یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کی دوبڑی
پارٹیوں کے سیاست دانوں نے ملک کے غریب عوام کے خزانے کو لوٹ بے دردی سے
اثاثے بنائے اور پھر ان اثاثوں کو مہارت سے بیرون ملک منتقل کر دیا۔ یہ تو
اﷲ کا کرم ہوا کہ بین الاقوامی صحافیوں نے دنیا کے سیاستدانوں کی آف شور
کپمنیاں دریافت کی جس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کے خاندان کے افراد کے بھی
نام تھے۔ دنیا کے ملکوں نے تو اپنے کیس نپٹا دیے مگرہمارے وزیر اعظم کو اس
کے پیچھے جمہوریت کے خلاف سازش نظر آئی ۔جب اپوزیشن نے اس پر شور مچایا تو
وزیر اعظم نے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ میں کہا کہ
میں اپنے آپ اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔عدلیہ کو خط
لکھا کہ اس کے لیے جیوڈیشنل کمیٹی بنائی جائے۔ عدلیہ نے کہا کہ پرانے قانون
کیمطابق یہ کام نہیں ہو سکتا ۔پارلیمنٹ نئے ٹی او آر بنائے تو اس کے مطابق
کاروائی ہو سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نئے ٹی او آر نہ بناسکی۔اس دوران
جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں درخواستیں
داہر کیں۔عدالت نے کیس سنا دو ججوں نے فیصلہ لکھا کہ وزیر اعظم کو عوامی
عہدے سے ہٹا دیا جائے ،تین ججوں نے فیصلہ لکھا کہ تین ماہ میں مزید تحقیق
کر لی جائے۔ عدالت نے ایک کے ٹی آئی بنائی جس میں ملک کی خفیہ ادارے کے
ممبران،اسٹیٹ بنک، احتساب بیررو کے ممبران کو تحقیق کے لیے ساٹھ ن کا وقت
دیا ان ساٹھ دنوں میں جے آئی ٹی نے اپنا کام مکمل کیا اور عدالت نے اپنا
فیصلہ محفوظ کر لیا جو کسی وقت بھی عوام کے سامنے آسکتا ہے۔ بار بار اقتدار
میں رہنے کی وجہ سے ملک کے سارے اداروں کے سربراہ ان دو بڑی پارٹیوں کے
تعینات کردہ ہیں جس وجہ ان کے خلاف عوام کے خزانے میں خرد برد پر کوئی بھی
ادارہ کاروائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں کرپشن سے
پاک جماعت اسلامی اور ایک ننی اُبھرتی ہوئی سیاسی جماعت نے خوب اُچھالا۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ،دونوں سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے میثاق
جمہوریت معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے تحت جمہوریت کو آمریت سے بچانے کی تدبیروں
پر اتفاق ہوا تھا۔جمہوریت کو بچانے کی بات تو عوام کو جھانسا دینے کی تھی۔
اصل میں ایک دوسرے کی لوٹ مار کو تحفظ دینا تھا۔ سپریم کورٹ میں سو سے
زیادہ میگا کرپشن کیسز لائے گئے جن پر ان اداروں نے کوئی بھی کاروائی نہیں
کی۔ بلکہ اس پر ملک کے اداروں نے چشم پوشی کی۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹ
کمیٹی نے ان اداروں کے سربراہوں کو جواب دہی کے لیے بلایا تو اوّل تو کئی
دفعہ بلانے کے بوجود وہ حاضر نہیں ہوئے۔ پھر کمیٹی اپنے اختیار استعمال
کرتے ہوئے ان اداروں کے سربراہوں کو حاضری کے لیے حتمی نوٹس جاری کیے۔
