نومبر 2006ء کی بات ہے جب نواز شریف نے اپنی پارٹی کے
104 سرکردہ افراد کو لندن طلب کیا۔ راقم بھی پارٹی عہدے دار کی حیثیت میں
ان مدعوکیے گئے لوگوں میں شامل تھا۔ان تمام افراد کو خاص پروٹوکول کے ساتھ
چھے چھے مہینے کے لیے ویزے جاری کیے گئے۔ اور خاص بات یہ تھی کہ برٹش
ایمبیسی کی جانب سے ان تمام افراد سے نہ تو بینک اسٹیٹمنٹ مانگی گئی، نہ ہی
NTNاور پراپرٹی کی تفصیلات۔ ان مدعوئین کو ویزوں کے اجراء کے لیے قطارمیں
بھی نہیں لگنا پڑا بلکہ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا۔ قابلِ
ذکر بات یہ ہے کہ الطاف حُسین کی جانب سے مدعو کیے گئے افراد کے ویزے بھی
اسی طریق پر جاری ہوتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ نواز شریف کے برطانیہ میں
موجودہ اثاثوں اور رقم کی مالیت اتنی خطیر تھی ، اتنی بڑی بڑی ٹرانزیکشن
ہوتی تھیں کہ ان کی گارنٹی ہی کو کافی سمجھا گیا اور تقریباً تمام کے تمام
افراد کے ویزے با آسانی لگ گئے۔ سو یہ ہے ان کے برطانیہ جیسے ایک مُلک میں
اثاثوں اور اثر و رسوخ کی حالت۔
اسی طرح کا ایک مقام دوبئی ہے جو دُنیا بھر میں کالے دھن سے جُڑے لوگوں کے
لیے سرمایہ کاری اور ناقابلِ گرفت مقام ہونے کی بنا ء پر جنت کا درجہ رکھتا
ہے۔ اسی وجہ سے شریفوں کا مقامِ انتخاب ٹھہرا۔ نواز شریف کے بچوں کی سولہ
کمپنیاں خسارے میں جا رہی تھیں جن میں سے تیرہ کے قریب کمپنیوں کو دُبئی سے
نواز شریف کی ملکیت FEZ کمپنی سے اربوں روپے کی فنڈنگ کی گئی۔ چونکہ دوبئی
میں موجود سرمائے کے راز افشا نہیں کیے جاتے اس لیے بلاخوف و خطر انہوں نے
اپنا کام جاری رکھا۔ یہ جو شور مچا رہے ہیں کہ صرف اقامہ چھُپانے کی بناء
پر سپریم کورٹ نے انہیں ضرورت سے زائد سخت سزا دی تو یہ بات ملحوظِ خاطر
رہے کہ اقامہ رکھنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس کے ذریعے کروڑوں اربوں کی رقم
منتقلی اور وصولی میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اربوں کھربوں ڈالر کے مالک کو چند
ہزار ڈالر کی نوکری کی خاطر بھلا اقامہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ سو یہ ہے
اقامے کی اصل اہمیت ۔
جیسا کہ پاکستان میں شروع سے کلچر ہے کہ جب کسی چور کی چوری پکڑی جائے تووہ
سینہ زور ہو جاتا ہے اور پھر کھُلّے عام ڈاکا زنی اور غنڈہ گردی پر اُتر
آتا ہے۔ یہی کیفیت اس وقت شریف برادران کی ہو چکی ہے۔ اپنی نام نہاد عزت و
آبرو گنوانے کے بعد وہ ذلت اور بدقماشی کی کسی بھی انتہا کو چھُونے کو تیار
ہیں۔ اور اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ یہ سپریم کورٹ اور اداروں پر لفظی
تبرے عنقریب باقاعدہ اداروں اور شخصیات پر گلو بٹ ٹائپ حملوں میں بدلنے
والے ہیں۔ ایک ایسا ماحول رچا جا رہا ہے کہ جس میں عدالتی فیصلے کو بے وقعت
بنایا جائے۔ معزز جج صاحبان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ظاہر کر کے
فیصلے کی حُرمت کی دُھجیاں بکھیر دی جائیں۔ شور و غل، دھما چوکڑی اور فتنہ
و فساد کی ایسی دبیز گرد اُٹھائی جائے جس میں سچ اور انصاف کی جیت کہیں گُم
ہو کر رہ جائے۔ اگر سب کچھ ناکام ہو جائے تو پھر ان کا آخری حربہ2018ء میں
ایک بار پھر آر او الیکشنزکروا کر پارلیمنٹ سے نواز شریف کی عدالتی سزا کو
کالعدم قرار دلوانا ہی رہ جائے گا ۔
درحقیقت نواز شریف جیسا ٹائی ٹینک ڈوب چکا تو شہباز شریف کی حیثیت تو کاغذ
کی ناؤ جیسی ہے۔ اُس کا سیاسی کیریئر بھی اپنے اختتام مراحل میں داخل ہو
