گزشتہ دنوں پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی
پاکستانی عدلیہ سے نا اہلی کے فیصلے کے شدیدردعمل میں اپنی آئینی اور
جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے پاکستانی
زیر انتظام حصوں گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے وزیراعلیٰ و وزیراعظم جناب
حفیظ الرحمان اور جناب راجہ فاروق حیدرخان نے اپنے سیاسی قائد (نوازشریف)
سے اظہار محبت میں جوش وجذبات سے سرشار ہو کر پاکستانی عدلیہ اور
سیاستدانوں پرتنقید کے نشتربرسائے جس میں بعض الفاظ اخلاقیات اور سیاست کی
پکڑ میں آ گئے اور دونوں حضرات خصوصاٌ راجہ فاروق حیدر خان کے عمران خان کی
ذاتی زندگی ، طرز سیاست اور نئے پاکستان سے متعلقہ تنقیدی بیان میں ان
الفاظ نے طوفان برپا کیاکہ ٌ مجھے سوچنا پڑیگا بحثیت کشمیری کہ میں کس ملک
کیساتھ اپنی قسمت کو جوڑوں ۔۔۔ٌ بس اسکے بعد وہ اندھا دھند جوابی حملوں کی
زد میں ہیں ۔ پاکستانی میڈیا بھی آجکل ایسے طرز عمل کا نمونہ ہے جس میں
سیاسی شعبدہ بازی کی بحث و تکرار پر مبنی تماشہ ( پروگرام ) بہترین تفریح
سمجھے جاتے ہیں کہ جن میں اکثر جانبدار و تنخواہ دار میزبان، خاص مہمان،
ماہرین، تجزیہ نگار، دانشوروغیرہ اپنی اپنی ڈگڈگی اور سازینے بجا کر
تماشبین اکٹھے کرتے ہیں ، اگر تماشبین کو وہ کرتب اورسرتال پسند نہیں تو وہ
اگلے چوک(چینل) ایسے ہی کسی اور تماشے کا رخ کر سکتے ہیں۔ بات مذکورہ بیان
پر اٹھنے والے طوفان کی ہو رہی تھی جس پر وزیر اعظم آزاد کشمیرجناب فاروق
حیدر کو شرم و حیا اور بدحواسی کے طعنے، پالتو،ذلیل،گھٹیا،ایجنٹ،غدار جیسے
خطابات اور بغاوت جیسے مقدمات کی دھمکی کیساتھ بار بار حیثیت و اوقات یاد
دلائی گئی کہ جو کبھی بالکل ہی نچلے درجے پر یا صوبیدار میجر کے رحم و کرم
پر انحصار کرتی بتائی گئی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔
وزیراعظم فاروق حیدر پر ذاتی حملوں سے قطع نظر ایک بات بالکل درست ہے جو
آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی اوقات کی یادہانی کیلئے دہرائی گئی ہے اور اگرہم
اس معاملے میں اسکی تاریخ جانیں تو سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان،
حیدر خان، کے ایچ خورشید، سردارسکندر حیات خان، راجہ ممتاز راٹھور ، سردار
عتیق خان، سردار یعقوب خان، چوہدری عبدالمجید اور راجہ فاروق حیدر خان اور
دیگر نے اسکا عملی نمونہ کسی نہ کسی شکل میں خود بھی دیکھا ہے ۔ اس سارے
معاملے میں کسی ہمدردی کی گنجائش اسلئے بھی نہیں بنتی کہ گزشتہ چند دھائیوں
سے اس اوقات یا حیثیت کو اس قدر گھٹیانے کے ذمہ دار خود ہمارے یہی چند
مفادپرست تجارت پیشہ سیاستدان بھی رہے ہیں ورنہ پوری متنازعہ و منقسم ریاست
آج تک اپنی آئینی حیثیت کیساتھ موجود ہے اور پاک بھارت دوطرفہ فوجی انخلا
کے بعد رائے شماری کے نتیجے تک کسی بھی ملک کا آئینی حصہ ہرگز نہیں بن سکتی
جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی
خود پاکستان اور بھارت کی دستخط شدہ قراردادایں ہیں جن کی تفصیل21 اپریل
1948،13 اگست1948، 5 جنوری 1949۔ 14مارچ 1950۔30 مارچ1951،24جنوری 1957،
2دسمبر 1957 کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی دیگر دستاویزات میں دستیاب
ہیں۔
بھارت کیساتھ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کا تعلق بھارتی آئین کی
آرٹیکل سابقہ 306A اور حالیہ آرٹیکل 370کی نازک ڈور سے جڑا ہے جس میں ریاست
کے اندر بیرونی قبائلی مداخلت کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کیساتھ قیام امن تک
محدود اور رائے شماری سے مشروط طے شدہ الحاق (اکتوبر1947) میں شامل امور (دفاع،
خارجہ، مواصلات،کرنسی) کے علاوہ بھارتی آئین اور اداروں کی عملداری نہیں ہو
سکتی یہ الگ بات ہے وہاں بعد میں آنے والی کٹھ پتلی حکومتوں نے بھارت کی
آئینی اور انتظامی عملداری کو خود راستہ فراہم کیا اور آج وہاں بھارت اپنی
پوری سول اور فوجی طاقت کیساتھ ظلم ، جبر اور انسانیت سوزی کی آخری حدوں تک
پہنچ چکا ہے۔ البتہ مسلہ کشمیر کی موجودگی میں ریاست کی الگ آئینی و
انتظامی حیثیت آج بھی بحال ہے تاہم جب بھی آئینی حیثیت و حقوق کا دعویٰ
سامنے آتا ہے تو وہاں بھی غداری کا الزام لگتا ہے جیسے آرٹیکل 370کی نزاکت
کے بیان پر وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی زیر عتاب ہیں کیونکہ یہ درد دونوں طرف
مشترک ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں وکشمیر کے خطے گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر
بھی بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر ہی کی طرح متنازعہ ہیں۔ پاکستان کے
آئین کی ابتدائی تمہید ( Preamble) کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 1میں بیان کردہ
جغراافیائی علاقوں میں یہ دونوں متنازعہ خطے شامل نہیں ہیں اور اسی آئین کی
آرٹیکل257کے مطابق ٌ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام الحاق پاکستان کا فیصلہ
کر لیں، پاکستان اور ریاست کے درمیان تعلق کا تعین ریاستی عوام کی امنگوں
کے مطابق کیا جائیگا ٌ۔
257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir.- When the
people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan,
the
relationship between Pakistan and the State shall be determined in
accordance
with the wishes of the people of that State.
اب آتے ہیں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئینی ایکٹ 1974 کی طرف کہ وہ اس ضمن
میں کیا کہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسی ایکٹ نے ہی آزادکشمیر کی حقیقی آئینی
حیثیت کو مسخ کیا ہے اور ایک متوازی مقننہ (کشمیرکونسل) کے ذریعے ایکٹ 1970
میں حاصل شدہ اختیارات بھی ضبط کر لئے ہیں ۔ مذکورہ عبوری ایکٹ1974 کی
ابتدائی تمہید کا کچھ حصہ یوں ہے کہ اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان
کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصواب رائے کے
ذریعے ریاستی عوام کرینگے۔ اور (رائے شماری کے انعقاد تک) یہ کہ اقوام
متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو
نبھاتے ہوئے حکومت پاکستان ایکٹ1970کی تنسیخ و (نئی)مکررقانون سازی کیلئے
صدر آزادکشمیر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ غور و خوض اور منظوری کیلئے یہ بل
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پیش کرے۔
WHEREAS the future status of the State of Jammu and Kashmir is yet to be
determined in accordance with the freely expressed will of the people of
the State
through the democratic method of free and fair plebiscite under the
auspices of the
United Nations as envisaged in the UNCIP Resolutions adopted from time
to time;
AND WHEREAS in the discharge of its responsibilities under the UNCIP
Resolutions, the Government of Pakistan has approved of the proposed
repeal and reenactment
of the said Azad Jammu and Kashmir Government Act, 1970, and
authorized the president of Azad Jammu and Kashmir to introduce the
present Bill in
the Legislative Assembly of Azad Jammu and Kashmir for consideration and
passage
جنوری 1948 میں مسلہ کشمیر پیدا ہو نے اور اقوام متحدہ کی مداخلت نے ریاستی
آئینی حیثیت اور جغرافیائی وحدت کو 14,15 اگست 1947کی حالت میں محفوظ کر
لیا اور دونوں ممالک پاکستان اور بھارت نے ان قراردادوں میں پوری دنیا کے
سامنے ریاستی عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا
فیصلہ مجموعی طور پر عوامی امنگوں کے مطابق رائے شماری ہی کے ذریعے طے کیا
جائیگا گویا رائے شماری کے فیصلے تک متنازعہ ریاست کسی ملک کا حصہ نہیں اور
نہ ہی باشندگان ریاست کسی دوسرے ملک کے باقاعدہ قانونی شہری ہیں۔
اوپر بیان کردہ تفصیل کی روشنی میں جنگ بندی لکیر یا حد متارکہ کے آرپار
