نئے وزیراعظم، توقعات؟

 نئے وزیراعظم سے ایسی توقعات نامناسب ، ایسی امیدیں بے سود اور ایسی خواہشات بے ثمر ہوں گی، جن میں اُن پر خودمختاری کی تہمت لگائی جائے، ان سے آزادانہ فیصلوں کی توقع رکھی جائے، ان سے کچھ کر گزرنے کی امید باندھی جائے۔ شاہد خاقان عباسی تین عشروں سے میاں برادران کے ساتھ ہیں، اس سے قبل وزیراعظم کے والد بزرگورار خاقان عباسی اور میاں نواز شریف جنرل ضیاء کے ساتھ تھے۔ خاقان عباسی وفاقی وزیر جبکہ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ تب سے اب تک شاہد خاقان عباسی نے کبھی پارٹی تبدیل نہیں کی ، قومی اسمبلی کی سیٹ پر پنڈی کے عوام نے ہمیشہ ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ وہ چھ مرتبہ ایوانِ زیریں کے رکن منتخب ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انہوں نے سابقہ ادوار میں مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھالے، وہ پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے، مگر شاید وزارتِ عظمیٰ کا خواب انہوں نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ ہُما اگر اُن کے سر پر بیٹھا ہے تو یہ میاں نواز شریف کی ہی نظرِکرم کا نتیجہ ہے۔ پارٹی کے اندر وہ مقبولیت کے اس مقام پر فائز تو نہیں ہوگئے تھے کہ میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں مسلم لیگ ن کے تمام ارکان اسمبلی انہیں اپنا لیڈر منتخب کرلیتے۔

نئی کابینہ بھی معرضِ وجود میں آچکی ہے، چوہدری نثار کی معذرت کے علاوہ سابق کابینہ کے تمام ارکان وزارتی قلمدانوں یا تھوڑی اونچ نیچ کے بعد موجود ہیں۔ توقعات کے مطابق دانیال عزیز اور طلال چوہدری کو بھی وزارتیں عنایت کردی گئی ہیں، انہوں نے گزشتہ کئی ماہ بہت زیادہ محنت کی، ٹی وی چینلز پر پارٹی کی خود ساختہ ترجمانی کی، مخالفین کے طعنے سہے۔ دانیال عزیز تو مشرف دور میں بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ اپنے باس کی ترجمانی کا فریضہ نبھایا کرتے تھے، اُس وقت بھی وہ جنرل مشرف کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوتے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے یہی نسخہ آزمایا، اسے کارگر پایا، اور منزل مراد پائی، کیونکہ عہدہ یا حکمرانوں کی قربت بعض لوگوں کی مجبوری اور ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر ان کا ’کاروبار‘ نہیں چلتا۔ کابینہ میں بعض نئے چہروں کو بھی موقع دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے دور دراز ضلع لودھراں سے عبدالرحمن کانجو کو بھی وزارت دی گئی ہے، ان کے والد صدیق خان کانجو وزیر مملکت برائے خارجہ امور رہ چکے ہیں۔ گزشتہ قومی الیکشن میں ضلع لودھراں میں انہوں نے ’شہید کانجو گروپ ‘ کے نام سے کلین سویپ کیا تھا، بعد ازاں وہ مسلم لیگ ن (حکومتی پارٹی) میں شامل ہو گئے تھے، مگر انہیں خاطر خواہ لفٹ نہیں ملی تھی۔ لودھراں میں قومی اسمبلی کے دو ہی حلقے ہیں، جن میں دوسرے پر ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کامیاب ہو چکے ہیں۔ عبدالرحمن کانجو میٹرک نہ ہونے کے باوجود دو مرتبہ ناظمِ ضلع بھی رہ چکے ہیں، ان کی نااہلی کا فیصلہ پایہ تکمیل کو پہنچ ہی نہ سکا، کیونکہ وہ تب کے حکمرانوں کے قریب تھے، اب اِن کے قریب ہیں۔ خیر مفاد پرستی بھی وقت کی ضرورت ہے۔

خواجہ آصف کو وزیر خارجہ بنانا اور مشاہداﷲ خان کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنا بہت اہم معاملہ ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ادارے مقدس گائے ہیں، اگر ادارے درست سمت میں کام نہیں کریں گے، یا وہ اپنی حدود سے باہر نکلیں گے تو معاملات خراب ہوں گے اور ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اداروں کو مضبوط کرنا حکومتوں کا کام ہوتا ہے، افراد آتے جاتے رہتے ہیں، اداروں میں حکومتی مداخلت نہ ہو اور ادارے کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کریں ۔ میاں نواز شریف چونکہ عدلیہ کے ذریعے سیاست سے نااہل ہو چکے ہیں، اس لئے مسلم لیگ ن کے قائدین اور کارکنان اس وقت عدلیہ کے خلاف کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مشاہداﷲ کی وزارت بھی کچھ عرصہ پہلے ختم کردی گئی تھی، اس کی وجہ بھی قوم کو یاد ہے، اسی طرح نئے وزیرخارجہ خواجہ آصف بھی کھل کر انہی اداروں کے بارے میں باتیں کرنے کے عادی ہیں۔ حکمت نامی چڑیا سے ان کی واقفیت نہیں ہے، ٹکراؤ کی پالیسی کے یہ علمبردار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی ذمہ داریوں کے ساتھ کس نئے مشن کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں؟ اداروں کی اصلاح کرتے ہیں یا اُن سے ٹکراؤ کو ترجیح دیتے ہیں۔مخالفین کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نئے وزیراعظم کی میاں نواز شریف کے ساتھ یہ عقیدت ان کی پارٹی کے تمام لوگوں کے لئے خوش آئند ہے، گویا مخالفین کی نگاہ میں جو خامی ہے، وہ حکومتی پارٹی کی نظر میں بہت بڑی خوبی ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.