یہ قابل تحسین عمل ہے آج جو ملک میں احتساب کے عنوان پر
جاری ہے عوام کے دلوں کی امنگیں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور عوام کا
اعتماد ایک بار پھر عدلیہ اور ملک کے دیگر اداروں پر بحال ہورہا ہے مگر اس
عمل کو رکنا نہیں چاہئے اسے ہر حال میں آگے جانا چاہئے کیونکہ راقم کی نظر
سے پاکستان کی تخلیق سے حال تک وطن عزیز کو لوٹنے والا صرف ایک ہی خاندان
نہیں ہو سکتا۔
اگر احتساب کو محض فرد واحد تک محدود رکھنے کی کوشش کی گئی تو مورخ شاید
اسے احتساب کا نام نہ دے سکے بلکہ ایک سیاسی خاندان کو دیوار سے لگانے کی
سازش بھی قرار دے سکتا ہے جیسا کہ شریف برادران اپنی تحفظات پیش کرتے نظر
آتے ہیں اور یہ کوشش اس صورت میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے اگر ماضی کی طرح ان
کو سیاسی شہید بنوا دئیے گئے اور یہی پرانے پاپی مستقبل میں نت نئے
ہتھکنڈوں کے ساتھ سیاسی میدان میں دنگل کھیل کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف
بنا سکیں گے-
اسی طرح پیپلز پارٹی کی دور اقتدار میں ریکارڈ کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
اس دور میں جس مہارت کے ساتھ کرپشن کی گئی اسکو اس مہارت کے ساتھ بے نقاب
کرنا بھی سپریم کورٹ اور تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے ، فوجی حکومتوں
میں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں اور اسٹبلشمنٹ کے مہرے بننے والوں کا بھی اس
جذبے سے احتساب ہونا ضروری ہے صوبائی سطح پر ہونے والی بد عنوانیوں میں اگر
نیشنل پارٹی شامل ہو یا ایم ایم اے کی سابقہ حکومت ، کراچی جیسے صنعتی زون
کی مبینہ خورد برد میں ملوث متحدہ قومی مومنٹ ہو یا پیپلز پارٹی ہو ،
بلوچستان میں سرداروں کی کرم نوازش پر چلنے والی صوبائی حکومتوں میں عوام
بنیادی ضروریات سے محروم کیوں ہیں، تھر میں اتنی قلیل آبادی کے باوجود 180
سے زائد شیر خوار بچوں کی ہلاکتیں کیوں رونما ہوئیں، تحریک انصاف کی صوبہ
خیبر پختونخواہ میں نیب ، خیبر بینک سکینڈل ، آئی جی کی تعیناتی اور موجودہ
سپیکر کے خلاف کیس سمیت متعدد معاملات کی چان بین جبکہ فاٹا میں ہونے والی
بیش بہا بد عنوانیوں پر تو الگ سے کالم لکھا جاسکتا ہے لہٰذا یہاں بیان
کرنا مناسب نہیں۔
مندرجہ بالا وہ بنیادی سوالات ہیں اور اس جیسے بیسیوں اور سوالات جو ملک کی
ترقی و خوشحالی کے عرض سے پوچھے جاسکتے ہیں مگر کیوں کوئی اس صفحے کو کھلنے
نہیں دے رہا ؟ ۔۔۔۔۔ وجہ بہت آسان اور واضح ہے۔ " اس حمام میں سب ننگے ہیں
" کی ضرب المثل پر آج کے تمام جانے مانے سیاستدان پورا اترتے ہیں اس لئے
محض نواز شریف یا شریف خاندان کو احتساب کے کٹہرے میں گھسیٹنے سے ایک غریب
اور مزدور کو کیا فائدہ حاصل ہوگا۔۔۔ یقیناً کچھ نہیں ، کیونکہ مسئلہ شریف
خاندان کا نہیں ، مسئلہ اشرفیہ کا ہے اور یہ مخصوص طبقہ تقریباً ہر سیاسی
پارٹی ، ملکی عدالتیں ، بیروکریسی ، میڈیا اور ملکی معیشت پر بلیک کوبرا کی