چکا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز، جعلی پولیس مقابلے، ماڈل ٹاؤن کا انسانیت سوز قتلِ
عام، موجودہ اور سابقہ دور کے تمام میگا پراجیکٹس میں کھربوں روپے کی کِک
بیکس اور کرپشن اور نہ جانے کیا کیا باہر آنے والا ہے۔ یہ سب تو ایک طرف جس
وقت شہباز شریف کے خانگی و ازدواجی معاملات سامنے آ گئے تو بھی اس کی
نااہلیت 62-63 آرٹیکل کے تحت ناگزیر ہو جائے گی۔ اگر نواز شریف جیسے شخص کا
احتساب کی انہونی ہو کر رہی تو ہونی بھی ہو کر رہے گی۔
شہباز شریف کو سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف اُسے وزیر اعظم بنا کر اُس کے
احساسِ محرومی کا خاتمہ کرنا چاہ رہا ہے یا پھر اُس کے پنجاب پر سیاسی و
انتظامی قبضے سے محروم کرنے کی خاطر اُسے مرکز میں لا رہا ہے۔شہباز شریف کو
وزیر اعظم نامزد کروانے میں چودھری نثار کی بروقت بلیک میلنگ بھی شامل تھی،
نہیں تو نواز شریف کو شہباز شریف پر اتنا غصّہ ہے کہ اُسے کچا چبا جائے۔
ظاہر ہے نواز شریف کو اُس کے سارے بچوں سمیت نااہل کروا کر ان کی ساری
سیاسی ایمپائر کوملیا میٹ کر دینا عمران خان کی سیاست کا کمال نہیں بلکہ
شہباز شریف کی رچائی درپردہ سازشوں کا نتیجہ ہے۔ آستانہ شریفیہ کو آگ گھر
کے چراغ سے ہی لگی ہے۔
شہباز شریف کی صوبے میں عدم موجودگی کی صورت میں پنجاب کی انتظامیہ و دیگر
اداروں پر سے نواز لیگ کا کنٹرول کمزور پڑ جائے گا جو آگے جا کر انتخابات
میں من مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں سدِ راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برخوردار
حمزہ کے بہت سے مسائل ہیں۔ اُس کی ساری صلاحیت پولیس کی مدد سے سیاسی
مخالفین کو پھینٹی لگوانے، ماورائے عدالت قتل کروا نے یا پھر غنڈوں کی مدد
سے زمینوں پر قبضے اور ریڑھی بانوں اور دُکانداروں سے بھتّے وصول کرنے تک
ہی محدود ہے۔ مزید یہ کہ باپ بیٹے کے تعلقات میں اختلاف کی بہت وسیع خلیج
حائل ہو چکی ہے۔ برخوردار بیشتر وقت کسی خاص کیفیت میں ہی رہتا ہے سو ایسے
نااہل برخوردار کے حوالے پنجاب جیسے بیس کیمپ کرنا سراسر خسارے کا سودا ہے۔
یقینا شہباز شریف کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل صورتِ حال ہے۔ خوفزدگی کا یہ
عالم ہے کہ اپنے ہی شہر اور اپنے ہی آبائی حلقے میں ایم این اے کا الیکشن
لڑنے کو تیار نہیں۔ جب نواز شریف جیسا بااثر آدمی یاسمین راشد کو چند ہزار
ووٹوں سے ہرا سکا اور وہ بھی مبینہ طور پر راتوں رات جعلی ووٹوں کے بھُگتان
سے تو اب جبکہ ان کی ساری سیاسی ساکھ رخصت ہو چکی ہے تو اب انہیں چند ہزار
ووٹ بھی کہاں سے پڑیں گے۔ لاہور سے ہارنا شہباز شریف کی نام نہاد مقبولیت
کی قلعی کھول دے گا۔
اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر انہوں نے ایک عظیم الشان ’عوامی‘
اجتماع کا اہتمام کیا ہے جس میں پٹواریوں ، خاکروبوں اور نائب قاصدوں وغیرہ
کی بڑی تعداد جوق در جوق شرکت فرما کر بھی اسے کامیاب بنانے میں ناکام ثابت
ہو گی۔ ان کی جس قدر جگ ہنسائی ہوئی ہے اس سے یہ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ شائد
انہیں مستقبل میں جلسوں کا انعقاد مسجدوں میں کروانا پڑے گا کیونکہ وہاں پر
آنے والوں کو اپنی جُوتیاں باہر رکھنا پڑتی ہیں۔
اس وقت گنتی کے جس جی ٹی روڈ سے یہ اداروں پر حملہ آور ہونے کی خاطر ہزاروں
گلو بٹوں کا اجتماع لے کر شانسے نکلتے تھے، آج اُسی روڈ پر ان کی سیاست کے
دم توڑنے کا منظر خلقِ خداکی بصارت کی زینت بننے والا ہے۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں |