نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والی اس معجزاتی اسلامی
ریاست کا ماضی گواہ ہے کہ عراق کویت لڑائی ہو یا عرب اسرائیل جنگ، صومالیہ
میں پھنسے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانی ہوں یا بوسنیا کے مسلمانوں کو
آزمائش کی گھڑیوں سے نکالنا، خانہ خدا کی حفاظت کرنی ہو یا کسی ملک کی فوج
کو تربیت دلانی، دنیا کو پاکستان یاد آتا ہے۔ درجنوں امیر ترین اسلامی
ملکوں کے ہوتے ہوئے سب کی امیدوں کا مرکز صرف پاکستان کیوں ہے؟اسرائیلی
ریاست کے ناجائز اور غیرقانونی قیام کو70 سال کا عرصہ گزر چْکا ہے۔ یہ
ریاست دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک سازش کے تحت امریکہ اور مغربی ممالک نے
قائم کی تھی تاکہ مسلمانوں کے عین درمیان ایک مستقل تنازعے کو جنم دیا جا
سکے۔ گذشتہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران امریکہ نے بالخصوص اور مغربی
ممالک نے بالعموم ہر ناجائز طریقے سے اسرائیل کو نہ صرف سپورٹ کیا ہے بلکہ
مضبوط اور مستحکم بنانے میں مدد کی ہے۔ آجکل اسرائیل اْن علاقوں سے کہیں
زیادہ علاقے پر قبضہ کر چْکا ہے جو 1948ء میں قیام کے وقت اْسے دیئے گئے
تھے۔ اس دوران دو باقاعدہ عرب اسرائیل جنگیں بھی ہوئیں مگر امریکہ اور مغرب
کی بھرپور مدد اور پشت پناہی کی بدولت دونوں جنگوں میں عرب ممالک کو شکست
ہوئی۔ اسرائیل کی حالیہ ریاستی جارحیت کو ئی نئی بات نہیں بلکہ ہر دو تین
سال بعد کوئی نہ کوئی جواز بنا کر اسی طرح کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے اور پھر
اپنے مقرر کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے بعد دْنیا پر احساس جتانے کیلئے حملے
بند کر دیئے جاتے ہیں اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ مزیدکئی سو مظلوم اور بے گناہ
فلسطینیوں کی جانیں لینے کے بعد یہ حملے روک دیئے جائیں گے اور دْنیا
بالخصوص امریکہ اور مغرب اسے اپنی سفارت کاری کی کامیابی بتاتے ہوئے
مسلمانوں پر احسان جتائیں گے۔ فلسطینی گذشتہ چھ دہائیوں سے اپنے جائز حق کی
خاطر نہتے لڑ رہے ہیں۔ اْنکا یہ حق اْنہیں بین الاقوامی برادری نے دیا ہے۔
تقریباً ہر سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطینیوں کے حق میں قرارداد
پاس کرتی ہے مگر اسرائیل کے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ اقوامِ
متحدہ کے مضبوط ترین فورم سکیورٹی کونسل میں جب بھی یہ مسئلہ اْٹھایا گیا
تو امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ امریکہ کے اندر یہودی لابی بہت متحرک اور
مضبوط ہے اور وہ اقتدار کے ایوانوں میں پالیسی سازی پر بہت اثر انداز ہوتی
ہے جس کی وجہ سے کسی بھی امریکی حکومت کے لئے اْسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
ایسی صورتحال کم و بیش یورپی ممالک میں بھی ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ
عرصہ سے تو اس سلسلے میں مسلم ممالک کا رویہ بھی انتہائی شرمناک رہا ہے۔
مسلم اْمہ کی خاموشی اور بے اعتنائی نے اسرائیل کو اور بھی شہ دی ہے جس کی
وجہ سے اْسکے مظالم اور ریاستی دہشتگردی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ اسلامی
کانفرنس اور عرب لیگ کے فورمز غیر موثر ہو چْکے ہیں۔ ہر اسلامی ملک اپنے
مسائل میں گِھرا ہوا ہے اور کوئی بھی امریکہ اور مغرب سے اْلجھنا نہیں
چاہتا اور اب تو بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ رسمی مذمتی قرارداد بھی پاس
نہیں کی جاتی۔ حالیہ اسرائیلی کارروائی کے بعد سے لیکر اب تک مسلم اْمہ میں
خاموشی طاری ہے خصوصاً عرب لیگ کے ممالک جو اس تنازع سے براہِ راست متاثر
ہیں وہ بھی خاموش ہیں۔ کسی نے اسلامی کانفرنس یا جنرل اسمبلی کا اجلاس
بْلانے کی بات یا کوشش نہیں کی۔ صرف پاکستان کے دفتر خارجہ اور وزیرِاعظم
نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مسلمان ممالک کی بے حسی کو