پھران اداروں کے سربراہ کمیٹی کے سامنے حاضرہوئے۔ وہاں سب نے یک زبان ہو کر
یہ کہا کہ ملک کے سربراہ کی کرپشن پر کاروائی کے لیے ان کے پاس اختیارات
نہیں یا کاروائی کے لیے یہ حضرات تیار نہیں۔ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ
داری کو پورا کرتے ہوئے اداروں کے سربراہوں کے کمیٹی کے سامنے جواب
کواپوزیشن نے عوام کے سامنے خوب اُچھالا ۔ اس سے عوام میں اپنے حکمران کی
کرپشن کے متعلق معلومات عام ہوئیں۔ پارلیمنٹ سے مایوس ہونے کے بعدحکمران
پارٹی کے ناجائز اثاثوں کے متعلق ملک کی تین پارٹیوں جماعت اسلامی،تحریک
انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں جودرخواستیں داہر کی ان پر
سپریم کورٹ میں کاروائی شروع ہوئی۔ کاروائی کے دوران سپریم کورٹ نے بھی نے
بھی ریمارکس دیے تھے کہ جن اداروں کا م کرپشن پکڑنا تھا ان اداروں نے اپنا
کا م نہیں کیا۔ عوام کے نمائندوں نے تو اس کرپشن کو پکڑنے کے لیے پارلیمنٹ
میں پورا زور لگایا۔ نواز شریف حکومت نے نئے ٹی اور آربنانے میں رخنے ڈالے
اور ڈیلیئنگ ٹکٹس اختیار کی تو پارلیمنٹ سے مایوس ہو کر جماعت اسلامی،
تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے کرپشن کے خلاف عدالت میں درخوستیں داہر
کیں۔ عدالت میں مقدمہ قائم ہوا کیونکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ عوام کے
پاس ان اثاثوں کو ملک واپس لانے کا کوئی بھی ذریعہ نہیں بچا۔ پاکستان کے
غریب عوام کے لیے یہ بات باعث اطمینان بنی کہ پہلی دفعہ حکمران اور حکمران
کے خاندان کو سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ان کے سوالات کا
جواب دینا پڑا۔ وزیراعظم کے بڑے بیٹے نے پیشی سے باہر آکر پریس کانفرنس کی
اور کہا کس بات کی معلومات کی جارہی ہیں اس تو ہمیں علم ہی نہیں ہمارے
اثاثے وہی ہیں جو ڈکٹیٹر مشرف دور میں تھے۔ یہی بات اسی طرح دوسرے بیٹے اور
بیٹی مریم نواز نے بھی باہر آکر پریس کانفرنس کر کے کہی۔جبکہ وزیر اعظم کہہ
چکے ہیں کہ مشرف دور میں ہمارے اثاثے زیرو تھے۔بعد میں ان کے خاندان نے
پہلے دبئی اور بعد میں سعودی عرب جدہ میں اسٹیل ملیں لگا کر اثاثے بنائے جس
کا ریکارڈ موجود ہے۔
یہ بات وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہی۔ مگر وزیر اعظم جے آئی ٹی کے
سامنے یہ ریکارڈ پیش نہ کر سکے۔لندن کے فلیٹ ،جس میں لندن کے دورے کے دوران
رہائش پذیر ہوتے رہے ہیں کہا کہ مجھے کچھ نہیں پتا۔ جے آئی ٹی نے اپنی
رپورٹ میں کہا کہ وزیر اعظم نے جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کیا ہر بات کا جواب
کچھ نہیں پتا کہہ کر دیا۔ نواز شریف نے بھی پیشی کے بعد باہر پریس کانفرنس
کر کے کہا کہ کٹپتلیوں کا تماشہ اب نہیں لگنے دیا جائے گا۔ ہم بیس کروڑ
عوام کی جے آئی ٹی کے سامنے جواب دہ ہیں۔۲۰۱۳ء میں بھی عوام نے ہمارا ساتھ
دیا اور نئی لگنے والی عوام کی جے آئی ٹی بھی ہمارا ساتھ دے گی۔ جمہوریت کی
