ہرّے ، دتم دتم ،
بوندا باندی کافی پہلے منظر عام ہوچکی ہیں ،اسی طرح نثری کہانیوں پر
مشتمل ’ہنڈولہ ‘ بھی دادتحسین حاصل کرچکی ہے ۔’ دھانی دھانی ‘ نظمیں
بڑوں کیلئے بھی تحریر کرچکے ہیں اور اب ’ ملائی کھائے چھورا ‘ ان کی
تازہ ترین کاوش ہے جس میں ان کے تجربے کی آنچ مزید روشن ہوئی ہے اور
کوئی نظم ایسی نہیں جسے نظرانداز کردیا جائے سب میں کچھ نہ کچھ پیغام
موجود ہے جن کی بنت اس اندازمیں کی گئی ہے جس سے نہ صرف بچے متاثر ہوتے
ہیں بلکہ بڑوں کیلئے بھی کشش و رغبت کا بھرپور التزام ہے ،اور شاعری کا
ماحصل بھی یہی ہے ۔کتاب میں درج ایک خط ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس میں
بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے۔
’’ کانپور سے میرے نام ایک پوسٹ کارڈ آیا ،لکھنے والے نے اس میں اپنا
ایک واقعہ بیان کیا ۔ وہ لکھتا ہے کٹھمنڈوکی سیر کے دوران ایک دن کسی
پارک میں بیٹھا دال موٹھ کھا رہا تھا کہ نظر کاغذکے پرزے پر پڑی ،اس
میں آپ کی نظم ’ کتنی سندر تتلی ہے ‘ چھپی تھی نظم پسند آئی ،میں نے
وہ پرزہ جیب میں ڈال لیا ۔کانپورلوٹنے پر وہ نظم اپنی چھوٹی بہن کو
سنائی جو اس نے زبانی یاد کرلی ،اب وہ ہر کسی کو یہ نظم شوق سے سناتی
ہے ،جس پر اسے شاباشی بھی ملتی ہے اور انعام بھی ۔کچھ سالوں بعد جب
میری اگلی کتاب شائع ہوئی تو میں نے ایک جلد کانپور بھجوادی اور لکھا
کہ یہ کتاب آپ کی چھوٹی بہن کیلئےایک تحفہ ہے ۔جواب میں دوسرا پوسٹ
کارڈ ملا ، لکھا تھا :وہ چھوٹی سی گڑیا اب کافی بڑی ہوچکی ہے ،اس کا
بیاہ کردیا گیا اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ سنگاپور میں رہتی ہے ،ان دنوں
ممبئی کی سیر پرہے ،اس کی گود میں ایک ننھا بالک ہے ۔۔۔اور ہاں!آپ کی
وہ نظم اسے اب تک یاد ہے ۔‘‘
مجموعے میں ۶۳نظمیں ہیں اور ہر نظم اپنے اندر جدا جدا رنگ رکھتی ہے۔
خود مجھ پر یہ تجربہ گزرا کہ ایک ہی نشست میں کتاب ختم کردی ۔نظموں کی
اثر انگیزی بچوں کوہی نہیں بڑوں کی بھی توجہ مبذول کرلیتی ہے ۔طارق نے
اپنی نظموں کے موادکیلئے نہ آسمان کی سیر کی نہ پاتال کی بلکہ اسی
زمین اور معاشرے کے اندر موجود ان بیشمار چھوٹے چھوٹے واقعات کو اپنی
نظموں کا موضوع بنایا ہے جسے عام طور پر لوگ نظر انداز کردیتے ہیں ۔ان
کی نظموں کا خمیر اس طرح گوندھا گیا ہے جس میں مٹھاس بھی ہے ، کھٹاس
بھی ہے اور گوند کا ملا جلا مزہ بھی ،کہیں کہیں کڑوے، کسیلے ذائقے کا
بھی احساس ہوتا ہےتو وہ تریاق کا کام کرتا ہے جسے قاری فورا ً محسوس
کرلیتا ہے اور اندر ہی اندر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ۔زبان و بیان
کی برجستگی اور اسلوب کی شگفتگی سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے ۔
(مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی
51موبائل :9004538929 |