آہ ..!!چلو چھوڑو یا ر کچھ تو عقل سے کا م لواِس میں
بھلا کیا رکھا ہے؟؟ اَب جبکہ نیا وزیراعظم بھی آگیاہے اور اگر تم ابھی اپنے
سیاسی گیم اور سیاسی پینترے بازیوں کی وجہ سے اِس کے لئے مشکلات اور
پریشانیا ں ہی پیداکرتے رہو گے ،تو کچھ نہیں کرسکو گے، ہم سب کی بہتری اِسی
میں ہے کہ ہم نومنتخب وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے شا نہ بشا نہ کھڑے ہوں
ہم جب بیجا تنقیدوں اور سازشوں سے اجتنا ب برتیں گے تو مُلک اور قوم کی
خدمت بھی کریں گے ورنہ یہ یاد رکھو کہ سوا ئے لڑا ئی جھگڑے اور دستِ گریبان
ہونے اور ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں کے کچھ بھی کسی کے ہا تھ نہیں آئے گا۔
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ سُپریم کورٹ سے 20اپریل 2017ء کو پا نا ما
پیپرلیکس کی تحقیقات کرنے کے لئے تشکیل دی جا نے والے جے آئی ٹی پرمیٹھایاں
کھا نے اور بانٹنے والے آج 28جولا ئی 2017ء کے سُپریم کورٹ کے فیصلے کو
معمولی سمجھنے والے صریحاََ ایک مرتبہ پھرخودساختہ خوش فہمی میں مبتلاہیں ،جن
کا خا م اور قوی خیال یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سب کچھ عیاں ہونے کے
باوجود بھی سا بق وزیراعظم نوازشریف کوبس ایک ذراسے نقطے پر نااہل قرار
دیئے جا نے والا سُپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ کسی بڑی
غلط فہمی کا بھی نتیجہ ہوسکتاہے ،سمجھ نہیں آرہاہے کہ یہ ایسا کیو ں کررہے
ہیں جبکہ سب کو شیشے کی طرح سب کچھ نظر آرہاہے مگر پھر بھی سا بق وزیرا عظم
نوازشریف اور ن لیگ والے اپنی معصوم صورتیں بنا کر عوام کو پٹا نے کے لئے
یہ ساری ڈرا مے با زی کررہے ہیں حا لانکہ اِس کی کیا ضرورت تھی؟؟؟۔
تاہم اَب متاثرینِ پانا مالیکس اوراِن کے چا ہنے والوں کافیصلے کے بعد
عدلیہ سے جو اور جیسے بھی گلے شکوے پیدا ہوگئے ہیں یہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے
نہیں ہیں مگر اِنہیں گمان بھی نہیں ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ن لیگ والے
اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے فیصلے کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈا کررہے ہیں اور
یہ کھلم کھلا سُپریم کورٹ کے جس فیصلے کو معمولی سمجھ رہے ہیں اور خو د کو
بے گناہ ثا بت کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں، اِنہیں معلوم ہونا چا ہئے کہ
سُپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اِن کے گلے کی ہڈی بن جا سکتا ہے تب یہ نہ نگلنے
میں ہوگا نہ اُگلنے میں ،بس صبرکا دا من کو ئی نہ چھوڑے ،اِنہیں لگ پتہ جا
ئے گا جب آنے والے دِنوں میں یہ معلوم ہو جا ئے گا کہ اِن کے سر پر کتنے
سیاہ سفید بال ہیں اوریہ کرپشن کی گُھٹی پی پی کر کس طرح لمبے ہو کر لچھے
داربن گئے ہیں اور آپس میں کتنی بُری طرح سے الجھے ہوئے تھے، اگر اِن کا فی
الفور اِس طرح بندوبست نہ کیا جا تا جیسا کہ سُپریم کورٹ نے کر دکھا یا ہے
تو یقین جا نیئے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے خاندان والے اور
قریبی رشتے دارجو کرپشن کے جید ماہراور دلدادہ بھی ہیں اگر سُپریم کورٹ ایک
نوازشریف کو نا اہل قرار نہ دیتی تو یہ سب سیر ہو کر پورا مُلک ہی ہڑپ کرنے
میں ذرا بھی دیر نہ لگا تے ۔
اَب جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہدخاقا ن خان عباسی نے
وزیراعظم کا حلف اُٹھالیا ہے اور نومنتخب وزیراعظم اپنی کا بینہ تشکیل دے
چکے ہیں،اور یہ کہتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم شا ہدخا قا ن عباسی وارم اَپ ہو
گئے ہیں کہ ’’ وزیراعظم بدل سکتا ہے پالیسیاں نہیں ‘‘ سارے کام اور تمام
ترقیا تی منصو بے وہیں سے جاری رہے گا جہاں سے اِن کے روحا نی استاد اور
سابق وزیراعظم نوازشریف چھوڑ گئے ہیں ، گوکہ نئے وزیراعظم شا ہدخاقا ن
عباسی جو 2018ء کے انتخا بات تک وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں
نبھاتے رہیں گے دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے عزم اور ہمت پر کتنے قا ئم رہتے ہیں؟؟
اور مُلک اور قوم کی کس طرح اورکن زاویوں سے خدمت کرتے ہوئے مُلک اور قوم
کو کِدھر سے کدھر لے جا تے ہیں جبکہ اُدھر ذاتی اور سیاسی الزامات کی سیاست
میں متحرک دِکھا ئی دینے والی اپوزیشن نو منتخب وزیراعظم کے خلاف بھی محاذ
آرا ئی کے لئے تیار ی کرچکی ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الزام
درالزام میں جکڑی اپوزیشن کو یہ گوارہ دیتا ہے کہ وہ مُلک کو آئینی اور
بحرانی کیفیات سے دوچار کرے؟؟یہاں تک کے اپوزیشن نئے وزیراعظم شاہدخاقان
عباسی کے خلاف بھی سازشوں کے جال بنتی رہے کہ عام انتخا بات کے دن قریب آجا
ئیں اور مُلک اور قوم کی ترقی کی رفتار رک کر رہ جائے۔
بہر کیف ، یہاں امر واقع یہ ہے کہ نا اہل قرار دیئے جا نے والے سابق
وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے عزیزو اقارب (جو اپنی اپنی ظاہر و باطن آف
شور کمپنیوں اور شہنشا ہ ِکرپشن تو ہیں مگریہ) آمریت سے خوفزدہ اپنے مطلب
کی جمہوریت کے پوجا ری جمہوریت کا اپنی مفاد کا نعرہ لگا تے جا تے اور قوم
کے بنیا دی حقوق غضب کرتے جا تے ، اور قومی خزا نہ لوٹ لوٹ کر آف شور
کمپنیاں قا ئم کرتے اور خود کو صادق و امین کی تسبیح گردانتے اور میری
جمہوریت تیری جمہوریت کی مالا جپتے جاتے اور آمریت کے بھوت کے گردگھیرا تنگ
کرنے کو جمہوریت کی خدمت جا نتے رہے کیو نکہ جب بھی ہمارے یہاں جمہوریت کی
دیوی حکمرانو، سیاستدانوں اور چمچے نماچھوٹے بڑے ہر قسم کے بیوروکریٹس پر
ضرورت سے زیادہ مہربان ہوتی ہے تو اِن کے نزدیک اِن کے مفاد کی جمہوریت ہی
سب کچھ ہوتی ہے اور اِسی کی آبیاری کے خاطر یہ عیار مکار اور کرپٹ و کرپشن
کے دلدادہ حکمران ، سیاستدان اور شیطان کے چیلے بیوروکریٹس جمہوریت کی آڑ
لیتے ہیں کیو نکہ اِن تمام لوگوں کو جمہوریت کی تعویذ سے عوام کو بے وقوف
بنا نا تو بہت آسا ن لگتا ہے اِس لئے کہ اِسی میں اِن کا فا ئدہ ہے ۔
بیشک ، ہماری مُلکی تاریخ اِس حوالے سے بڑی ذرخیز ہے قوم کو جمہوریت کی
شراب کی بوتل میں قید کرکے حکمران اور سیاستدان اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات
میں بڑی حد تک کا میاب بھی ہوتے ہیں یہ پریکٹس تو بہت پرا نی ہے، ایک لمحے
کو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا ہما رے یہاں جمہوریت کی عمر آمریت کی نسبت قدرے
کم ہے اول میں تو میرے مُلکِ پاکستان میں ویسی جمہوریت کبھی نہیں آئی ہے
جیسی کہ حقیقی جمہوریت کی تعریف ہے اور یہی جمہوریت دنیا کے دیگر ترقی
یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے مگر معاف کیجئے گا کہ مُلکِ
پاکستان کے حکمران اور سیاستدان جِس آمریت سے خوفزدہ رہتے ہیں اور یہ لوگ
جس آمریت کا رونا روتے رہتے ہیں اِن کا یہ رونا دھونا سب فضول ہے اِس لئے
کہ پاکستان میں جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے جمہوریت کے ثمرات عوام
النا س تک نہیں پہنچا ئے ہیں تو وہیں پاکستان میں آمریت بھی تو ایسی کبھی
نہیں آئی ہے جیسی کے دنیا کے بہت سے مما لک میں آئی ، مگر ہمیشہ اپنے
جمہوری دور میں عوام کی آنکھو ں میں دھول جھونک کر مزلے لوٹنے والوں کے لئے
آمر کی آمریت سے بچ نکلنا اور اِس کے سا منے گھٹنے ٹیک کر نہ بیٹھنا بہت
مشکل رہا ہے جب بھی آمر کا ڈنڈا نام نہا د جمہوری پچاریوں پر گھوما ہے قسم
سے اِن جمہوری مداریوں کو اپنے سربچا نے مشکل ہوگئے ہیں جبکہ عوام کو سِول
اور جمہوری حکمرانوسے زیادہ آمر کی آمریت میں زیادہ حقوق ملے ہیں ۔
آج جمہوریت اور جمہوری اداروں کی آزادی پر ڈاکہ مار کر اپنا الو سیدھا کرنے
والے ہمارے نام نہاد جمہوری حکمرا ن، سیاستدان اور بیوروکرٹیس بس تھوڑا سا
انتظار کریں آہستہ آہستہ سب کے سا منے وہ سب کچھ کیا دھراآجا ئے گا جو
اِنہوں نے اپنے نام نہاد جمہوری دور میں دیدہ دانستہ اپنی اور دوسروں کی
نظروں سے چھپا کر رکھا تھا۔
تا ہم موجودہ سیا سی اور آئینی بحرانی صورت ِ حال میں راقم الحرف کا بس یہی
کہنا ہے کہ سُپریم کوڑٹ کا فیصلہ سوفیصد درست ہے، آج جو اِسے’’ معمولی
نوعیت اور کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا کہہ رہے ہیں‘‘ دراصل یہی
اور اِن جیسے بہت سے لوگ ہیں جو خود کو گلے پھاڑ پھاڑ کر زندہ رکھنے اور
اپنا اپنازبردستی کا سیا سی قداُونچا کرنے کی کوششوں میں دن رات ایک کئے جا
رہے ہیں دراصل وہ بھی یہ خوب جا نتے ہیں کہ فیصلہ یکدم ٹھیک اوردرست ہے مگر
چونکہ اَب اِنہیں اپنی سُبکی بھی تو مٹا نی ہے ناں ، سو اِس کے خا طر اَب
یہ ڈرامہ با زی رچا نی پڑرہی ہے۔
آج نہ صرف پوری پاکستانی قوم بلکہ ساری دنیا بھی یہ جا نتی ہے کہ نا اہل
قراردیئے گئے سا بق وزیراعظم نواز شریف اور اِن کی فیملی کے ممبران سمیت ن
لیگ والے چا ہئے کچھ بھی کہہ لیں ،اور اَب اپنی معصومیت اور بے گناہی کا چا
ہیں جتنا بھی ڈھنڈوراکیو ں نہ پیٹ لیں، اِنہیں بھی سب کچھ پتہ ہے کہ سُپریم
کورٹ کے فیصلے کے پسِ پردہ کیا کچھ پوشیدہ ہے ؟؟ جو بہت سوں کے سیاسی
کیریئر کے با ب کو ختم کرنے اور کئی لوگوں کے کرپشن سے داغ دار دامن
کاوراِن کی ذاتی حیثیت کو سپوتاژ کرنے کے لئے بہت ہے۔
جبکہ یہاں یہ ایک نقطہ یقینا سب کے لئے قا بل غور اور توجہ طلب ضرور ہونا
چا ہئے کہ ما ضی میں جب اپنوں کی تمام التجا ؤں اور درخواستوں اور خوشامد
کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے کسی ایک کی بھی نہ سُنتے ہوئے ایک آمر جنرل (ر)
ضیا ء الحق مرحوم نے بیرونی سازش کو عملی جا مہ پہناتے ہوئے سیاسی دیدہ ور
اور فہم و فراست کے منبع سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر
لٹکایاتھاتواُس وقت بھی نہ صرف سرزمینِ پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یہی
تصور کیا جارہاتھا کہ آئندہ پاکستان کا جو بھی وزیراعظم لا ئے گا اور وہ
ذرا بھی لا ئین سے اِدھر اُدھرا ہواتو اُس کا بھی حشر بھٹو جیسا ہوگا اَب
یہ صحیح ہوگا یا غلط وہ تو مورخ بعد میں گا تارہے گا جیسا کہ آج بھٹو کی
پھانسی کوغلط قرار دیاجارہاہے اَب سوا ئے کفِ افسوس کے کچھ فا ئدہ نہیں ہے
مگراتنا ضرور ہواہے کہ زیڈ اے بھٹو کی پھا نسی کے بعد آنے والے وزا ئے اعظم
، بھٹو سے زیادہ طاقتور ہوتے رہے رفتہ رفتہ نئے آنے والے وزرا ئے اعظم کو
بہت سے معاملات میں استثناحاصل ہویاگیا مگر بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ تمام
