عوام کے نام اک پیغام!

جس ملک کے عوام کا ہی بٹوارا ہو جائے کیا ایسا ملک ترقی کر سکتا ہے ؟“

وزیرِاعظم کی نا اہلی سے لے کر عائشہ گلالئی کے الزامات اور اس کے بعد عائشہ احد کی پریس کانفرنس تک ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وطنِ عزیز میں کوئی بھوچال ہی آگیا ہو جس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
ایک ایسی مصیبت ایک ایسی آفت جس سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا ہو ٹی وی چینلز سے لے کر گھروں میں بیٹھے لوگوں تک غصہ اور نفرت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔
سوشل میڈیا پر ایسی ایسی زبان ایسی ایسی گفتگو پڑھنے کو ملتی ہے کہ رب کی پناہ ۔
اپنے سیاسی لیڈر کی ہمائیت میں میری قوم نے وہ وہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دئیے ہیں جسکا کبھی وہم و گمان بھی نہیں تھا۔
الزامات سازشوں اور چالوں نے اس قوم کے گرد اپنا گھیرا اتنا تنگ کر دیا ہے کہ اب غیر سیاسی بندے کو بھی گٹھن ہونے لگی ہے۔

میں نے ایک ملی نغمے میں سنا تھا کہ” اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں “ لیکن بڑے ہی گہرے صدمے کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے جیسے محبت کی کہانیاں صرف فلموں اور ڈراموں میں ہی اچھی لگتیں تھیں یہ نغمہ بھی بلکل اسی طرح صرف ایک ”نغمہ“ اور ”شاعر کی حسین شاعری“ کے علاوہ مزید کچھ نہیں کیونکہ جو حال میری قوم کا اس وقت ہے اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے ہم ”ایک“ تو کیا اب ہم ”کسی ایک“ کے بھی نہیں رہے۔
ایسا لگنے لگا ہے دوگلی پالیسیوں اور بے کار کے پروپیگنڈوں میں جیسے ہم نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہو۔
ہم جو ”یکجہتی“ کے نعارے لگانےوالے تھے اب اپنے ہی مفاد کی خاطر اسی یکجہتی کا خون کر چکے ہیں اور اخلاقیات کا سب سے بڑا جنازہ ”سیاست“ کے نام پر ہمارے ہی وطن میں نظر آنے لگا ہے جیسے پورا وطن تو کیا پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ہماری طرف سے پوری دنیا کو جو پیغام جا رہا ہو گا اس سے بھی آپ سب با خوبی واقف ہونگے۔
کہتے ہیں ”اتفاق میں برکت ہوتی ہے“ مگر ہماری برکت اسی وقت دم توڑ گئی تھی جب ہم نے ”میرا لیڈر سچا ہے “ کی جنگ کو ہوا دی اور ”تو تو میں میں“ کی تنظیمیں چلائیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک ملک کے رہنے والے ہم سب ایک امت ایک عوام نہیں ؟
کیا پاکستان کسی کی جاگیر ہے؟
ملک تو آپکا ، میرا ہم سب کا ہے۔
جھموریت کے نام پر حاصل ہوا یہ ملک کسی کی ذاتی جائیداد تو نہیں تو پھر کیوں اس ملک کے بگڑے حالات کو ہم اور آگ لگا رہے ہیں؟ کیوں اس ملک میں سیاست کے نام پر بٹوارے کر کے فخر محسوس کرتے ہیں ؟ کیوں ہم سوشل میڈیا پر نا ذیبہ الفاظوں کا استعمال کر کے
ٹی وی چیلنز پر بیٹھ کر دوسروں پر گند اچھال کر
میں ”جنتی“ باقی ”دوزخی“ کا راگ گا کر
اپنی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے اٹھا کر گنڈہ گردی کر کے ملک میں انتشار پھیلارہے ہیں ؟ آخر کیوں ؟ یہ سب منفی سرگرمیاں کرنے والے کون ہیں ؟
کیا یہ ”پاکستانی“ نہیں؟
کیا یہ ”ہم“ نہیں؟
کیا ہم ”مسلمان“ نہیں؟
ہم شائد یہ بھول گئے ہیں کہ ”سیاست“ سے پہلے ہم ایک ”مسلمان“ ہیں اور کسی صورت ایک مسلمان کا پیشہ یہ نہیں کہ وہ دوسروں پر گند اچھالے
دوسروں پر تہمتیں لگائے ۔

آپکو نہیں لگتا اس وقت ملک جس نازک حالات سے گزر رہا ہے بجائے اس کے کہ ہم سب مل کر” ایک “ ہو جاتے ہم نے نفرتوں کے جھنڈے اٹھا لیے اور ایک دوسرے پر ”بدکردار“ کے الزامات لگانا شروع کر دئیے۔
اور جو جس سیاسی پارٹی سے ہے اپنی مخالف پارٹی کی تہمت کرنا وہ اپنا فرضِ اول سمجھتا ہے اس میں چاہے کسی کی کردار کشی ہو یا جھوٹ پر مبنی کوئی حلف بھی لینا پڑے تو وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہم نے اپنے دین اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو واقعی چھوڑ دیا ہے ؟
کیونکہ ہم دم تو ”مسلمان“ ہونے کا بھرتے ہیں اور ”عملاً “ ہمارے پاس رعب دکھانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں
کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟
کیا یہ واقعی اسلامی جھموریہ پاکستان ہے؟
1973 کے آئین کے مطابق تو اب تک یہ اسلامی ریاست تھی جسکی کامیابی کا خواب قائدِاعظم نے دیکھا تھا لیکن ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے ہم سب ”نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کیونکہ مسلمان تو ”عمل“اور”اخلاق“کا ہوتا ہے اور آج ہمارے پاس دونوں ہی نہیں۔
ہمارے پاس اگر اب کچھ رہ گیا ہے تو وہ ”لالچ، مقابلہ بازی ، اقتدار کی جنگ اور حسد“ ہے ۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم جو پڑھے لکھے ہونے کا دعوٰہ کرتے ہیں کس قدر انپڑھ اور جاہل ہیں ۔ کسقدر تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ؟ یہ جو ”روشن پاکستان “ کا خواب ہے یہ بجلی کی فراہمی سے نہیں آ سکتا کیونکہ یہ وہ روشنی نہیں ہے میرے خیال میں اگر ایسی کو ئی روشنی ہے تو وہ بجلی نہیں بلکہ ”شعور“ ہے ”روشن پاکستان“ تو تب ہو گا جب ”شعور،آگاہی میرے عوام میں آئے گی مگر دکھ بھرا یہ دل کہتا ہے کہ میرے عوام بیچارے سوائے لڑائے جھگڑے کے اور کچھ نہیں کر سکتی اس کا ثبوت تو ہم خود دیتے ہیں جب کسی قریبی کے قتل ہو جانے پر اور انصاف کے نہ ملنے پر میت رول کر احتجاج کرتے ہیں ملک کی اشیاء کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں
بجلی بند ہو تو ملک کا ضیاء احتجاج اور توڑ پھوڑ
گیس کی عدم فراہمی نتیجہ کیا؟ احتجاج اور توڑ پھوڑ
یہاں تک کہ دو گروہوں میں ہنگامہ آرائی نظر آئے اس میں بھی ملک کا ضیاء احتجاج اور توڑ پھوڑ
مخالف سیاسی پارٹیوں کے کارکن آمنے سامنے ہوں تو احتجاج ، نعرہ بازی، گالم گلوچ اور نتیجہ کیا؟
ملک کا نقصان توڑ پھوڑ۔
سوال یہ ہے جہاں کے ڈاکٹر موت بانٹیں
جہاں طاقت کا راج ہو
عدلیہ کا مزاق ہو
قانون کی پاسداری نہ ہو
وہاں حکمران کیسے درست ہو سکتے ہیں ؟
وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا یے؟

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث آپ کی نظر کرتی چلوں جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ”جیسی عوام ویسے حکمران“
تو پھر سارا الزام تو حکمرانوں پر ڈالنا درست نہیں جب اوپر سے لے کر نیچے تک ہر بندہ اپنے ذاتی مفاد کی لالچ میں ڈوبا ہو تو پھر ایک مفاد پرست حکمران نہ آئے تو کیا ہو ؟
ہر ناجائز کام میں ”ہم“ ملوث ہیں اور مزے کی بات حکمران چننے والے بھی ہم خود ہی ہیں پھر قصور کس کا ہے؟
او خدا کے بندوں!
سوال تو یہ ہے کہ داغدار اگر سیاست ہے تو آپ جسکا دور دور تک سیاست سے تعلق نہیں جو بس اپنے لیڈر پر جان نثار کرتے ہیں آپکی نازیبہ گفتگو سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے وہ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟
کیا لیڈر سے محبت کا تقاضہ مخالف پارٹی کے چاہنے والوں کو دو چار گالیاں نکالنا ہے؟
اگر یہی محبت کا تقاضہ سمجھا جائے تو پھر ”پڑھا لکھا پاکستان“ ایک خواب بن کر رہ جائے گا
بڑی بڑی ڈگریاں لے کر
بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا
یہ پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔
جناب !
ہم اب ”ہم“ نہیں رہے
اب ہم ”بٹ“چکے ہیں
ان سیاسی پارٹیوں کے پیچھے جس میں کسی کا قصور نہیں ہمارا ”اپنا قصور“ ہے کیونکہ معزرت کے ساتھ ہماری عقل کو ”زنگ“ لگ چکا ہے
ہمیں وہی دیکھنا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں وہ چاہے حرام ہی کیوں نہ ہو .

رب اسے کبھی نہیں بدلتا جو خود نہ بدلے اور ہم اپنی حالت تو کیا اپنے سوچ تک نہیں بدل سکتے اور امید کرتے ہیں ملک کو بدلنے کی ۔

میرے بھائیوں میری بہنوں!
”محبت“۔۔۔۔۔۔!
ہمیں ہے ضرور لیکن وطن سے نہیں اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں اور لیڑرز سے وطن سے ہوتی تو کامیابی ہمارے قدم چومتی ۔
یہ ریاست سکون کا گہوارہ ہوتی لیکن افسوس کے ساتھ آج جو ملک کے حالات ہیں اس کو مزید بگاڑنے میں ہم”عوام“ کا ہی ہاتھ ہے کیونکہ ہم خود ٹھیک نہیں اور جب ہم ہی ٹھیک نہیں تو حکمران کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا ضرور پڑتا ہے اور ہماری حالت ایسی ہے کہ ”حاصل“بھی سب کچھ ہو اور ہم ”کھوئیں“ بھی کچھ نہ تو ایسا تو ممکن نہیں ۔ ایک ریاست کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب وہ یکجڈ ہوں قدم سے قدم ملا کر چلیں ایک ملک اسی صورت نکھر سکتا ہے جب ”ہم“ میں اور آپ منفی رویہ چھوڑ کر مثبت رویہ اپنائیں اور جس ملک کے عوام کی جگہ جگہ ڈیڈھ انچ کی مسجدیں ہر شہر ہر صوبہ میں ہوں وہ بس بٹوارہ کرنا جانتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔

میری تمام تر عوام سے اس تحریر کے ذریعے ایک درخواست ہے کہ اگر آپ آنے والے کل میں اچھا حکمران ڈھونڈنے چلیں ہیں اور پاکستان کا بھلا چاہتے ہیں تو پہلے خود کو درست کریں
پہلے دین کی آگاہی رکھیں
دین میں بہت بڑا باب ایک سیاست کا بھی ہے جسے حضرت عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی صورت ہم فراموش نہیں کر سکتے اسی کو مدِ نظر رکھ کر قائدِاعظم اور اقبال جیسے عظیم راہنماؤں نے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی ۔
اپنے سیاسی لیڈر سے محبت کریں دل کھول کر کریں اس میں گناہ نہیں لیکن اخلاقیات کا دامن تو نہ چھوڑیں ۔
یہ گالم گلوچ، طعنہ زنی، مار کٹائی یہ کس سے ہے؟
یہ کون لڑ رہا ہے؟
میں حیران ہوں کہ یہ لڑائی کس کی کس سے ہے؟
یہ لڑائی کسی غیر سے ہو تو بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے یہ فساد یہ جنگ کسی غیر سے نہیں بلکہ ”ایک عوم،ایک ریاست،ایک امتی کے لوگوں کی آپس میں ہی ہے ۔
افسوس صد افسوس!
کسی کی نہیں تو اس رب کی ہی حیاء کر لیں جس نے آپ کو پیدا کیا اس ماں کی جس نے آپکی پرورش کی ہے انسان اپنی تربیت اپنے رہن سہن سے ہی پہچانا جاتا ہے آپ چلے ہیں وطن بدلنے وطن ایسے نہیں بدلا کرتے اور پھر اللہ کہتا ہے کہ ”میری رسی کو مضبوطی سے تھام لو“ اس سے مراد یہی ہے کہ وہ کامیاب ہوا جسنے اللہ کی رسی کو تھام لیا ۔
آپ سوچیں کیا ہم نے اللہ کی رسی کو واقعی تھاما ہوا ہے ؟
کیا ہم کامیاب ہیں؟
بلکل نہیں!
ہم کامیاب تو کیا کامیابی کے قریب بھی نہیں ہیں اور خدا نہ کرے اگر ہمارا حال یہی رہا تو ہم بہت جلد بدحالی کا شکار ہو جائیں گے ۔
کوشش کریں کہ اپنے اندر اخلاقیات کا باب زندہ رکھیں جب کسی قوم سے اخلاقیات مٹ جاتی ہے اتفاق ختم ہو جاتا ہے پھوٹ پڑ جاتی ہے تو اسے ایٹم بم اور گولیوں سے مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ اپنی بدحالی کو اپنے ہاتھوں سے خود دعوت دیتے ہیں ۔
کوشش کریں کہ دلوں میں محبت قائم رہے ، یکجہتی کو زندہ کریں ۔
ہمارا دین ہمیں مساوات بھائی چارہ سکھاتا ہے مگر ہمارے حالات یہ ہیں کہ اگر ہمیں پتہ چل جائے فلاں شخص فلاں لیڈر سے محبت رکھتا ہے ہم اس سے سلام لینا تک پسند نہیں کرتے کیا ایسے ترقی ہمارےقدم چوم سکتی ہے؟
آپ اور مجھ جیسے بہت آئیں گے اور بہت جائیں گے مگر یہ دنیا قیامت سے پہلے ختم ہونے والی نہیں یہ سیاست یہ جنگ یونہی برقرار رہے گی اس کاحصہ بن کر اپنی آخرت تباہ نہ کریں ۔
تعلیم حاصل کی ہے تو ثبوت بھی دیں یہ قوم سو چکی ہے مردہ ہو چکی ہے اس کو زندہ کرنا ہمارا ہی تو فرض ہے۔
ملک سے محبت کریں ۔ ایک دوسرے سے پیار کریں
ہر چیز کی آگاہی رکھیں ۔
اپنی قوم کا خیال کریں
اپنے ضمیر کو جگائیں اسکی تسکین سیاسی حریفوں کو گالی نکالنا نہ بنائیں ۔
ابھی کچھ دن بعد 14اگست ہے آزادی ایک دن کی تو ہمیں بڑی اچھی لگتی ہے باقی سال کے 364 دن کیوں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں ؟ ملک کی خبر کیوں نہیں رکھتے؟
کیوں کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح رہتے ہیں ؟ جب جس نے جس کے پیچھےگا لیا ہم لگ گئے۔
ہم کب تک ایسے رہیں گے؟
کب تک ہر سال ایک دن جشن منائیں گے اور باقی دن ملک کا اتہ پتہ نہ ہو گا ۔
پاکستان کو کچھ اور نہ صحیح تو وہ نوجوان ہی دے دیں جسکا خواب قائدِاعظم نے دیکھا تھا ۔
آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ تبدیلی سوچ کے بدلنے سے آتی ہے
اپنی سوچ بدلیں آنکھیں کھلی رکھیں اور پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیں
پڑھی لکھی عوام
پڑھا لکھا پاکستان !

Amna yousaf
About the Author: Amna yousaf Read More Articles by Amna yousaf: 16 Articles with 16796 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.