دوسروں سے متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے، اقوام ، ممالک،
سیاستدان، تہذیبیں ،جماعتیں اور مفکرین سب ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں،اس
جہت سے آزاد کشمیر کی سیاست اور عوام بھی پاکستان کے تحتِ تاثیر ہے۔
آزاد کشمیر کے لوگ فطری طور پر پاکستان کی محبت اپنی گھٹی میں لے کر پیدا
ہوتے ہیں اور جو کچھ سیاسی و قومی سطح پر پاکستان میں ہوتا ہے وہ اسے من و
عن قبول کر لیتے ہیں۔
البتہ کشمیری شخصیات اور دانشمندوں میں سردار عبدالقیوم خان کو یہ انفرادیت
حاصل ہے کہ انہوں نے الحاق پاکستان پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر کشمیریوں کو
منفرد سیاسی سوچ دی۔
اگرچہ پاکستان کی تقریبا ساری سیاسی پارٹیوں نے آزاد کشمیر میں ڈیرے ڈال
رکھے ہیں اور ان کی سیاسی کرپشن کے نمونے آزاد کشمیر میں بھی پائے جاتے
ہیں تاہم اس کے باوجود سردار عبدالقیوم خان نے کشمیر کی الگ سیاسی پارٹی
بنا کر کشمیر کی سیاست کو بڑی حد تک پاکستانی سیاست کے منفی اثرات سے محفوظ
رکھا۔
وزارتِ امور کشمیر بھی چونکہ پاکستانی سیاست دانوں اور پاکستانی حکومت کا
ماتحت ادارہ ہے لہذا اس ادارے نے بھی پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی
سیاسی جوڑ توڑ میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
آزاد کشمیر کی نظریاتی سیاست میں 1991ء سے 1996ء تک کا عرصہ نہایت اہمیت
کا حامل ہے، اس دوران آزاد کشمیر کی نمائندہ نظریاتی تنظیم مسلم کانفرنس
دو دھڑوں میں تبدیل ہوگئی۔ ایک دھڑا سردار سکندر حیات خان اور دوسرا سردار
عبدالقیوم خان کی سرپرستی میں چلا گیا۔
وجوہات جو بھی تھیں، اب مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ اس دھڑے بندی کے بعد
سردار سکندر حیات اپنا نظریاتی توازن قائم نہیں رکھ سکے اور انہوں نے سردار
عبدالقیوم خان کی وفات کے بعد مسلم کانفرنس کو سنبھالنے کے بجائے میاں نوا
زشریف کو آزاد کشمیر میں ’’مسلِم لیگ نون‘‘ کی شاخ کھولنے پر راضی کیا اور
26 دسمبر 2010ء کو میاں نواز شریف نے مظفرآباد جاکر مسلم لیگ نون کے قیام
کا اعلان کر دیا اور سردار سکندر حیات مسلم لیگ نون میں چلے گئے۔
آزاد کشمیر کی سیاست کا اس وقت تیسرا بڑا نام بیرسٹر سلطان محمود چودھری
کا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آزاد مسلم کانفرنس سے کیا، بعد
ازاں وہ لبریشن لیگ میں ضم ہو گئے پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کو گلے لگایا
اور پھر پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر انہوں نے پیپلز مسلم لیگ بنائی ، ان کی
بے تاب روح کو پھر بھی سکون نہیں ملا اور کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ پیپلز
پارٹی میں شامل ہو گئے، اور فی الحال تحریک انصاف کی آنکھ کے تارے ہیں۔
ہم یہ فیصلہ قارئین پر ہی چھوڑتے ہیں کہ قارئین خود ہی ان کی نظریاتی سطح
کا تخمینہ لگا لیں۔بہر حال یہ آزاد کشمیر کی سیاست کا مجموعی نقشہ ہے ،
ایسے میں گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار فاروق حیدر نے پاکستان
کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر
کے الحاق پاکستان کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دیا اور بعد ازاں اس کی
تردید بھی کی لیکن میڈیا نے اس بیان کو بہت اچھالا۔
یاد رہے کہ سردار فاروق حیدر کا تعلق بھی مسلم لیگ نون کے آزاد کشمیر ونگ
سے ہے۔ وہ ایک طرح سے میاں نواز شریف کی دلجوئی کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف
ان کی تاک میں بیٹھے ہوئے افراد نے ان کے بیان سے سوئے استفادہ کیا ، خصوصا
پی ٹی آئی کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا دیکھنے میں آیا۔
ان دنوں پی ٹی آئی چونکہ نواز شریف کی برطرفی کے بعد اپنے آپ کو ایک فاتح
تنظیم کے طور پر دیکھ رہی ہے لہذا پی ٹی آئی کے رہنماوں نے ہر طرح کی
اخلاقی حدودو قیود کو پھلانگتے ہوئے کشمیریوں کے بارے میں وہی زبان استعمال
کی جوہ وہ عرصہ دراز سے نواز شریف کے خلاف استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔
وہ اپنی تازہ تازہ فتح کے زعم میں یہ بھول گئے تھے کہ اس مرتبہ ان کے
مقابلے میں شریف خاندان نہیں بلکہ کشمیری قوم ہے۔اس وقت کشمیریوں کے بارے
میں پی ٹی آئی اور ہندوستان کا موقف ایک ہی ہے کہ کشمیریوں کی کوئی عزت
اور اوقات نہیں۔
پی ٹی آئی کے تند و تیز بیانات کے بعد کشمیری عوام نے جس سوشل یکجہتی اور
ملی طاقت کا مظاہر ہ کیا ، اس کی مثال شاید ہی کہیں اور دیکھنے کو ملے۔
کشمیریوں نے پی ٹی آئی کے رہنماوں کو دندان شکن جواب دے کر یہ ثابت کر دیا
کہ وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں ۔ انہوں نے الزامات ، تہمتیں اور
کھوکھلے ڈائیلاگ کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے، مختلف آڈیو، ویڈیو اور
تحریری بیانات میں جہاں پی ٹی آئی کو جوابات دئیے وہیں پاکستان سے اپنی
محبت اور اپنے نظریاتی لگاو کا بھی بھرپور ثبوت دیا۔
اس وقت کشمیریوں کی سوشل نفسیات یہ بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے سارے
کشمیریوں کو سردار قیوم کے بعد ایک مرتبہ پھر متحد کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے کی جانے والی توہین کے بعد ان دنوں کشمیری چارو ناچار
مندرجہ زیل نکات پر سوچ رہے ہیں:
۱۔ وہ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح پاکستان کا حصہ ضرور ہیں لیکن کسی کے
غلام نہیں ہیں
۲۔ دوسروں پر کیچڑ اچھال کر سیاست کرنے والوں کا راستہ کشمیر میں روکا جانا
چاہیے
۳۔ پاکستانی سیاست کے منفی کلچر کو کشمیر میں درآمد نہیں کرنا چاہیے
۴۔کشمیریوں کو کشمیر کی مقامی سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ہی اپنی شناخت قائم
کروانی چاہیے
۵۔الحاق پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں لیکن کشمیری قوم کی عزت کے لئے سارے
کشمیریوں کو متحد ہونا چاہیے۔
بحیثیت پاکستانی ہم پی ٹی آئی کے شکر گزار ہیں کہ پی ٹی آئی نے سارے
کشمیریوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔وہ کام جو آج تک پاکستان میں
نہیں ہو سکا وہ کشمیر میں ہو گیا ہے۔
موجودہ حالات سے یہ صاف لگ رہاہے کہ اس واقعے سے ا ب کشمیر میں نظریاتی
سیاست نے نیا جنم لیا ہے اور کشمیریوں نے رٹے رٹائے سیاسی اسباق کے بجائے
سیاست کے نئے آفاق دریافت کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ |