میاں نواز شریف کی سیاست دم توڑ چکی ہے یا اب وہ ایک نئی
طرز کی سیاست شروع کریں گے۔ سپریم کورٹ سے وہ کیسے نااہل قرار پائے۔ صادق
اور امین کون ہے۔ کون کرپٹ ، گارڈ فادر اور مافیا ہے۔ یہ ایک پنڈورا بکس
ہے۔جو کھل گیا تو کئی کااس جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ جیت کس کی ہوئی
، عمران خان نے کیا پایا۔ شریف خاندان نے کیا کھویا۔یہ سب جان لیں گے۔آج پی
ٹی آئی ، ق لیگ، پی پی پی، شیخ رشید مٹھائیاں تقسیم کریں گے تو کل وہ آئین
کی دفعات 62اور 63سے کیسے بچیں گے۔ان دفعات کو عدالتی بغاوت یا جوڈیشل
مارشل لاء کا نام دیا جارہا ہے یا 58 ، 2 بی کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔
آج حکمران مسلم لیگ ن سے وابستہ لوگ سکتے میں ہیں۔ میاں نواز شریف بھی اس
طرح کے عدالتی فیصلے کی امید نہ رکھتے تھے۔ سب حیران ہیں۔ مگر جے آئی ٹی
میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شمولیت کے بعد سے کوئی خوش فہمی میں کیسے
رہا۔ آج لوگ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر آراء پیش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے
ہمدرد عدالتی فیصلے کو جوڈیشل مارشل لاء قراردیتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے، پی
پی پی کے ہمدرد اپنی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔مگر اس کو پاکستان کے مخصوص
حالات سے الگ رکھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کبھی میاں نواز شریف کے وکیل تھے۔انصاف
کا تقاضا ہے کہ وہ نااہلی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست اور فل کورٹ کی
سماعت کے لئے قانون کے مطابق غور کر سکتے ہیں۔ دفاع کا موقع ہر کسی کو ملنا
چاہیئے۔ عدالت کا فیصلہ نواز شریف نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر تسلیم کیا ۔
وزارت عظمی چھوڑ دی۔ وزیراعظم ہاؤس فوری طور پر خالی کر دیا۔ عدالتی حکم پر
فوری عمل در آمد مسلم لیگ ن کی بہترین حکمت عملی ہے۔ عدلیہ کا احترام سب
پرضروری ہے۔ اس میں موجود سقم (اگر کوئی ہیں )مد نظر رہیں تو پارلیمنٹ میں
قانون سازی ہو سکتی ہے۔ مگر اداروں میں محاذ آرائی یا تصادم کے بجائے
مفاہمت ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی نا اہلی کے
خلاف ٹوکن احتجاج کیا۔ ان کے مظاہروں میں تشدد نہ تھا۔ مظاہروں نے طول بھی
نہ پکڑا۔ پارٹی عوام کی عدالت میں جانے اور سرخرو ہونے کی امیدیں باندھے
ہوئے ہے۔ یہ درست اور دور اندیشانہ پالیسی ہو سکتی ہے۔ملک میں مفاہمت کی
سیاست کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کی لاہور آمد کا معاملہ ہو یا
بھارتی صنعت کار سجن جنڈل کی مری آمد، اس سے اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بلا
شبہ ن لیگ کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہوں گے۔ جبکہ بھارتی حاضر سروس کرنل
جاسوس کلبھوشن جادیو کی عالمی سطح پر تشہیر نہ ہونا بھی غلط فہمیوں کا باعث
بنا ہو گا ۔ نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں برہان وانی کو
آزادی کا مجاہد قرار د کر تحریک آزادی کی کھل کر حمایت کی۔ بھارت کی سرکاری
دہشتگردی کو بے نقاب کیا جومودی دشمنی کا کھلا اظہار تھا۔
سیاستدانوں ہی نہیں بلکہ آج جج، جرنیل ، بیوروکریٹ وغیرہ تمام کے سر پر
62,63کی صورت میں صادق اور امین کی تلوار لٹک رہی ہے۔ 24سال پہلے 1993میں
