امریکی صدر اوباما کا بھارت کا محتاط اور معاہدوں بھرا دورہ

اور پاکستان خالی ہاتھ رہا
پاکستانی حکمران اور عوام بول پڑے....اچھا صِلہ دیا امریکا تو نے ہمارے پیار کا

ٓامریکا کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر جو شیڈول کے مطابق اِن دنوں اپنے دس روزہ ایشیاء کے دورے کے دوران پہلے مرحلے میں اپنے نئے پروگرام کے مطابق تین روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں اور جہاں سے تازہ ترین یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ مسٹر بارک اوباما(میں نے اِن کے نام سے حسین کا لفظ خود سے احتجاجاََ ہذف کردیا ہے کیونکہ اِن میں اگر ذرا برابر بھی مسلمانیت ہوتی تو کم ازکم یہ اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا بین ثبوت دیتے ہوئے پہلے اپنے دوست اور مسلم ریاست پاکستان آنے کا شیڈول ترتیب دیتے تو پھر بھارت جاتے مگر شائد اُنہوں نے یہ گوارہ ہی نہیں کیا .....؟کہ وہ کم از کم اپنے پیش رو سابق امریکی صدر بش کی طرح ہی چند گھنٹوں کے لئے پاکستان چلے آتے میرا مطلب ہے کہ تھوڑی سی دیر کے لئے ہی پاکستان میں اپنا قیام کرتے اور بھلے سے یہ بھی یہاں کرکٹ کھیل کر ہی بھارت چلے جاتے .... اِن کے اتنے سے عمل سے زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت پاکستانیوں کا بھرم رہ جاتا کہ اوباما پاکستان سے بھی اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں.....

مگر یہاں افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو پاکستان سے متعلق اُن ہی پالیسیوں پر اُسی طرح سے عمل پیراہیں جن پالیسیوں پر سابق امریکی صدر بش چلا کرتے تھے مگر اِس کے باوجود بھی مسٹر اوباما نے تو یہ بھی نہ کیا....کہ وہ اپنے دورے میں ترجیحی بنیادوں پر پاکستان کو شامل کرتے جہاں حال ہی میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور پاکستان کی جنگ لڑتے لڑتے زخموں سے چُور چُور ہوچکا ہے اور آئے روز یہاں 9/11 اور 26/11جیسے واقعات کا رونما ہونا معمول بن چکا ہے مگر الٹا وہ اپنے اِس دوست مُلک پاکستان کو جو اِن کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اُس کو بھی رد کرتے ہوئے بھارت یاترا کو پہنچ گئے ہیں اُنہوں)نے بھارت میں انتہائی سخت ترین سیکورٹی میں اپنی مصروفیات سے بھر پور دن گزارے اور اِس دوران اُنہوں نے بھارت میں مختلف معاہدوں کی شکل میں اپنی نوازشیں لٹائیں اور بھارتی اِن نوازشوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے سمیٹتے تھک کر چُور چُور ہوگئے مگر اوباما کی معاہدوں کی صُورت میں بھارتیوں پر نوازشوں کا جاری رہنے والا سلسلہ آخری وقت تک ختم نہ ہوا۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا جو پاکستان کو اپنا قریبی دوست کہتے نہیں تھکتا ہے اور اپنی اِسی مفاد پرستانہ دوستی کی آڑ میں یہ اب تک جتنے فائدے اٹھا چکا ہے اِس کا اندازہ اِسے اچھی طرح سے ہے مگر اِس کی اِس منافقت کا اندازہ اَب پاکستانیوں کو اِس کے اِس روئے سے بھی بخوبی لگانا ہوگا کہ جب بھی کوئی امریکی صدر ایشیاء کے دورے پر آیا تو اُس نے پاکستان میں اپنی سیکورٹی کے کمزور انتظامات کو جواز بنا کر پاکستان کا دانستہ طور پر اپنا دورہ کرنے سے قطعاََ اجتناب برتا......اور اِس بار اوباما نے بھی یہی کچھ کیا ہے جیسا اِن سے پہلے والے بیشتر امریکی صدور کرچکے ہیں۔

جبکہ حکومتِ پاکستان اِس مرتبہ منتظر تھی کہ امریکی صدر بارک اوباما جب اپنے ایشیاء کے دورے کا شیڈول ترتیب دیں گے تو یہ پاکستان بھی ضرور آئیں گے مگر حکومتِ پاکستان کے ارمانوں پر اُس وقت اُوس پڑ گئی جب امریکی صدر بارک اوباما نے پاکستان کو اپنے دورے سے نکال کر بھارت کا اپنا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستانی حکمرانوں کو مایوسی ہوئی اور وہ یہ بول کر خاموش ہوگئے کہ ”اچھا صِلہ دیا امریکا تو نے ہمارے پیار کا.....دل توڑ دیا ہے اپنے یار کا“........اَب پاکستانی حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آجانی چاہیئے کہ امریکا کو جتنی قربت اور محبت بھارت سے ہے اُتنی پاکستان سے ہرگز نہیں ہوسکتی کیونکہ امریکا پاکستان کو دہشت گردوں کی سرزمین جانتا اور مانتا ہے جس کا ثبوت ہمارے حکمران خود یوں دے رہے ہیں کہ صرف چند ڈالر اور امریکی امداد کے عوض اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں کیونکہ امریکا کے نزدیک ہر پاکستانی دہشت گرد ہے اور بس...اِس کے علاوہ امریکا کی نظر میں پاکستانی عوام اور پاکستانی حکمرانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

