چھوٹی سوچ

قانون کی حاکمیت کا جو تصور ترقی یافتہ ممالک میں پایا جاتاہے۔ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے۔یہاں اس تصور کا مطلب یہی لیا جاتاہے کہ قانون کی حاکمیت دوسروں کے لیے ہے۔ہم خود اس سے مستثنی ہیں۔تمام بڑے دھڑے ۔ادارے۔اور گروہ اسی تصورکے قائل ہیں۔ایک تماشہ سا لگاہواہے۔ایک دوسرے کو گنا ہ گار قراردیا جارہاہے۔اور خود پر دھیان نہیں جاتا دوسر ی کی بد اعمالیوں کا چرچہ کیا جارہا ہے۔اور خود کی اس سے بھی بڑی کوتاہیاں نظر نہیں آرہیں۔ایسا تصور ہمارے ہاں ایک روایت سی بن گیاہے۔اور بدقسمتی سے مستقبل قریب میں اس روایت کے ختم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری اس لحاظ سے تاریخ میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔کہ بد قسمتی سے انہیں دوبار قبل از وقت اپنا عہدے سے الگ ہونا پڑا۔وہ صدر مشرف کے لیے چھچھوندر سی بن گئے تھے۔نہ ان کے ساتھ کا م کرنا آسان تھا۔نہ انہیں نکال باہر کرنا۔اس دھینگا مشتی کا مثبت پہلو یہ نکلاکہ افتخار محمد چوہدری کی ساری جھجک اتر گئی۔اگر نو مارچ کو صدر مشر ف انہیں غیر فعال نہ کرتے تو شاید چوہدری صاحب مشرف کے رعب اور دبدبے کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرتے۔بڑے آرام سے اپنی مدت ملازمت پوری کرتے اور صدر مشر ف کے جاہ وجلال دل میں ہمیشہ باقی رہتا۔مگرایسا نہ ہوپایا۔ عدلیہ کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لینا تھی۔اس لیے انہونی سی ہوتی چلی گئی۔ پہلے صدر مشر ف نے نو مارچ کی غلطی کی جس نے عدلیہ کو بیس جولائی کی جرت کا موقع دیا۔اس کے بعدپھر مشرف کی غلطیوں اور عدلیہ کی جرتوں کا ایک مقابلہ سا شروع ہوگیا۔تین نومبر کا واقعہ اسی مقابلے کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔جب مشرف کے اعصاب جواب دے گئے ۔او رانہوں نے وردی پہن کرتما م تر عدلیہ کو گھر بھجوا دیا۔

دوسرے کی غلطیوں کے جواب میں ان سے بڑی غلطی کرنے کا حق رکھنے کی بری روش ہماری ریاست کا مذاق بنا رہی ہے۔وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی بھی اسی روش کا ایک نتیجہ ہے۔انہیں اسی عدم برداشت کی روایت لے ڈوبی۔ان کا دور نسبتا ایک اچھا دور تھا۔جب ملک کے طول وعرض میں سڑکوں ۔انڈسٹری ایریاز۔بجلی کے منصوبوں کا جال بچھ رہاتھا۔مگر انہیں اس لیے نکما قرار دے دیا گیا۔کہ وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کے جرم وار ثابت ہوئے۔چینی اخبار نے مقامی پروفیسر لا ن کے حوالے سے لکھا ہے کہ عدالت کی طرف سے نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے سی پیک منصوبہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوسکتاہے۔سیاسی جماعتوں میں اس منصوبے کے مشرقی اور مغربی روٹ میں سے ترجیح کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔نواز شریف اس منصوبے کے مشرقی روٹ جو کہ پنجاب او رسندھ سے متعلق ہے ۔کو ترجیح دیتے ہیں۔اگر دوہزا ر اٹھارہ کے الیکشن میں نوازشریف کی جماعت کو کامیابی نہ ہوئی تو سی پیک کا منصوبہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوسکتاہے۔یہ بھی ہوسکتاہے۔کہ سی پیک منصوبے کے کچھ حصوں سے متعلق تحقیقی عمل شروع کردیا جائے۔

چینی اخبار کی خبرنوازشریف کی عالمی سطح پر مقبولیت اور اہمیت کی دلیل ہے۔دینا انہیں ایک مخلص ۔اور دلیر رہنما کے طور پر جانتی ہے۔ مامریکہ میں ان کا امیج ایک محب وطن اور قوم پرست لیڈر کا ساہے۔ایسا لیڈر جو قوم او رریاست کے مفاد پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔اٹھائیس مئی کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو ملک کی قیادت نواز شریف کے ہاتھ میں تھی۔امریکی صدر اس وقت پاکستانی قیادت کو ڈراوے بھی دے رہے تھے۔او رلالچ بھی مگر نواز شریف نہ لالچ میں آئے نہ ڈراوے میں وہی کیاجو پاکستان کے لیے ضروری تھا۔امریکی صدر نے نوازشریف کے اس جرت مندانہ رویے کو پسند کیا۔ وقتی طور پر تو انہوں نے جھلاہٹ دکھائی مگر بعد میں جب بھی نوازشریف کا نام ان کے سامنے آیا انہوں نے ان کا مثبت انداز میں ذکر کیا۔نوازشریف کی پہچان سعودی عرب او رخلیجی ریاستوں میں بھی انتہائی موثر ہے۔یہاں پاکستان او رنواز شریف کو لازم وملزوم تصو رکیا جاتاہے۔سعودیہ نے بھٹو او رنواز شریف سے متعلق ہمیشہ جزباتیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ان دونوں کے لیے سعودی فرمانروا آخری حد تک جانے پر بھی آمادہ رہے۔خلیج ریاستوں میں شریف فیملی ایک مدت سے اپنا کاروبار کررہی ہے۔اس فیملی کے حسن سلوگ نے یہاں خاصی توجہ پائی ہے۔چین اور ترکی بھی نواز شریف کو ایک قابل اعتماد رہنما قرار دیتے ہیں۔دونوں ممالک نے پاکستان میں اپنے بیسیوں پراجیکٹس شروع کررکھے ہیں۔چین بالخصوص محنت او رایمانداری کے فلسفے پر کاربندہے۔اسے نوازشریف کی شخصیت پر اندھایقین ہے۔سی پیک کا اربوں ڈالر کا منصوبہ چین کی طرف سے نوازشریف پر اندھے اعتماد کی روشن دلیل ہے۔

کچھ لوگ نوازشریف کو غیر اہم او رسطحی لیڈر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیںیہ وہ گروہ وفاداران ہے جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر نان ایشوزکو ایشوز اور ایشوز کو نان ایشوز بنانے کی خدمت پر مامور ہیں۔سچ کو جھوٹ بنا کر دکھانے کی لعنت انہی کے حصے آئی ہے۔یہ لوگ ایک متواتر پراپیگنڈے کے ذریعے قوم کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نوازشریف نہ بھی رہے تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔یہ ان کی چھوٹی سوچ ہے۔ایسی چھوٹی سوچ جو کبھی افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ کے خلاف استعمال ہوئی تھی۔نوازشریف بھی ایک عرصہ سے اس چھوٹی سوچ والوں کی زد پر ہیں۔دنیا نوازشریف پر اندھا اعتماد کررہی ہے۔اس کی قابلیت اور اخلاص کی گواہی دے رہی ہے۔مگر یہ چھوٹی سوچ والے یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں۔کہ نوازشریف ہو۔یا نہ ہو۔کوئی فرق نہیں۔ شاید یہ لوگ پاکستان کو کھنڈرات میں بدلنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ایسے کھنڈر جو الو باٹوں کے آنے سے بنیں گے۔جو نوازشریف کو نکال کر یہ لوگ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔چھوٹی سوچ والوں کو اندازہ ہے کہ ان کی اس بری پریکٹس پر دنیا کتنا ہنس رہی ہے۔
 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 122617 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.