بسنے والے باشندگان ریاست پر ریاستی مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی سوچنے،
رائے رکھنے اور حتیٰ کہ ریاستی حدود کے اندر نقل و حمل پر کسی بھی قسم کی
سختی یا پابندی اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے خلاف ہے اور ایسی کوئی بھی
قدغن دراصل اقوام متحدہ کی قراردادوں، آئین پاکستان اور آزادکشمیر عبوری
ایکٹ1974 کی کھلی خلاف ورزی ہے تو پھر غدار کون ۔۔ ؟؟ اب ذرا ان لاعلم
سیاسی شعبدہ باز مسخروں سے بھی سوال اٹھایا جائے کہ جو پاکستانی آئین اور
سپریم کورٹ کی حدود سے باہر اپنے ہی ملکی آئین کے مطابق تسلیم شدہ متنازعہ
ریاست پر اپنا حق جتاتے اور ایک باشندہ ریاست(متنازعہ) یعنی ایک غیر ملکی
کو اپنے ملک کے خلاف غداری کے سرٹیفیکیٹ اور دھمکی دیتے ہوئے نہ صرف بین
الاقوامی قوانین بلکہ اپنے آئین سے غداری اور ریاست جموں کشمیر بشمول گلگت
بلتستان و آزادکشمیر پرپاکستان کے بیرونی دنیا میں اپنائے گئے موقف کی
دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملک دشمنی کے مرتکب ہوئے ہیں جن میں کسی کی ڈگری جعلی،
کوئی لندن میں بیٹھے مطلوب مرشدکا چیلہ رہا، کوئی ذاتی کردار پرالزامات کی
زد میں، کوئی کمیشن مافیہ اور کوئی مالی بدعنوانیوں کے مقدمات میں مطلوب ہے
یا رہا ہے توپھر غدار کون ۔۔ ؟؟
اب واپس چلئے وزیراعظم آزاد کشمیر کے متنازعہ بیان کی طرف جنہوں نے شدید
جوابی حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے مختلف محاذوں سے امن کا جھنڈہ بلند کر تے
ہوئے وضاحتی بیان میں اپنے پاکستانی ہونے کی پختہ دلیلیں پیش کر نے کی کوشش
کی ہے جبکہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے پشتنی باشندہ ریاست کی حیثیت سے
انکی یہ دلیلیں لغو ہی نہیں غیر آئینی بھی ہیں۔راجہ فاروق حیدر صاحب کی اس
ساری کشمکش میں صرف ایک دلیل جائز اور قانونی بھی تھی کہ وہ آئین پاکستان
کے دائرہ اختیار (جیورزڈکشن) میں نہیں آتے اور وہ ٌ اپنے ملک ٌ جاکر اپنا
مقدمہ ٌ اپنے عوام ٌ کے سامنے پیش کرینگے۔
جس دن اپنی اس آئینی و قانونی دلیل اور حیثیت کا ادراک ہمارے سیاستدانوں کو
صحیح معنوں میں ہو گیا تو مسلہ کشمیر کے حل میں آسانی کے علاوہ زرمبادلہ،
پانی، بجلی، جنگل، معدنیات، نوادرات اور دلکش قدرتی نظاروں سے مالا مال صرف
پانچ ہزار مربع میل پر مشتمل آزادکشمیر اپنے عوام ہی نہیں بلکہ ان حکمرانوں
کو بھی پالنے کے قابل ہو جائیگا اور یہی حال گلگت بلتستان کا بھی ہے۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام آزادکشمیر و گلگت
بلتستان کی مقامی حکومتیں دراصل مسلہ کشمیر کی مرہون منت ہیں اور مقامی
لوگوں کی ضرورت کے مطابق با اختیار سیاسی نظام متنازعہ ریاست کے تمام منقسم
حصوں کا تسلیم شدہ قانونی حق اور تنازعہ کے فریقین پاک بھارت کی ذمہ داری
بھی ہے جس کا اقرار آزادکشمیر ایکٹ 1974میں موجود ہے۔ بھارتی زیر انتظام
وادی کشمیر تو ایک جنگ زدہ علاقہ ہے جسے بھارتی استبداد نے جنت سے جہنم میں
تبدیل کر دیا۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان و آزادکشمیر کے دونوں
پرامن مگر حقوق سے محروم خطے با اختیار نظام کے متقاضی ہیں اور ہمارے ان بے
حس ریاستی سیاستدانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ کچھ ذمہ داری خود بھی اٹھائیں،
اپنی آئینی حیثیت کے مطابق اختیار کے ذریعے اپنے وقار میں اضافہ کیجیے، لوگ
آپ کو اپنا ووٹ دیکر باعزت ریاستی منصب تک بھیجتے ہیں اگر ہر ہرکارے کی طرف
سے آپ کو باربار سمجھائی گئی حیثیت و اوقات کا کچھ خیال نہیں تو کم ازکم
عوامی امانت یعنی اس عہدے ، اس منصب کی تو لاج رکھئے ۔ اپنے پاوں اپنی زمین
پر مضبوط کر لیجئے پھر دیکھئے آپ کے اپنے ملک کے اپنے عوام آپ کا مقدمہ خود
لڑیں گے۔ یقین کیجیے آپکی ایسی اداوں کی بدولت اپنے ملک جموں کشمیر اور ملک
کے نام سے جڑے منصب کی تذلیل کی وجہ سے ان ملکیوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
ذرا جاگئے ۔۔۔۔۔
|