خبر یہ ہے کہ ممبئی پہنچنے کے بعد امریکی صدر بارک اوباما نے بھارت میں اپنے قیام کے پہلے ہی روز بھارت میں کئی تاریخ ساز ایسے سول اور ٹیکنالوجی کے معاہدے کئے کہ بھارتیوں کی قسم کی دیوی بھی خوشی سے جھوم جھوم گئی ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ جب امریکی صدر بھارت پہنچے تو اِسی دن اوباما نے بھارت کی بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مستقبل کی مارکیٹ کے طور پر دیکھ رہا ہوں اور ہم تجارتی رکاوٹیں دور کرنے اور برآمدی اصطلاحات کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں اور اِس دوران امریکی صدر بارک اوباما نے بھارتی حکمرانوں اور بزنس مینوں کو اِس بات کا بھی یقین دِلاتے ہوئے برملا کہا کہ ہم بھارت کو ٹیکنالوجی کے دُہرے استعمال کی ہر صُورت میں اجازت دیں گے جس میں سول اور ٹیکنالوجی شامل ہے اُنہوں نے اِس کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اِن تجارتی معاہدوں کے تحت بھارت امریکا سے27ارب ڈالر کے 30بوئنگ 737مسافر طیارے اور45ارب ڈالر کے 10ملٹری ٹرانسپورٹ C-17sطیارے خریدے گا۔اور اُنہوں نے نہ صرف یہ معاہدہ کیا بلکہ امریکی صدر اوباما نے دل کھول کر 54 ہزار بھارتیوں کو امریکا میں ملازمتیں دینے کا بھی معاہدہ کیا۔

یوں ایک طرف تو پہلے سیاہ فام نام کے مسلمان امریکی صدر بارک اوباما بھارتی حکمرانوں اور بزنس مینوں سے معاہدے کرتے رہے تو دوسری طرف مسٹر اوباما کی بیوی اور امریکی خاتونِ اول مشل اوباما بھارت میں بھارتی موسیقی پر رقص کرتی رہیں اور بھارتیوں کو یہ باوَر کراتی رہیں کہ امریکا کو بھارت پر اندھا اعتماد ہے اور اَب بھارت کو بھی امریکا پر اِسی قسم کا اعتماد کرتے رہنا چاہئے تاکہ ہم ایک دوسرے کے سہارے جنوبی ایشیاء میں اپنے اپنے مقاصد کی جنگ لڑتے رہیں اور اپنی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے جائیں۔ جبکہ اُِدھر اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ امریکی صدر بارک اوباما کا یہ جنوبی ایشیاء اور بالخصوص بھارت کا تین روزہ دورہ جس میں اُنہوں نے بھارت میں اپنے قیام و طعام کے دوران پاکستان سے متعلق انتہائی محتاط انداز اپنائے رکھا یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اِس دوران بھارتیوں کو خوش کرنے اور اپنا گرویدہ بنانے کے لئے اپنی گفتگو کے دوران امریکی صدر بارک اوباما نے کوئی لفظ ایسا استعمال نہیں کیا جو انگریزی حرف ” پی(P)“سے شروع ہوتا ہو اِس ڈر سے کہ کہیں بھارتی حکمران یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اوباما پاکستان کی تعریف میں تو کہیں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں اور واقعی اوباما نے ایسا ہی کیا کہ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی اپوزیشن جماعتوں بی جے پی اور سی پی آئی نے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ممبئی حملوں کے متاثرین سے خطاب کے دوران پاکستان پر اِن حملوں کا الزام نہ لگائے جانے پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت پہنچنے کے فوری بعد صدر اوباما کا پہلا خطاب مایوس کُن رہا ہے بھارتی اپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ ممبئی حملوں کے متاثرین سے امریکی صدر نے اپنے خطاب کے دوران 26/11کو بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کا ذکر نہ کر کے امریکی صدر اوباما نے بھارتی اپوزیشن جماعتوں سمیت حملے کے متاثرین کو شدید مایوس کیا ہے جس پر اوباما بھارتی عوام کے دل جتنے میں بُری طرح سے ناکام ہوئے ہیں۔

یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس لحاظ سے امریکی صدر مسٹر بارک اوباما کا یہ دورہ جس میں اُنہوں نے کسی بھی حوالے سے پاکستان کا ذکر نہیں کیا اِن کا یہ بھارت کا دورہ بڑا محتاط اور بھارتیوں کے لئے معاہدوں بھرا تو ضرور کہا جاسکتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود بھی ممبئی میں دائیں بازو کے کارکنوں کا امریکی صدر باراک اوباما کے خلاف مظاہرہ کرنا..... اور اِن کی تصویر پر جوتے مارنا ......اور امریکی پرچم کو جلانا....کیا یہ سب کچھ امریکی صدر اور امریکیوں کو نظر نہیں آیا کہ بھارت کے عوام امریکی صدر اور امریکیوں سے متعلق کیا سوچ رکھتے ہیں....... ؟؟اِس پر بھی امریکی صدر اور امریکیوں کا بھارت کے ساتھ سول اور ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرنا اور امریکی خاتونِ اول کا بھارت میں آزادی سے اُوجھل اُوجھل کر بھارتی گانے پر رقص کرنا......ہم پاکستانیوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972203 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.