اْجاگر کیا ہے مگر اس سلسلے میں سفارتی سطح پر عملاً ہم نے بھی کْچھ نہیں
کیا۔ چْونکہ مسلم ممالک تقسیم اور انتشارکا شکار ہیں ۔مشرقِ وسطیٰ میں
مستقل قیامِ امن کی بات تو سب کرتے ہیں مگر عملاً کوئی کْچھ نہیں کرتا۔ یہ
امن اْس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی
ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔ یہ کام صرف اْسی وقت ہو گا جب امریکہ اپنی دوغلی
اور منافقت پر مبنی پالیسی کو چھوڑکر اخلاص کے ساتھ کوشش کرے اور اسرائیل
پر دباو ڈالے۔ امریکہ کا ہر صدر اس بات کا اظہار تو کرتا ہے مگر پھر مضبوط
یہودی لابی کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت کے کہ اس طر ح کے
جبر اور ظلم سے اسرائیل خود بھی کبھی محفوظ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی
فلسطینیوں کو دبا سکتا ہے۔ اس مسئلے کا پائیدار حل بہرحال ایک آزاد اور خود
مختار فلسطینی ریاست کے قیام میں ہی مضمر ہے جو کہ ایک نہ ایک دن ہوناہی ہے۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ اسرائیلی رویہ اور مشرقِ وسطٰی کی صورتحال
مسلمانوں میں انتقام اور شدت پسندی کو جنم دیتی ہے جس کا نتیجہ پھر امریکہ
اور مغرب کے خلاف انتہا پسندانہ کاروائیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ مسئلہ
فلسطینیوں کو بالخصوص اور مسلمانوں کو بالعموم ایک تحریک اور وجہ فراہم
کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس حقیقت کو سمجھیں اور
فلسطینیوں کو اْن کا جائز حق دیں۔ بجائے نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کے
فلسطینی اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست
قائم کی جائے ورنہ یہ قتل وغارت اسی طرح جاری رہے گی اور اس کا نقصان خود
اسرائیل کو بھی ہو گا۔ گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں
میں کئی نئی یہودی بستیاں آباد کی ہیں تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا
سکے مگر اْسکا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ غزہ اور مغربی کنارے میں رہنے
والے لاکھوں فلسطینی غربت اور افلاس کی زندگی گزاررہے ہیں لہذا مرنا اور
مارنا اْن کیلئے اب کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اْنکی زندگیوں کی ویسے ہی
کوئی زیادہ قیمت اور اہمیت نہیں رہی البتہ اسرائیل کیلئے وہ دردِ سر بنے
رہیں گے۔ ظلم اور بربریت کے اس ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے انتقام ،
نفرت اور اشتعال کے جذبے سے بھرپور ہوں گے جو علاقے کے امن اور اسرائیل
کیلئے کسی صورت ایک نیک شگون نہیں۔ اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ ایک
موثرآواز کے طور پر متحد ہوں تاکہ بے وقعت اور بے معنی نہ ہو جائیں۔پاکستان
کو چاہئے کہ وہ اسلامی ممالک سے فوری اور مؤثر رابطوں کے ذریعے آو آئی سی
کی میٹنگ بلائے جس میں تمام ممبر ممالک کو ایک مضبوط قرارداد کے ذریعہ
پابند کیا جائے کہ وہ فلسطین پر حملے بند نہ کرنے یا آئندہ ایسی صورتحال
دوبارہ پیدا کرنے کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تمام سفارتی اور تجارتی
تعلقات ختم کر دیں۔ آو آئی سی جنگی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کے خلاف
عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔ اگر اسرائیل عالمی قوانین کا پابند نہیں تو
مسلمانوں کو بھی اسرائیل کے سرپرست ملکوں کے ساتھ معاشی معاہدوں میں غیرت
کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ حکومتی سطح پر پاکستان کو بھرپور احتجاج کرنا چاہئے
اور اسرائیل کی مصنوعات پر پابندی لگانی چاہئے۔ پاکستان اپنی روایات کو
برقرار رکھتے ہوئے اقوام متحدہ پر زور ڈالے کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی
قوانین کا پابند بنانے کے لئے اپنے تمام ذرائع استعمال کرے تاکہ نہتے
فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو سکے۔ |