طرح قبضہ جمائے ہوئے ہیں ، سیاسی جماعتوں کے اندر بھلے یہ مختلف نظریہ
رکھتے ہوں مگر اپنے سرمائے ، ناجائز حقوق ، اور سٹیٹس کو کی تحفظ کی خاطر
ہمیشہ یک جان دو قالب کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اس لئے جب تک ہم (عوام) اس
اشرفیہ کی چنگل سے آزاد نہیں ہوتے تب تک پرانے سرمایہ دار خاندانوں کی جگہ
نئے سرمایہ دار خاندان آتے جائیں گے ، ملک کے قرضے اسی رفتار سے بڑھتے
جائیں گے ، ملک میں غربت اسی رفتار سے پھیلتی جائے گی کیونکہ اس اشرافیہ کا
غریب عوام کے متعلق یکساں نظریہ ہے بھلے وہ کسی بھی سیاسی جماعت ، قومیت ،
علاقے یا مسلک سے تعلق رکھتے ہو، انکی لغت میں غربت ، بھوک ، افلاس ، جیسے
الفاظ ندارد ہیں-
غربت سے یاد آیا حالیہ ایک سروے کے مطابق موجودہ حکومت میں غربت کا شرح بڑھ
کر 50 فیصد ہو گیا ہے جبکہ صوبائی سطح پر پنجاب میں %31.4 ، سندھ میں %43.1
، پختونخواہ میں %49.2 بلوچستان میں %71.3 اور سب سے زیادہ %73.7 لوگ فاٹا
میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔۔کیا یہ غربت ، عوام
کی بدحالی ، بنیادی ضروریات کی ناپید ،غیرمعیاری تعلیم ، کمزور معیشت ،
مزدور کا معمولی تنخواہ وغیرہ جیسے بے شمار مسائل اس طاقتور اشرفیہ کی
موجودگی میں حل ہوجائیں گے ؟
آج لفظ "احتساب" کو جتنی اہمیت حاصل ہے اس کاوش کا سہرا بلاشبہ عمران خان
اور جزوی طور پر جماعت اسلامی کے سر بندھا جانا چاہئے۔ شریف خاندان کی
کرپشن کے خلاف عمران خان نے ریکارڈ دھرنوں اور جلسوں کے زریعے عوام میں
شعور بیدار کیا۔جبکہ سراج الحق کا بد عنوانی کے خلاف ٹرین مارچ اور ماضی
میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی نے وقت کے حکمرانوں کے خلاف
زبردست دھرنے دیئے جس میں کئی کارکنوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے، اس
سمیت عمران خان اور سراج الحق نے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس جوانمردی سے
جیت کر احتساب کی شروعات کر کے شریف خاندان کی صورت میں اشرافیہ کا ایک اہم
ستون گرا دیا مگر بد عنوانی کی یہ مضبوط عمارت ستون ھٰذا کی طرح سینکڑوں
ستونوں پر کھڑی ہے لہٰذا ایک ستون گرنے سے اس مضبوط عمارت کو کچھ نہیں ہونے
والا ایک بات غور طلب ہے اور اس بارے میں عمران خان صاحب سے شدید اختلاف ہے
اگر خان صاحب واقعی کرپشن کی بیخ کنی چاہتے ہیں تو خود سمیت اپنی جماعت کو
احتساب کے لئے پیش کرے ۔ایک طرف اگر احتساب کی بات کی جاتی ہے اور دوسری
طرف ان نیب زدہ بدعنوان لوٹوں کو اپنی چھتری تلے جگہ دے کر اپنے نظریے میں
تضاد پیدا کرنے کا مترادف ہے۔ اس بارے میں سراج الحق سے بھلے سیاسی اختلاف
ہو مگر موصوف خود اور اپنی جماعت سمیت تمام پارٹیوں اور بلخصوص پانامہ
پیپرز میں آنے والے ان 464 افراد کی احتساب کا نعرہ لگاتے ہیں، خواہ وہ
سیاستدان ہو جج ہو یا فوج کا جرنیل۔ بحرحال "احتساب سب کا" کے نعرے سے سب
کی دشمنی مول لی ہے جو ایک ناممکن امر ہے- |