مسلم لیگ (ن) کے لیے مزید مشکلات کا شکار کھڑی ہوسکتی ہیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل قرار دیے جانے کے بعد جہاں مجموعی طور پر ملک کی سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہوا ہے، وہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اندرونی جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے۔ میاں نواز شریف کے بعد عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بن چکے ہیں، جبکہ حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی نے میاں نواز شریف کے بعد میاں شہباز شریف کو پارٹی کی طرف سے مستقل نیا وزیر اعظم نامزد کیا ہے، جس کے بعد مسلم لیگ کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسئلہ درپیش ہے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں، جو برسوں سے پنجاب میں بھرپور سیاست کر کے تخت لاہور پر اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں، لیکن مسلم لیگ کی پریشانی اس سلسلے میں یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کے بعد کیا مسلم لیگ نون کی طاقت کے مرکز پنجاب کو شہباز شریف جتنا مضبوط اور طاقتور کوئی دوسرا رہنما مل سکے گا؟ اگرچہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، لیکن شہباز شریف کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پارٹی نے ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے اگرچہ بعض حلقے صوبائی وزیر قانونی رانا ثنا اﷲ، وزیر اطلاعات مجتبیٰ شجاع الرحمٰن، وزیر صحت بلال یاسین اور ندیم کامران کا نام بھی لے رہے ہیں، لیکن حمزہ شہباز مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آرہے ہیں، کیونکہ شریف فیملی پنجاب کا یہ مضبوط عہدہ اپنی فیملی سے باہر کسی کو دینے پر راضی نہیں ہوگی۔ ذرایع کے مطابق شہباز شریف اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کو اپنی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا چاہتے ہیں، جو پہلے ہی نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، تاہم ان کی تقرری کا حتمی فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ جو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے منتخب ہوگا، اسے شہباز شریف سے ہدایات حاصل کرنا ہوں گی، جبکہ شہباز شریف اس پوزیشن کے لیے حمزہ شہباز کے ساتھ زیادہ مطمئن ہوں گے، اس کے ساتھ ہی شہباز شریف اپنے بیٹے کو اعلیٰ سطح کی قیادت کا تجربہ دلوانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ شہباز شریف پنجاب کے معاملات کی بلاواسطہ نگرانی کریں گے، جبکہ ان کے بھائی (سابق وزیر اعظم نواز شریف) رائے ونڈ میں اپنی رہائش گاہ سے وزارت عظمیٰ کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔ پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ کی تقرری کے بعد شہباز شریف کی ذمہ داریاں بھی دگنی ہو جائیں گی اور وہ مرکز میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ پنجاب کے امور کی بھی نگرانی کریں گے۔ اگر حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ کے منصب پر احسن طریقے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ آئندہ برس (2018) میں ہونے والے عام انتخابات میں وزارت کے مضبوط ترین امید وار ہوں گے۔ حمزہ شہباز اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 119 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر حمزہ شہبار اپنی پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد ہوتے ہیں تو انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینا ہوگا اور پنجاب اسمبلی میں اپنے والد کی چھوڑی ہوئی نشست پر الیکشن جیت کر صوبائی اسمبلی میں جانا ہوگا۔ حمزہ شہباز شریف اپنے والد میاں شہباز شریف کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 159لاہور سے الیکشن لڑ سکتے ہیں، اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے119کی ذیلی 2صوبائی حلقوں میں سے کسی کو خالی کرو ا کے اس پر بھی حمزہ شہباز کو ایم پی اے کا الیکشن لڑوایا جا سکتا ہے۔پنجاب اسمبلی میں موجود مسلم لیگ کے ارکان کی بڑی تعداد کی بھی خواہش ہے کہ حمزہ شریف ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنیں، کیونکہ یہ اپنے والد کے ساتھ سیاست میں پنجاب اسمبلی کے ارکان کے ساتھ رابطوں میں رہتے ہیں، اسی لیے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں ان کے ساتھ رابطہ کرنے میں آسانی رہے گی۔
ذرایع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکز میں شہباز شریف کو لانے اور پنجاب حمزہ شہباز کے حوالے کرنے کا فیصلہ نواز شریف کے لیے انتہائی مشکل ہوگا، کیونکہ ممکنہ طور پر نواز شریف اپنے بھائی اور بھتیجے کو مرکز اور پنجاب میں حکمرانی کرتا نہیں دیکھنا چاہیں گے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے جماعت کے کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور شہباز شریف کی جگہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب نواز شریف کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔ دونوں گھرانوں میں ایک دوسرے سے آگے رہنے کی سوچ بھی موجود ہے، اسی سلسلے میں حال ہی میں حمزہ شہباز اور نواز شریف کے بچوں کے سیاسی جھگڑوں کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ حمزہ نے پاناما پیپرز کیس میں اپنے انکل (نواز شریف) کا کھل کر دفاع نہیں کیا، جبکہ اس حوالے سے کسی بھی سطح پر زیادہ تبصرہ دینے سے بھی باز رہے، تاہم دونوں گھرانوں نے ان افواہوں کی ہمیشہ تردیدی کی، لیکن گزشتہ روز نئے آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں تہمینہ درانی کو بطور خاتون اول رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے مریم نواز، بیگم کلثوم اور حمزہ شریف کے درمیان ہونے والے اختلاف نے دونوں گھرانوں میں موجود اختلافات کی تصدیق کردی ہے۔ ذرایع کے مطابق بیگم کلثوم نواز نے اپنی بیٹی مریم کے مشورہ پر میاں محمد نواز شریف کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی دیورانی تہمینہ کو بطور خاتون اول برداشت نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا شہباز شریف سے کہہ دیا جائے کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ کسی صورت تہمینہ درانی کو وزیراعظم ہاؤس نہ لائیں۔ تاہم حمزہ شہباز انا کا مسئلہ بناتے ہوئے اپنی سوتیلی والدہ تہمینہ کو ہی وزیراعظم ہاؤس میں لانے اور خاتون اول بنانے پر بضد ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنی سوتیلی والدہ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں بطور خاتون اول وہ قیام کریں گی۔ حمزہ شہباز کا کہنا ہے کہ فیملی کے اندر ہم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے کہ ہمیں ڈکٹیٹ کیا جائے۔ گزشتہ دنوں کئی نجی ٹی وی چینلز اس بات کا دعویٰ کررہے تھے کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کسی بھی بڑے عہدے کے لیے شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز پر اعتماد نہیں کرتے، لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس شہباز شریف اور حمزہ شریف کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہی موجود نہیں ہے، کیونکہ میاں نواز شریف خود اور ان کے بچے نااہل ہوچکے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کیس کے فیصلے میں میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کافی پریشانی کا شکار ہے۔ ایک طرف پارٹی قیادت وزرات عظمیٰ کے لیے شریف خاندان کے باہر سے کسی کو نامزد کرنے کا رسک نہیں لے رہی، دوسری جانب شہباز شریف کے وزرات عظمیٰ کا منصب بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔حمزہ شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی صورت میں یہ الزام لگ سکتا ہے کہ شریف فیملی تمام بڑے عہدوں پر خود ہی قابض رہنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن رہنما تو پہلے ہی شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی کے بعد یہ کہہ چکے ہیں کہ شہباز شریف کو وزیراعظم کے لیے نامزد کرنے سے لگتا ہے مسلم لیگ ن نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، یہ موروثی سیاست کا فروغ اور اپنی دیگر قیادت پر عدم عتماد کے مترادف ہے۔ جو وزیر اعظم 45دن کے لیے بن سکتا ہے، وہ اگلے سال تک کے لیے کیوں نہیں بن سکتا؟ اگر حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا تو ناقدین کو شریف فیملی پر تنقید کرنے کا مزید موقع ملے گا، کیونکہ میاں نوازشریف نے اپنے بیانات میں ہمیشہ جمہوریت کو بچانے کی بات کرتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا جمہوریت کو بچانا صرف یہی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ صرف اپنے خاندان کے افراد ہی ہوں؟ پارٹی میں سے کسی اور کو وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ شاید ایسے حالات کے تناظر میں صوبائی وزیر قانون ثنا اﷲ نے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی مخالفت کی ہے۔ رانا ثناء اﷲ نے شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ ہی رہنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ رانا ثناء اﷲ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب ہی رہنا چاہیے۔ اگر شہباز شریف پنجاب سے دور ہوگئے تو پھر مسلم لیگ ن کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ شہباز شریف کا جانا پنجاب میں مسلم لیگ ن کے کمزور ہو جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ پارٹی کے ایک دھڑے کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے، ان حالات میں پارٹی قیادت کو دوررس فیصلے کرنا ہوں گے، تاکہ پارٹی متحد رہے۔ رانا ثناء اﷲ، میاں شہباز شریف کا بہتر متبادل ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان میں انتظامی امور پر دسترس ہونے کے علاوہ حکومتی اتھارٹی تسلیم کرانے کی صلاحیت بھی حاصل ہے۔ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کے فیصلے کے بعد اگر شریف خاندان میں سے ہی کسی کو بالخصوص حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا تو ممکن ہے پارٹی میں سوالات اٹھنا شروع ہو جائیں، اس لیے مناسب یہی ہو گا کہ پارٹی کے اندر سے دوسرے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے کسی ایک کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپا جائے۔ اس کے لیے رانا ثناء اﷲ اور راجہ اشفاق سرور جیسی شخصیات ہی نہایت موزوں ثابت ہو سکتی ہیں۔ مذکورہ بالا شخصیات میں سے کسی ایک کو آگے لانے سے پارٹی کا مورال بلند ہو جائے گا۔ اس سے پارٹی کی سیاست میں نیک نامی بھی ہو گی اور پارٹی کے اندر پائی جانے والی سازشیں بھی دم توڑ جائیں گی، لیکن رانا ثناء اﷲ پر ماڈل ٹاؤن میں 14افراد کے قتل کا مقدمہ ہے، اس لیے وہ بھی متنازعہ ہیں، ایسے میں وزیر اطلاعات مجتبیٰ شجاع الرحمٰن مضبوط امیدوار بن سکتے ہیں۔بہرحال قوی امکان یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ہی ہوں گے، کیونکہ شریف فیملی خاندان سے باہر کسی کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ دینے کو تیار نہیں ہوسکتی۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ اب تک، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 پر ممکنہ طور پر ستمبر میں ہونے والے انتخابات تک شہباز شریف وزیراعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہے ہیں گے، ان کے انتخابات تک وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کے خلاف کوئی قانونی مسائل درپیش نہیں، اس لیے شہباز شریف نے منصب چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ اگر شہباز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں انتخابات سے قبل وزیراعلیٰ کے عہدے کو خیر باد کہنا چاہیے۔صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ پنجاب حکومت قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی فنڈز جاری کرسکتی ہے، جس میں ٹیمپل روڈ، موزنگ، انارکلی، لیٹن روڈ، نشات روڈ اور اسلام پورہ کی تعمیر شامل ہیں، اس کے علاوہ شہباز شریف کے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے اور مستعفی نہ ہونے کی صورت میں وہ الیکشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے لیے این اے 120سے الیکشن جیتنا ضروری ہے، 2013میں اس حلقے سے میاں نواز شریف نے الیکشن جیتا تھا، جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کی یاسمین راشد نے الیکشن لڑا تھا۔ 2013 میں ہونے والے جنرل الیکشن میں اس نشست سے نواز شریف نے 91,744 ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی تھی، جب کہ ان کے مدمقابل یاسمین راشد نے 52,873 ووٹ لے کر کانٹے دار مقابلہ کیا تھا۔اب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے چوھری محمد سرور کو اس حلقے سے میاں شہباز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑوانے کے لیے ترجیح دی جارہی ہے اور یہ قوی امید ہے کہ اپوزیشن جماعتیں میاں شہباز شریف کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو ہی ووٹ دیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کا اس حلقے سے جیتنا مشکل ہے، کیونکہ الیکشن 2013 میں نواز شریف اور ڈاکٹر یاسمین کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ سلمان بٹ نے 953 اور پیپلز پارٹی کے زبیر کاردار نے 2 ہزار 605 ووٹ لیے تھے۔ اگر ان جماعتوں کے ووٹ بھی تحریک انصاف کے حصے میں آجائیں تو بھی تحریک انصاف کا یہاں سے جیتنا مشکل ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.