سابق صدر پرویز مشرف کی رخصتی کے ایام بڑے افسوس ناک
رہے۔ان کی رخصتی الٹی ہوگئی سب تدبیریں جیسی قرار دی جائے تو بے جانہ
ہوگا۔بے نظیر بھٹو سے این آراوکرکے اگلے پانچ سالوں کی صدار ت بچائے بیٹھے
تھے۔مگر این آر او نہ بے نظیر کو بچاپایا نہ پرویز مشرف کو دونوں نے اپنے
اندازے غلط ہونے کی سزا پائی ۔انہیں اس جرم کی سزا بھی ملی جو منافقت کی
شکل میں دونوں سے سرزد ہوا۔ مشر ف نے کئی برس نوازشریف اور بے نظیر کو کرپٹ
او رنااہل قرار دینے میں گزارے تھے ۔ان کا پراپیگنڈہ یہی رہا کہ یہ دونوں
ملک کو لو ٹ کر کھاگئے۔میں انہیں نہیں آنے دوں گا۔دوسری طرف بے نظیر بھٹو
این آر او رپر آمادہ ہونے کے دن بھی اب راج کرے گی خلق خدا کا بے منظق نعرہ
لگاتی رہیں۔جب اٹھارہ اکتوبرکو بے نظیر واپس آئیں۔اس دن بھی قوم سے حقیقیت
چھپائی گئی۔وہ آمریت کی ایک اور تابع وزیر اعظم بن کر آرہی تھی ۔مگر زبان
پر جمہوریت او رعوام کے درد کی باتیں تھیں۔مشرف نے بھی یہی رول
نبھایا۔منافقت کی انتہا دیکھیے کہ کہا جاتارہا۔کہ چوروں کو نہیں آنے دوں
گا۔مگر عملا این آراو پر سائن کرکے انہی چوروں کو حکومت دینے کی راہ
نکالی۔منافقت ۔جھوٹ اور مکر وفریب کے ہاتھوں این آراو رکے تمام سٹیک ہولڈر
نے سزاپائی۔جس دن مشر ف رخصت ہورہے تھے۔یہ منافقانہ روش تب بھی جاری
رہی۔حضرت نے اپنی شاندار کامیابیوں کا ذکر کیا ۔قوم اور سسٹم سے بے مروتی
کا گلہ کیا۔جاتے ہوئے اب پاکستان کا خدا ہی حافظ کہ کر رخصت ہوگئے۔وہ اپنے
تئیں بڑے طرم خاں اور بلند پایہ لیڈر بنے رہے ۔مگر حقیقت یہ کہ جس دن وہ
گئے۔کسی ایک جماعت یا شخص کی آنکھ نہیں بھیگ پائی۔
وزیر اعظم نوازشریف کو چت کرنے کے بعد اپوزیشن میں جشن کا سمان ہے۔ایک
دوسرے کو مبارک بادیں دیتے حزب اختلاف کے لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما
رہے۔انہیں ایک لمبی جدو جہد کا کیا خوب صلہ ملاہے۔اب یہ لوگ مستقبل کے
سہانے سپنوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔منزل ان کو قریب نظر آرہی ہے۔مگریہ منزل تک
پہنچ بھی پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے دن کریں گے۔وزیر اعظم کی
نامزدگی کے کاغذات جمع کروانے کے دوران اپوزیشن میں جو تیوں میں دال بٹنے
کا جو مظاہر ہ ہوا ہے ۔اس کے بعد منزل کے قریب آنے کے امکانات کم ہوگئے
ہیںَ۔آٹھ کے قریب سیاسی دھڑوں نے بھی آپس میں اتفاق کرنے میں ناکامی
پائی۔حکومتی امیدوار کے مقابلے میں متفقہ امیدوار لانے کا خواب پورا نہ
ہوپایا ۔اپوزیشن کی طرف سے پانچ مختلف لوگ میدان میں آنے کے بعد صورت حال
حکومت کے حق میں چلی گئی۔۔وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کو ابھی ایک ہفتہ
بھی نہیں ہوا۔او راپوزیشن نے اپنے اپنے راستے جدا کرلیے آگے چل کر جانے کیا
ہوگا۔اس طرح کی صورت حال منزل کودور کررہی ہے۔اگر آگے چل کر یہ تفریق
بڑھی۔اپوزیشن نے تلواریں ایک دوسرے کے خلاف نکال لیں تو پھر منزل دور بلکہ
بہت دور چلی جائے گی۔بہتر ہوتا۔شیخ رشید یا خورشید شاہ کا نام فوری طور پر
سامنے نہ لایا جاتا۔اے پی سی ٹائپ میٹنگ کرکے اس میٹنگ میں کسی ایک نام پر
اتفاق کرلیا جاتا۔اگریہ نام تحریک انصاف یا پی پی میں سے کسی جماعت سے
ہوتا۔تو زیادہ قابل قبو ل تھا۔شیخ رشید کا نام سن کر کئی جماعتیں بدک
اٹھیں۔اگر کوئی معقول شخص اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنالیا جاتاتو شاید یہ
صورتحال نہ ہوتی۔
وقت کا پہیہ الٹا گھومنے لگاہے۔نوازشریف کی نااہلی سے قبل حکومتی حلقے دباؤ
کا شکار تھے۔اور اپوزیشن والے شیر بنے ہوئے تھے ۔اب صورت حال یکسر بد ل
چکی۔اب حکومتی حلقوں میں اطمینا ن نظر آرہاہے۔او ربے چینی نے اپوزیشن کا رخ
کرلیاہے۔شکار کو گرانے کے بعد اب اس کے حصے بندی کا مرحلہ ہے۔جس کے سبب یہ
اختلاف بڑھے۔جب اسلام آباد جلسے میں عمران خان نے کہا کہ زرداری اب تمہاری
باری ہے۔تمہاری کرپشن کو بے نقاب کروں گا۔تو اس کا جواب اگلے ہی دن قائد
حزب اختلاف خورشید شاہ نے یہ کہ کردے دیا۔کہ نوازشریف کو نااہل کروانے میں
ستر فیصد کا کریڈت پی پی کو جاتاہے۔انہوں نے تحریک انصا ف کی قیادت کو بیان
بازی میں احتیاط کرنے کی تلقین کی۔خان صاحب کی یہی جو ش خطابت تھی جس نے
بعد میں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار سامنے نہیں آنے دیا۔آج شاہد خاقان عباسی
کے مقابلے میں اپوزیشن کے پانچ مختلف لوگ کھڑے کیے گئے ہیں۔لیگی امیدوار با
آسانی جیت جائے گا۔کیا اپوزیشن چاہے گی۔کہ اگلے الیکشن میں بھی ان کی تقسیم
کے سبب شریف فیملی دوبارہ ان کے سروں پر آن بیٹھے۔عمران خاں کا آدھا زعم
ٹوٹ چکا انہیں اندازہ ہوچکا کہ تنہا پروا زسے وہ کبھی حکومت نہ پاسکیں
گے۔انہوں نے پارٹی میں دوسری جماعتوں سے آنے والے پنچھیوں کو اسی تبدیلی
فکر کے سبب قبول کیا ہے۔انہیں اب دوسری جماعتوں کو بھی قبول کرنے کا ذہن
بنانا ہوگا۔شریف فیملی نے برسوں کی محنت او رپلاننگ سے جو نام بنایا ہے۔اسے
مٹانا آسان نہیں ۔ابھی صر ف نوازشریف ہی کو راستے سے ہٹایا جاسکاہے۔مگر
اقتدار کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ اپوزیشن کی باہمی تعاون کی صورت حال تسلی
بخش نہیں ۔اقتدار پر برجمان ہونے کی تمنا پرمحض یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہنو
زدلی دوراست۔
|