نواز شریف کو جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا اور آج جسٹس صاحب کے داماد
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میاں صاحب کو نا اہل قرار دیا ہے۔ یہ اتفاق کی بات
ہے۔ سب س اہم ملک میں آئین و قانون کی پاسداری ہے۔ آئین و قانون کا احترام
جمہوریت کی بقا کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ کرپشن اور دھاندلی جو بھی کرے،
جو بھی اپنے اقتدار کا ناجائز استعمال کرے، اس کے خلاف قانون کو حرکت میں
آنا چاہیئے۔ لیکن جزا و سزا میں پسند و نا پسند کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک
مشتبہ کرپٹ اور خائن کو پکڑنا اور دوسرے کو آزاد چھوڑ دینا آئین و قانون کے
ساتھ مذاق ہے۔ اگر ہر ایک ادارہ اپنے منڈیٹ کے مطابق کام کرے، اپنے کام سے
انصاف کرے، دوسرے اداروں میں بے جا مداخلت کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرے،
احتساب سب کا ہو، بے لاگ ہو۔ کوئی جانبداری نے برتی جائے، تو اداروں پر ہر
کوئی اعتماد اور ناز کر سکتا ہے۔
آج یہ بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ ملک میں کون بالا دست ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ،
بیوروکریسی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ۔ اس سوال کی موجودگی میں یہی کہا جا سکتا ہے
کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر کوئی
قانون ملک و قوم کے مفاد میں ہے تو اس پر عمل در آمد ہو اور جس سے قومی یک
جہتی اور مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو ، اسے ختم کیا جا نا چاہیئے۔
اس میں سیاست، پارٹی پرستی کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔عمران خان سے کبھی
نوجوانوں کو توقعات تھیں۔ جس طرح انہوں نے سیاست میں نئی فقرہ بازی کی
روایت قائم کی۔ نا شائستہ زبان و بیان کو رواج دیا۔ گالم گلوچ شروع کی۔اس
سے زیادہ تر لوگ مایوس ہوئے۔ دھونس اور دھمکیاں کوئی برداشت نہیں کرتا۔
تہذیب اور شائستگی کی کوئی مخالفت نہیں کرتا۔ سیاست ایک عبادت ہے۔ اگر اس
میں بے ایمانی، گالم گلوچ، نفرت، انتقام، تکبر جیسے نا پسندیدہ عوام شامل
ہو جائیں تو اس سے لوگ متنفر ہو جاتے ہیں۔ اس سیاست اور اس قسم کی جمہوریت
سے عوام کی عدم دلچسپی اور متنفر ہونا کسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس انتشار اور
افراتفری سے سب کا نقصان ہوتا ہے۔ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ ملک کو نقصان
پہنچانے کا مطلب غداری ہے۔اس لئے انتشاراور تصادم آرائی کی سوچ سے بچتے
ہوئے ہر وقت مفاہمت اور افہام و تفھیم کی بہت ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن قانونی
کیسز میں اپن دفاع کے لئے قانونی لڑائی لڑ سکتی ہے۔ شواہد اور دلیل کا
سہارا لے سکتی ہے۔ جو بھی کرپٹ ہے، اس کو قانون کے کٹہرے میں لا سکتی ہے۔
عدلیہ پر سب کو اعتماد ہے۔ جج کے اوپر بھی ایک عدالت ہے۔ عوام کی عدالت بھی
ہے۔ اس لئے انتقام اور بدلے کی سوچ منفی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ توقع
ہے اب بھی مسلم لیگ ن عفو و درگزر سے کام لے گی۔اداروں کی مزید مضبوطی،
ملکی دفاع ، معاشی ترقی، آزاد خارجہ اور کشمیر پالیسی میں سب سٹیک ہولڈرز
کو ساتھ لے کرچلے گی۔ تصادم کی سیاست کے بجائے مفاہمت(سول ملٹری مفاہمت) ہی
ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ ہڑتال، دھرنے، تصادم، جلاؤ گھیراؤکے بجائے بات
چیت اور ڈائیلاگ میں ہی کامیابی ہے۔ |