عارضی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، وعدہ پورا کرنا۔۔۔۔۔

عارضی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے بعد انہی کو کچھ یاد دلانے کیلئے لکھی گئی اک تحریر

عارضی وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی صدر مملکت سے حلف لے رہے ہیں ۔۔۔

وطن عزیز کے 29ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے بلاآخر حلف اٹھا لیا۔ نئے وزیر اعظم اس دن اور اس وقت کے ساتھ حالات کو اور عوام ان کے طرز سمیت ان کی جماعت کے طرز عمل کو کبھی نہیں بھولیں گے ۔ تاریخ میں یہ لکھاجائیگا کہ شاہد خاقان عباسی نے حلف جس دستور کے تخت اٹھایا اسی دستور کی خلاف ورزی بھی انہوںنے اپنی پہلی تقریر میں کر ڈالی۔ ان کی ساری باتوں سے یہ عیاں تھا کہ چہرہ ان کا ہے ، الفاظ بھی ان کے ہیں لیکن دراصل وہ عارضی ہیں ، ان کے الفاظ ان کے جذبات کو عیاں کررہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم جنہیں اب سابق کہا جاتا ہے وہ اس وقت بھی وزیر اعظم کی نشست پر موجود ہیں اور انہیں وہ اس ملک کا ایک بار پھر ویزر اعظم بنا کر ہی دم لیں گے ۔ ان کی نظر میں اس ملک کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کا اور اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی وقعت نہیں ۔ نادم اور شرمندہ ہیں ہر وہ مخلص قوم پرست جوکہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اس انداز میں حکمران جماعت کو نہیں اڑانی چاہئیں تھیں ۔ جب سپریم کورٹ نے انہیں ناہل قرار دے دیا تھا اور ان پر پابندی عائد کردی تھیں تو اس صورتحال میں کہاں یہ زیب دیتا ہے کہ ان کی تصاویر اٹھا کر قومی اسمبلی میں لائی جائیں۔ ان کے حق میں نعرے لگائے جائیں۔ اس کے ساتھ یہ عمل بھی ان سیاستدانوں کا قابل حیرت ہے کہ وہ نئے عارضی وزیر اعظم کو ہر طرح سے داد دے رہے تھے ۔ ان رہنماﺅں میں باریش مولانا بھی تھے اور بغیر مونچ و داڑھیوں والے اراکین بھی ۔ پھر نئے عارضی وزیر اعظم کو اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے تھا کہ ان کی محالف جماعت کا ایک رہنما ان سے ہاتھ ملانے تک تیار نہیں ۔۔۔۔

نئے عارضی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ جب ان کے اصل وزیر اعظم نواز شریف نے ماضی میں حلف لیا تھا تو یہ کہا تھا کہ وہ شہر قائد کراچی جاکر قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ضرور ملاقات کریں گے۔ لہذا جب وہ وہ شہر قائد آئے تو انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ ، بیٹی اور بیٹے کو گورنر ہاﺅس بلایا اور ان سے دیگر حکومتی اکابرین کی موجودگی میں ملاقات کی اور یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جلد باعزت رہائی دلواکر وطن واپس لے آئیں گے ۔ اپنے پہلے دورہ امریکہ میں وہ امریکی صدر باراک اوبامہ سے ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر بات کریں گے اور ان کی واپسی کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔

اس ملاقات کے بعدڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کے چہروں پر کچھ سکون کے آثار نمودار ہوئے اور عصمت صدیقی جو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ ہیں ، جوکبھی بھی نہ امید نہیں ہوئیں ، جنہیں اب بھی امید ہے کہ ان کی بیٹی ، اس قوم کی بیٹی وطن واپس ضرور آئیگی ، ان کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والے جو بھی حالات کی وجہ سے قدرے مایوس ہوتے تو ان کی ہمت اور حوصلے کو عصمت صدیقی کی آگے بڑھاتیں۔ عافیہ موومنٹ کے سبھی انہیں نانی اماں کے نام سے پکارا کرتے تھے اور تاحال پکار رہے ہیں ۔ بیٹی کی واپسی سے متعلق نانی اماں کبھی بھی مایوس نہیں ہوئیں ۔