وسوسے اور خدشات جو پاکستان اور دنیا میں جنم لے چکے تھے کہ اَب پاکستان
میں پھانسی کا سلسلہ نہیں رکے گاآہستہ آہستہ ایسے خدشات خود بخود اُس وقت
دم توڑتے گئے جب سیاستدانوں نے عوام سے زیادہ پارلیمنٹ سے اپنے مفادات اور
تحفظات کے خاطر قا نون سازی کی ۔یہی وجہ ہے اتنا عرصہ گزرجا نے کے بعد کسی
بھی وزیراعظم بھٹوکو کی طرح پھا نسی پر نہیں چڑھا یا گیا ہاں البتہ ، آئین
کی آرٹیکل 58B-2کے تحت کئی وزرائے اعظم کی حکومتیں تو جا تی رہی یہیں مگر
بھٹو کی پھا نسی جیسا سا نحہ دوبارہ رونما نہیں ہوا ہے اگر ایسا ہوتا تو
اَب تک کوئی بھی ایسا وزیراعظم نہیں گزراہے جو بہت سے معا ملے میں بھٹو سے
کم تر یا پیچھے رہاہو۔
آج اگرسا بق وزیراعظم نوازشریف اعلی ٰ عدلیہ کی نظر میں اپنے کسی رو پوش
اورپوشیدہ کرپشن کی وجہ سے نا اہل قرار پا گئے ہیں تو اِس سے کسی کو پریشان
ہونے یا یہ سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بار بار ایسا ہوتارہے گا اِس
لئے کہ غالب گمان تو یہی ہے کہ آئندہ نوازشریف کی طرح کوئی بھی آئین کی
آرٹیکل 63/62کے تحت کسی بھی وجہ سے نا اہل قرارنہیں پا ئے گا ،کیو نکہ آج
کا سیاستدان بہت زیادہ شا رپ ہوگیاہے اِس کی اپنے مفاد میں سوچنے اور
سمجھنے کی صلاحیت روشنی کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ تیز اور دوراندیشن
ہوگئی ہے جب گدھ کی طرح چمٹ کرسیاستدان پارلیمنٹ سے 58B-2کے ہمیشہ کے خاتمے
کے یکدل یک جان ہوکر اِس قا نون کو ختم کراسکتے ہیں تو پھرآج بھی سیاستدان
اپنی سیاہ کاریاں چھپا نے اور اِنہیں بے نقا ب ہونے سے بچا نے کے لئے اِسی
طرح ا ٓئین کی آ رٹیکل 63/62کو بھی ختم کرانے کے لئے کمر بستہ دکھا ئی دیتے
ہیں اِس کا انداز چیئرمین سینٹ میاں رضاربا نی کی اِ س بات سے بھی لگایاجا
سکتاہے کہ ’’جمہوری قوتوں نے 58ٹو بی کو ختم کیا تواسمبلیاں ختم کرنے کا
نیا طریقہ آگیا‘‘ بیشک پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان اپنے مطلب اور اپنے
مفادات کی قا نون سازی کرنے میں توپارلیمنٹ کو مضبوط ترین ادارہ گردانتے
ہیں مگر درحقیقت یہ تجربے اور مشا ہدے میں آیا ہے کہ عوامی مفادِ عامہ کے
لئے جب کبھی فوری قا نون سازی کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو حکمرانوں
اورسیاستدانوں کے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے تُرنت قا نون سازی کرنے
والا ادارہ بیشک پارلیمنٹ سب سے کمزور ترین ہوجاتا ہے تب ہی تو ایگزیکٹیو
پارلیمان و عدلیہ پر عدلیہ پارلیمان و ایگزیکٹیو پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی
ہے،ہاں میاں رضا ربا نی صا حب تب ہی تو اسمبلیاں ختم کرنے کا یہ ٹھیک طریقہ
ہے جب حکمران ، سیاستدان اور اِن کے اردگرد اِدھر اُدھر منڈلاتے بیوروکریٹس
قومی خزا نہ لوٹ کھا ئیں اور قوم اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہیں اور یہ
کرپٹ حکمران ، سیاستدان او ر خوشا مدی بیوروکرٹیس قومی اداروں کا مل کر
بیڑا غرق کریں اور جیب ورکس سے ہزاروں ، لاکھوں ، کڑوروں ، اربوں اور
کھربوں کی کرپشن کرکے اپنا اپنا پیٹ بھر یں اور بیچارہ غریب پاکستانی دووقت
کی روٹی کو ترستارہے آخر ایسا مُلک میں کب تک ہوتا رہے گا کہ حکمران اور
سیاستدان اپنے گلے کی جا نب احتساب کے خاطر بڑھتے ہوئے قا نون کو جب چا ہیں
اپنی مرضی سے تبدیل کردیں اور اپنی لوٹ مار اور کرپشن کو بے لگام کرنے کے
لئے نیب کو نکیل ڈال دیں اور مدرپدرآزاد کرپشن کے حمام میں غسلِ کرپشن کریں
۔ |