بعض اہم ذرائع کے مطابق پنجاب میں احتجاج کے نام
پرافراتفری پھیلانے کامقصدکسی طرح اس سارے معاملے میں فوج کو مداخلت پر
مجبورکرناہے ۔ آنے والے دنوں میں باکل وہی سنیاریو بننے جارہاہے جوکبھی
بھٹو کے آخری دنوں میں ہواتھا جس کے جواب میں جنرل ضیاء الحق نے زمام
اقتدار سنبھالا تھا یاپھراسلام آباد میں۲۰۱۴ء کے دھرنے کے وقت تھا جب
دونوں فریقوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مداخلت کیلئے
کہاتھا۔ ذرائع کے بقول اس وقت بچ بچاؤہوگیاتھا تاہم اس بارپی ٹی آئی
زیادہ افراتفری مچانے کی سرتوڑکوشش کرے گی کہ الگ تھلگ رہنے والی فوج
کواس معاملے میں گھسیٹ لیاجائے اوروہ تھرڈامپائرکے طورپراپنا
کرداراداکرے کیونکہ پی ٹی آئی کوابھی تک یہ خوش فہمی ہے کہ
تھرڈایمپائرکا فیصلہ اس کے حق میں ہوگاجس کی بارہا نشاندہی جاویدہاشمی
کررہے ہیں اوروہ ابھی تک اپنے مؤقف پرمضبوطی سے قائم ہیں کہ کس طرح
عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کواعتمادمیں لیتے ہوئے اس سارے
پلان کاانکشاف کیاتھاتاہم اس مرتبہ پھر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس
ہیں۔
سی پیک اہم مرحلے میں داخل ہوجانے کے سبب فوج کے علاوہ چین بھی پاکستان
میں اس طرح کی افراتفری نہیں چاہتا لہندا چین جوکہے گاپالیسی میکر اسی
کی سنیں گے۔سی پیک معاہدے کے وقت فوج نے اس کی تعمیراور حفاظت کی مکمل
ذمہ داری کابیڑہ اٹھایاتھاجس کے بعدہی چین نے اس قدر بڑی سرمایہ کاری
پرآمادگی کااظہارکیاتھا۔فوج جب ذمہ داری قبول کرتی ہے تواس میں وقت
ضائع نہیں کرتی اورجب اس پراجیکٹ کیلئے وسائل بھی مہیاکردیئے جائیں
توکام اوربھی آسان ہوجاتاہے۔لہنداسی پیک کی سیکورٹی کیلئے پہلاسیکورٹی
ڈویژن ریکارڈوقت میں تشکیل دے دیاگیااوراب ایک ڈویژن اپنی ذمہ داریاں
سنبھال بھی چکاہے جس کاسربراہ میجرجنرل اوراس کے نیچے تین
بریگیڈیئر،نوبٹالین اور ایف سی کے ونگ ، لگ بھگ بارہ ہزار چاق و چوبند
اہلکاروں پرمشتمل اس ڈویژن کوجدیدقسم کے ہتھیاروں کے علاوہ گاڑیوں
اورہیلی کاپٹروں کی سہولتیں میسرہیں۔
ذرائع کے مطابق اسی دوران ایف سی کے کئی ونگ بھی تیارکرلئے گئے ہیں۔ان
میں سے کچھ ونگ خیبرپختون فرنٹیئر کور کوبھی دیئے گئے ہیں۔ خصوصی
ٹریننگ کے ذریعے یہ ونگ تیار کرنے کامقصدانہیں فاٹااورسوات سمیت خیبر
پختون کے دیگرحصوں میں تعینات کرناہے تاکہ وہاں فوج کو نکال کرفرنٹ
لائن ڈیوٹی دی جاسکے۔اس پلان پر٢٠٠٨ء میں اس وقت کے جنرل کیانی نے عمل
کیاتھاجب بلوچستان میں فوج کوپیچھے کرکے ایف سی کوآگے لایاگیا۔اب
بلوچستان میں ایف سی نے ذمہ داریاںسنبھالی ہوئی ہیں اوربغاوت کوبری طرح
کچل دیاہے جس کے جواب میں بھارت کی مددسے انتشاراور دہشتگردی پھیلانے
والے آئے دن معافی مانگ کرسیکورٹی اداروں کے سامنے ہتھیارڈال کرمعمول
کی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش
نظرفوج کے متبادل کے طورپرایف سی کوتیارکرکے فاٹااور پختونخواہ کے
مختلف علاقوں میں بھیجنااس لئے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ کہ ان علاقوں
میں ایک لاکھ اسی ہزارفوج کے مستقل قیام سے توازن خراب ہورہاہے۔
بھارت کے عزائم ہیں کہ ملک کے اندرونی حصوں میں خطرات پیداکرکے فوج کو
وہیں فکس کردیاجائے اوردوسری جانب پاکستانی کی سہ ملکی سرحدوں پر
محدودجنگ شروع کرکے پاکستان کوشدیددباؤمیں مبتلاکرکے اپناتابع کرکے سی
پیک کے منصوبے کوتباہ اور تیزی سے پاک ،روس اور چین اتحادکو سبوتاژ
کرکے اس خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کی جائے لیکن اب ایف سی کووہاں ذمہ
داریاں دیکرفوج کوواپس فرنٹ لائن پرڈیوٹی دینے کاعمل سرعت سے جاری ہے
جس سے بھارت کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔یادرہے کہ چین کے ساتھ لگنے
والی بھارتی سرحد پر جودباؤ بڑھایاہے ،اس میں پاکستان کی مشاورت بھی
شامل ہے۔سی پیک کے مشترکہ پراجیکٹ نے دونوں ممالک کے مفادات کوایک
کردیا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب مودی سرکارنے پاکستان کاپانی بندکرنے کی
بڑھک ماری تھی توچین نے جواب میں ارون چل پردیش میں بھارتی پانی بند
کرنے کاسخت انتباہ کیاجس پربھارت فوری طورپرسیدھا ہو گیا اورمودی نے
اپنے ہی تھوک کوچاٹنے میں عافیت جانی اوراس کے بعدکبھی بھی اس دہمکی
کاذکر کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام عوامل اورسیناریوعمران خان کی خواہشات میں
رکاوٹ ہیں۔پاکستان کے پالیسی میکراورچین دونوں ملک میں کسی قسم کی
افراتفری نہیں چاہتے جس کاپلان بناکرعمران خان ،نوازحکومت کوبے دخل
کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا انٹیلی جنس
اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کوہونے والے خطرات کی آڑ میں ملکی
دولت کو لوٹنے والوں کوکھلی چھٹی دے دی جائے ،آخرپاناماآف شور
کمپنیوں،سرے پیلس، غیر ملکی بینکوں میں محفوظ لوٹی ہوئی دھن
دولت،کمیشن،کک بیکس ،دیگرکرپشن اوربدعنوانی میں ملوث افرادکی بیخ کنی
کون اورکس طرح کرے گا؟؟سابقہ چیف جنرل راحیل کے زمانے میں جبکہ ہماری
بہادرافواج آپریشن ضربِ عضب میں مصروف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے
ملکی دفاع کاایک ریکارڈرقم کررہی تھیں ،اس کڑے وقت میں جنرل راحیل نے
اپنے ادارے میں کرپشن کے خلاف کاروائی کرکے پہلی مرتبہ تاریخ میں اعلیٰ
عہدوں پرتعینات فوجی افسروں کونہ صرف عہدوں سے برطرف کرکے کورٹ مارشل
کیابلکہ ان سے تمام لوٹی ہوئی ناجائز دولت کی وصولی کے ساتھ ساتھ ان
کوقانون کے مطابق سزا بھی سنائی گئی ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ ملک
کوافراتفری سے جہاں محفوظ رکھنے کی تدبیرکی جائے بلکہ پاناما اسکینڈل
میں چارسوسے زائد پاکستانی سیاستدانوں،تاجروں، فوجی
جرنیلوں،صنعتکاروں،ججوں اورصحافیوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کاآغاز
کیاجائے اوران افرادکوبھی کڑے احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاجائے جنہوں
نے اپنے دورِ اقتدارمیں جبری بھتہ کے نام پراربوں روپے وصول کرکے فرانس
،دبئی،سنگاپور، ملائشیا اور دیگرممالک میں اپنے عالی شان محلات
اورکاروباری ایمپائربنارکھی ہیں اوربدنام زمانہ ماڈل ایان علی کے توسط
سے لاکھوں ڈالرملک سے باہرمنتقل کئے اور اس معاملے کی تحقیق پرمامورایک
ایماندارانسپکٹرکوقتل کروادیاگیا،بالآخراسی ملک کی عدالت سےاس کو جیل
کی سلاخوں سے چھڑاکر ملک سے باہر فرار کرا دیا ۔کراچی کی جیل میں بند
پاکستان کے ایک خطرناک مجرم عزیربلوچ کے جرائم کی تفصیلات اکٹھی کرنے
والی جے آئی ٹی کی تفصیلات کی روشنی میں متعلقہ مجرموں کوکب کڑے احتساب
کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاجائے گا؟ |