وزیر اعظم عباسی صاحب، وقت گذرتا بلکہ تیزی سے گذرتا رہا اور آپ کے قائد کی باتوں پر ، ان کے وعدوں پر دھول مٹی جمتی رہی ۔ وہ بھولتے رہے کہ انہوں نے بھی کوئی ایسا وعدہ کیا تھا کبھی ، جانے کیوں انہوں نے یہ عمل کیا ؟ ایک سال دو سال او ر اس کے بعد تین اور اب تو قریبا چوتھا سال ہے کہ انہوںنے قوم کی بیٹی کے متعلق قوم سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ نہ ہی کوئی بھی ایسا اقدام اٹھایا کہ جسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے مثبت قدم تصور کیا جاتا ۔ پھر پانامہ لیکس آگیا اور آتے ساتھ ہی بہت کچھ دنیا میں اکھاڑ پچھاڑ گیا ۔ اسی پانامہ لیکس میں آپ کے وزیر اعظم کا بھی نام آیا اور محالفین نے آپ کے نواز شریف کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ جو بڑھتے بڑھتے عدالت تک پہنچا اور عدالت میںجب مقدمہ چلا تو پانچ ججز میں سے دو نے کہا کہ نواز شریف پاس نہیں ہیں اور تین نے یہ تو نہیں کہا البتہ حکم دیا کہ ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ اس بات کو سن کر آپ سمیت آپ کے رہنما اور تمام کارکنان نے جی بھر کے مٹھائیاں کھائیں ۔ تحقیقات کا آغاز ہوا اور آپ کے وزیر اعظم کو ان کے دونوں بچوں کو اور ایک بیٹی ، سبھی کو بلایا گیا ۔

حسن ، حسین اور مریم سمیت نواز شریف بھی بادشاہوں اور شہزادوں کی طرح اس کمیٹی کے سامنے حاضر ہوئے ، وہ دن بھی یاد رکھنا کہ جس دن نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو پیشی کیلئے لے جایا جارہا تھا تو اس وقت اسلام آباد میں یہ بینرز لگ گئے تھے کہ قوم کی بیٹی کو عدالت میں بلایا گیا ہے غرض اس دن نواز شریف کو اپنی مریم یاد تھی لیکن اس دن انہیں ڈاکٹر عافیہ کی مریم یاد نہیں تھی ، جس کے سر پر یاتھ رکھ کر انہوں نے کہا تھا کہ جس طرح میری مریم ہے اسی طرح یہ بھی میری مریم ہے ۔ لیکن اس دن پوری انسانیت کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ قوم کی بیٹی کس طرح کی ہوتی ہے اور اس کے لئے سوچ کس طرح کی رکھی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز کیلئے اک باوردی سرکاری خاتون افسر سلوٹ کرتی ہیں ،یہ عمل قابل مذمت ہے کیونکہ وردی والوں کو سلام کرنے کے آداب بتادیئے جات ہیں لیکن یہاں ان آداب کوخاطر میں لائے بغیر یہ قدم اٹھایا گیاجس پر بعدازاں تنقید کی گئی ۔۔۔۔

بہر حال نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے اور اب یہ ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی ہے لہذا آج آپ سے یہ کہنا ہے ، یہ یاد دلانا ہے کہ آپ کے قائد نے قوم کی بیٹی کی رہائی کے حوالے سے جووعدہ کیا تھا وہ ، انہوں نے پورا نہیں کیا لہذا اب وقت آپ کے پاس ہے ، بال آپ کے کورٹ میں ہے ، منحصر آپ پر ہے دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس طرح کا عمل ،ردعمل کرتے ہیں ۔ اپنے قائد کی زبانی بگھت کرتے ہیں یا واقعی ان کی کہاوت پر عمل پیرا بھی پوتے ہیں ۔ ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرتے ہیں یا یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب انہوںنے قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے کچھ نہیں کیا تو آپ بھی کچھ نہیں کریں گے؟؟؟

دونوں صورتوں میں اب ذمہ داری آپ کی ہے ، آپ بھی باپ ہیں اور آپ کی بھی بیٹیاں ہونگی ، اس وقت آپ اس قوم کے قائد ہیں اور اس لحاظ تمام تر ذمہ دار آپ ہی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اس یاد دہانی کے بعد آپ اس ملک کیلئے ، اس قوم کیلئے اور اس سے بھی بڑھ کر اس امت اور انسانیت کیلئے کچھ کرتے ہیں یا اپنی پہلی تقریر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہی اقدامات کرتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ نواز شریف کو قوم کی بیٹی کے اہل خانہ سمیت پوری قوم عافیہ کے معاملے پر معاف نہیں کرے گی اور اگر آپ نے بھی ان کے نقش قدم کو ہی اپنائے رکھا تو قوم کیا پوری انسانیت آپ کو بھی معاف نہیں کرے گی۔ لہذا قائم مقام عارضی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، یہ یاد رکھنا کہ ان 45دنوں میں آپ 45مہینوں کا کام کریں یا 450دنوں کا دونوں صورتوں میں آپ کو قوم کی بیٹی کی باعزت رہائی اور واپسی سے متعلق اپنے قائد کے وعدے کو پورا کرنا ہے۔۔۔
 

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 201 Articles with 182542 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More