عوام محافظ ہے اس کو ختم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وزیر اعظم صاحب !آپ پر
کرپشن کا مقدمہ قائم ہیں آپ اس کا جواب عدالت میں دیں۔ جمہوریت چلتی رہے گی
جمہوریت کو کون ختم کر رہا ہے۔ہاں آپ سے کرپشن کا حساب مانگاجا رہا ہے۔
عمران خانے اس کو فوج اور عدلیہ پر حملہ قرار دیا۔ آپ کے بغیر بھی جمہوریت
چلتی رہے گی ۔ اپنی جماعت کے کسی صاحب کو وزیر اعظم بنا دو انشاء اﷲ
جمہوریت کی عوام محافظ ہے جو اس کو رواں دواں رکھے گی۔ اس دوران جے آئی ٹی
نے حکمران جماعت ے کی طرف سے شدید دباؤ کے باوجود بڑی محنت اور ایمانداری
سے کام کیا۔ عوامی رائے کے مطابق جے آئی ٹی نے عوام کی امنگوں کے عین مطابق
اپنا کام کیا ۔ پورے ملک کے سیاسی، مذہبی رہنماؤں، وکلا، دانشوروں،کالم
نگاروں اورتجزیہ کاروں نے اپنے اپنے طور پر جے آئی ٹی کی تعریف کی۔حکمران
جماعت کے ترجمان نے نئی ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹی اور اپوزیشن پر آگ سے
کھیلنے کا الزام لگایا جبکہ وہ خود آگ سے کھیل رہی ہے۔جماعت اسلامی
اورتحریک انصاف نے انتھک کوشش کر کے عوام کے اندر کے کرپشن کے خلاف شعور کو
بیدارکیا۔ حکمران جماعت کے بے جاہ واویلے کے باوجود وزیر اعظم، ان کے بیٹوں
،بیٹی ، بھائی وزیراعلی پنجاب،وزیر خزانہ اور پیپرز مل کے حصہ داریعنی تمام
فریقین کو جے آئی ٹی میں پیش ہوکر اپنے بیان ریکارڈ کرانے پڑے۔ عدالت نے
تمام فریقوں کو پورا موقعہ دیا اور بڑی بردبار اور تحمل سے کیس سنا۔ جبکہ
حکمران پارٹی کے لوگوں نے جے آئی ٹی اور عدالت پر ہر پیشی کے بعد دباؤ ڈالا۔
قطری شہزادے کو نواز شریف گواہی کے لیے جے آئی ٹی میں پیش نہ کر سکے ۔جے
آئی ٹی نے قطری شہزادے کو گواہی کے لیے ہر ممکن سہولت پہچانے کا کہا۔
مگرتحریک انصاف کے مطابق قطری شہزادہ بیان ریکارڈ کرانے سے مکر کیا۔حکمران
پارٹی کے وزیر داخلہ چوہدری نثار خان بھی نواز شریف کو عدالت اور سیکورٹی
اداروں سے الجنے سے منا کرتے رہے ۔ مگر نواز شریف نے محروم ذوالفقار بھٹو
کی طرح قانون کو ایک طرف رکھ کر عدلیہ سے رعب اور دھب دبے کی پالیسی اختیار
کی جو کسی طرح بھی بھٹو کے لیے سود مند ہوئی تھی اور اب نہ ہی نوازشریف کے
لیے سود مند ہو سکتی ہے۔ اس موقعہ پر ذرائع کو پیپلز پارٹی کے مرحوم سینئر
رہنما یخییٰ بختیار اور اب نواز لیگ کے سینئر رہنما چوہدری نثار خا ن کا
نقطہ نظرصحیح نظر آتا ہے ۔ چوہدری نثار خان بھی نواز شریف سے ناراض لگتے
ہیں ۔ وہ بھی پریس کانفرنس میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے والے ہیں کہ عدلیہ
اورر سیکورٹی اداروں سے لڑائی مول نہیں لینی چاہیے تھی۔ اب عدالت نے فیصلہ
محفوظ کر لیا ہے جو کسی بھی لمحے سنایا جا سکتا ہے ۔عوام کا آخری سہارا
عدلیہ ہے اور تکبر میں مبتلا حکمرانوں کے خلاف کیا فیصلہ آتا۔ لگتا ہے کہ
اس فیصلے کے بعداﷲ ہمارے ملک کو جماعت اسلامی کے ماٹو کے مطابق کرپشن فری
ملک بنا دے آمین۔ |