بہار کے صوبائی الیکشن میں دو غلطیاں وزیراعظم نریندر
مودی کو بھاری پڑگئیں حالانکہ دونوں مرتبہ وہ ان کی بات درست تھی۔ پہلی بات
تو یہ تھی کہ نتیش کمار کے ڈی این اے میں دغابازی ہے۔ نتیش کمار کے بارے
میں یہ دعویٰ مودی جی نے ان کی ۱۷ سالہ رفاقت کی بنیاد کیا تھا اس لیے کہ
وہ ان کی رگ رگ سے واقف تھے لیکن نتیش نے بڑی مہارت اس کو بہاریوں کے وقار
کا مسئلہ بنادیا ۔ بی جے پی والے یہ کہتے کہتے تھک گئے کہ تبصرہ بہاریوں پر
نہیں ہے مگر نتیش کمار پرہے مگر بڑی مکاری کے ساتھ اس کو صوبے کے سارے
بہاریوں کی توہین قرار دے دیا گیا اور اس کو گجرات کے مقابلے بہار تنازع
بنا کر پیش کیا گیا۔ ایک زمانے تک گجرات میں وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر
مودی بھی یہی گورکھ دھندہ کرتے رہے۔ ان کی مجرمانہ حرکتوں پر جب مرکز کا
شکنجہ کستا تھا تو وہ اسے اپنی ذات سے پھیلا کر پورے صوبے کی عوام پر دہلی
کا حملہ قرار دے دیتے اور عوام ان کے جھانسے میں بہ آسانی آجایا کرتے تھے
۔ مودی جی نےگجرات کے تین انتخابات میں اسی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کی
تھی ۔نتیش کمارنے بھی اسی حربے کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرلیا ۔
اندرا گاندھی سے لے کر نریندر مودی اور نتیش کمار تک میں یہ قدر مشترک ہے
کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی یا صوبائی مفاد سے منسلک کردیتے ہیں ۔ یہی
سوچ ہے کہ جس نے کبھی اندرا گاندھی کے بارے میں کہلوایا تھا’اندرا ہی انڈیا‘
ہے۔ آج کل یہی نقطۂ نظر مودی کے دشمنوں کو ملک کا دشمن قرار دے دیتا ہے
اور مودی کے مخالفین کو ان کے رادھا موہن سنگھ جیسے لگ نہ صرف پاکستان جانے
مشورہ بلکہ جبراً پاکستان بھیجنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ بہار کی عوام
سےکہا گیا کہ وہ اپنے ناخن کے نمونے جمع کروائیں تاکہ انہیں دہلی روانہ کیا
جاسکے اور ساری دنیا کو پتہ چل جائے کہ بہاریوں کے ڈی این اے میں کیا ہے؟
اس وقت خوش قسمتی سے نتیش کے ساتھ لالو پرشاد یادو کھڑے تھے جنہوں نےبڑی
خوبی کے ساتھ اسے عوامی مسئلہ بنادیا ۔
نتیش کمار کے اندر عیاری و مکاری تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن عوامی
لہر پیدا کرنے صلاحیت نہیں ہے اس لیے انہیں ہمیشہ کسی نہ کسی بیساکھی ضرورت
پیش آتی ہے ۔ ۱۷ سالوں تک بی جے پی سے یہ کام لے کر وہ وزیراعلیٰ بنے رہے
مگر پچھلے صوبائی انتخاب سے قبل وہ پھر ایک بار اپنے پرانے دوست لالو پرشاد
یادو کی گود میں جابیٹھے ۔ یہ وہی لالو پرشاد یادو ہیں جن کے ساتھ نتیش
کمار نے اپنی سیاسی زندگی شروع کی تھی اور جن کے کندھے پر بیٹھ کر وہ سیاست
کی دنیا میں آئے تھے مگر آگے چل کرانہیں کی پیٹھ میں بی جے پی کا ترشول
گھونپ کر وہ پہلے مرکزی وزیر اور پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ نتیش نے پھر ایک
بار پھر اپنی پرانی موقع پرستی کی روایت کو دوہرا کر بشیر بدر کی مشہور غزل
کا مطلع یاد دلا دیا ؎
بےوفا باوفا نہیں ہوتا
ختم یہ فاصلہ نہیں ہوتا
نتیش کمار کی ابن الوقتی نے ان کے اور لالو یادو کے درمیان فاصلے پیدا
کردیئے مگر اسی کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ان کی دوریوں کو مٹا
دیا ۔ نتیش کے فاصلوں کا بننا اور بگڑنا خالصتاً سیاسی مفاد کے پیش نظر
ہوتا ہے۔ یہی چیز جب بی جے پی کے قریب لے جاتی ہے تو ان کی زبان پر
بدعنوانی کا نعرہ ہوتا ہے اور جب بی جے پی سے دور لے آتی ہے تو سنگھ
پریوار کی فسطائیت کا حیلہ ہوتا ہے۔ پچھلے قومی انتخاب میں انہوں نے
مونگیری لال کی مانند خواب دیکھتے ہوئے وزیراعظم بننے کے چکر میں نریندر
مودی کی فرقہ پرستی کا بہانہ بناکر بی جے پی سے دامن چھڑا لیا تھا۔ مسئلہ
نریندر مودی سے نہیں تھا اس لیے کہ گجرات فساد کے بعد بھی انہوں نے نہ بی
جے پی کو چھوڑا تھا اور نہ مودی کی مخالفت کی تھی ۔ ہوا یوں کہ جب سب کو
یقین ہوگیا کانگریس کے دن لد چکے ہیں اور بی جے پی نے مودی کو اپنا امیدوار
بنا دیا تو نتیش کو لگا مودی تواکثریت نہیں لاسکتے اس لیے اگر پھر سے
تیسرےمحاذ کی قسمت کھلتی ہے تو دیوے گوڑا کی طرح ان کی بھی لاٹری لگ سکتی
ہے۔ اصل بات تو یہ تھی لیکن اس کےاظہار کی جرأتنہیں تھی جیسا کہ غزل کا
اگلا شعر ہے؎
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
قومی انتخاب کے نتائج نے نتیش کے سارے خواب چکنا چور کردیئے اور وہ بی جے
پی کے مقابلےچاروں شانے چت ہوگئے ۔ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے انہوں
نے وہی حربہ استعمال کیا جو اس بار کیا ہے یعنی استعفیٰ پیش کردیا اورجتن
رام مانجھی کو وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔ مانجھی نے اپنی وفاداریاں بدل
کر بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کیں تو ان کو برخواست کرکے خود
وزیراعلیٰ بن گئے اور یہی موقعہ تھا کہ جب بغض معاویہ میں لالو یادو نے
نتیش کمار کی حمایت کردی۔ لالو کا یہ داوں کامیاب رہا انہوں نے نتیش اور
کانگریس کو ساتھ لے کر بی جے پی کو دھوبی پچھاڑ دیا جس کی توقع کسی کو نہیں
تھی۔ لالو جی نہایت مقبول ریلوے وزیر رہے ہیں اس لیے وہ بھی وزیراعظم بننے
کا خواب دیکھتے ہیں ایسے میں سب سے بڑی پارٹی بن جانے کے باوجود انہوں نے
دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ اپنے بیٹوں کو وزارتیں
تھما کر خود سنگھ مکت بھارت کا نعرہ بلند کردیا۔
قومی انتخاب نے جس طرح نتیش کمار کی غلط فہمی دور کردی اسی طرح صوبائی
انتخابات کے نتائج نے مودی جی کی خوش فہمیوں کا خاتمہ کردیا اور دونوں اس
نتیجے پر پہنچ گئے کہ بہار کی حد تک ان کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں
ہوسکتا۔ اسی کے ساتھ ایک نئی سازش کا آغاز ہوگیا جس میں ایک طرف نتیش کمار
کی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کی جاتی تھی بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی تعریف و
توصیف بھی ہوجاتی تھی اور لالو یادو پر یکے بعد دیگرے چھاپے پڑتے تھے۔ نتیش
کمار اور ان کے سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کے خلاف ۱۱ہزار کروڈ
سے زیادہ کی بدعنوانی کا ایک مقدمہ ۱۳ جولائی ۲۰۱۲ کو قائم ہوا تھا جو
ہنوز التواء میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لالو یادو بدعنوان ہے لیکن
ہندوستانی سیاست کے گندے تالاب میں پاک صاف کون ہے؟ مودی جی اپنے ساتھ
اڈانی اور امبانی کو لے کر کیوں گھومتے ہیں اور نتیش کے پاس انتخابی مہم
چلانے کیلئے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ لیکن لالوجی پر کارروائی کرکے مودی جی
نے نتیش کمار کو یہ پیغام دے دیا کہ یہی سب تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس
سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ پھر سے ہمارے شرن میں آجاو اور اقتدار کے مزے
لوٹو ۔ یہی وہ مجبوری ہےکہ جس نےنتیش کمار سے استعفیٰ دلوایا ہے بقول بشیر
بدر؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بےوفا نہیں ہوتا
نتیش کمار کے تیور اس وقت سے بدلنے لگے تھے جب سارا ملک نوٹ بندی کے عتاب
میں گرفتار تھا ۔ ساری قوم اےٹی ایم کی قطار میں کھڑی کردی گئی تھی ۔ ایک
موقع پر خود مودی جی کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور رونے دھونے
لگے تھے نیز انہوں نے ۵۰ دن کا وقت مانگ کر بصورتِ ناکامی کسی بھی چوراہے
پر پھانسی چڑھ جانے پر رضامندی کا اظہار کردیا تھا ۔ جب ۵۰ دن بعد بھی
حالات نہیں سنبھلے تو لالو یادو نے اپنے خاص انداز میں سوال کیا کہ مودی جی
اب بتائیے کہ کس چوراہے پر پھانسی دی جائے لیکن نتیش کمار نے حزب اختلاف کے
خلاف نوٹ بندی کی تعریف میں کہہ دیا کہ اس سے غریبوں کا فائدہ ہواہے اور
بدعنوانی کو لگام لیح ہے۔ خیر اس بات کو ٹال دیا گیا لیکن صدارتی انتخاب سے
قبل بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آگئی۔ نتیش کو گھیرنے کے لیے حزب اختلاف
نے اپنا امیدوار بدل دیا اور بہار کی رہنے والی دلت خاتون میرا کماری کو
نامزد کردیا لیکن نتیش ٹس سے مس نہیں ہوئے اس لیے کہ اب انتظار ناممکن
ہوگیا تھا اور وہ دن دہاڑے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کھل کر بی جے پی کی حمایت
میں نکل آئے بقول شاعر ؎
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
بہار صوبائی انتخاب کی مہم کے دوران مودی جی نے نتیش کمار کے ساتھ قومی سطح
کے کئی پروجیکٹس کی سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ایک عوامی جلسے میں خطاب کرتے
ہوئے کہا تھا اٹل جی نے بہار کو ۱۲۰۰۰کروڈ دیئے تھے کانگریس نے صرف ۱۰۰۰
کروڈ دیئے۔ اس کے بعد انہوں نے نیلامی کے انداز میں عوام سے پوچھنا شروع
کیا میں کتنے دوں ؟ ۴۰ ہزار کروڈ ، ۵۰ ہزار کروڈ یہاں تک کہ اس رقم کو
سوالاکھ کروڈ تک لے گئے۔ مودی جی کے اس رویہ کو لالوجی نے خوب آڑے ہاتھوں
لیا اورسوال کیا کہ کیا وہ اپنی جیب سے بہاریوں کو بھیک دے رہے ہیں۔ نتیش
کمار نے اس کو رشوت کے مترادف قرار دیا ۔ بہار کی عوام نے مودی کے اس تماشے
کو دھتکار دیا ۔ مودی کی رشوت ان کی منھ پر دے ماری لیکن افسوس کے اسی عوام
کے رہنما نے بدعنوانی کی مخالفت کا بہانہ بناکر دونوں ہاتھوں سے رشوت سمیٹ
لی اور اپنے ضمیر کا سودہ کردیا۔ نتیش کی نیلامی پر پروین شاکر کا یہ شعر
صادق آتا ہے ؎
پوچھا موسم بدلتے ہیں کیسے
تم نے اپنی مثال دی ہوتی
|