میرے خانۂ دل میں بھی ایک شورسابرپاہے۔کتنی ہی دیواریں
ہیں کہ ایک ایک کرکے گررہی ہیں۔ ہزارکوتاہیوں اورکمزوریوں کے باوجود مجھے
اس بات کاکامل یقین ہے کہ پاکستان ایک معجزاتی ریاست ہے جس کومیرے رب نے
ایک عظیم مقصد کیلئے تخلیق کیاہے۔قارئین کی ایک بڑی تعدادابھی تک کالم ''دعا
اک جرم''اور''قرض یافرض''پراپنی قیمتی آراءارسال کررہے ہیں لیکن ایک
تحریرایسی بھی موصول ہوئی جس نے میرے جسم و روح تک کوجھنجھوڑکررکھ
دیااورمیں کافی دیرتک گم سم اپنی گم گشتہ یادوں کوجمع کرتارہا،یقیناًتخلیقِ
پاکستان کے کئی شہدا آنکھوں کے سامنے اپنے لہولہان لوتھڑوں کے ساتھ
حاضرہوکرفریادکناں ہوں گے کہ جس عظیم مقصدکے لئے پاکستان جیساانمول تحفہ
عطاکیاگیا،ہم۷۰سال گزرنے کے باوجودایفائے عہدکیوں نہ کرسکے اورہمارے اس جرم
عظیم کی روگردانی پرمواخذہ کاعذاب کب ختم ہوگا؟
"میں پچھلے کئی برسوں سے آپ کے کالم پڑھ رہی ہوں لیکن آپ کے اس کالم کو پڑھ
کردل کے کئی پھپھولے پھوٹ گئے جومیں نے پچھلے سات دہائیوں سے اپنے دل کے
نہاں خانے میں سب سے چھپاکررکھے ہوئے تھے۔تخلیقِ پاکستان کے وقت میری
عمربارہ برس تھی اورمیراساراخاندان صدیوں سے مشرقی پنجاب کے ایک
مشہورشہربٹالہ میں مقیم تھا۔والد محترم اپنے علاقے کے ایک مشہور بڑے
زمیندار تھے اوراپنے فلاحی کاموں کے سلسلے میں پٹھانکوٹ اورامرتسر میں بھی
کافی مشہورتھے۔زمینوں کے حساب کتاب کیلئے لالہ شرماجی بطورمنیم پشت درپشت
ہمارے ساتھ ہی مقیم تھے اوران کی بیٹی پشپااورمیں ا کٹھے پلے بڑے تھے۔کبھی
یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اس طرح الگ ہوں گے کہ زندگی میں کبھی ایک دوسرے
کی شکل تک نہ دیکھ سکیں گے۔
میرے والدگھرسے کئی کئی دن جب دورہوتے توپتہ چلتاکہ ملک کابٹوارہ ہونے جا
رہاہے اورمسلم لیگ کی تحریک زورپکڑرہی ہے اوروالد محترم مسلم لیگ کی حمائت
میں گاؤں گاؤں قریہ قریہ نئے ملک کی افادیت کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے
ہیں۔انہی دنوں ملک کی تقسیم کی افواہوں نے جب زورپکڑا توہمارے گھر کے
بیرونی دالان میں گاؤں کے افراد جمع ہوئے،سب اس بات پرخوش تھے کہ
ہماراعلاقہ پاکستان میں شامل ہوجائے گااورہم ایک آزاد مسلمان مملکت کے شہری
قرار دیئے جائیں گے جہاں اللہ اوراس کے نبیۖ کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت
خلافتِ راشدہ جیسی حکومت ہوگی۔گویاسارے گاؤں میں ایک ایسی عید کا
انتظارہونے لگاجوصدیوں کے بعدنصیب ہونے والی تھی۔
آدھی رات کواپناچہرہ چھپائے میری سہیلی ''پشپا''نجانے کس طرح دیوارپھاند کر
گھرمیں داخل ہوئی،میرے کمرے سے وہ خوب واقف تھی،میرے ساتھ اس نے زندگی کے
کئی شب روزگزارے تھے ۔اس کاساراجسم کانپ رہاتھا،اس نے رونا شروع کردیا۔کچھ
سمجھ نہیں آرہا تھاکہ میں نے بغلی کمرے میں اپنی ماں کوفوراً اٹھایا۔پشپا
نے بتایاکہ تم جس طرح ہوسکے اپنی حفاظت کابندوبست کرلوکہ گاؤں پرحملہ ہونے
والاہے اورمیراباپ اس سازش میں شریک ہے۔میری ماں نے مجھے یہ پیغام
دیکربھیجاہے کہ آپ کومطلع کردوں،اب مجھے جانے دیجئے وگرنہ وہ میرے ٹکڑے
کردیں گے۔
ابھی اس خبرسے گھروالے سنبھل نہ پائے تھے کہ حویلی کے پچھواڑے سے بلوائیوں
کاایک ریلاداخل ہوا،ہاتھوں میں تلواریں،بھالے اورکرپانیں لہراتے ہوئے اپنے
خوں آشام ارادوں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔میری آنکھوں کے سامنے میرے ماں
باپ،میرے پانچ بہن بھائیوں سمیت گھرکے تین ملازمین کے ٹکڑے کر دیئے گئے ۔میں
خوف کے مارے بھوسے کے اس کمرے میں چھپ گئی جس کے اندرداخل ہونے کی مجھے
ساری عمر جرأت نہیں ہوئی تھی ۔حویلی کوآگ لگادی گئی اوراس بھوسے کے کمرے
کوبھی آگ دکھادی گئی جہاں میں چھپی ہوئی تھی ۔مجھے پورایقین ہوگیاکہ کہ میں
اس آگ میں بھسم ہو جاؤں گی لیکن میں نے وہاں سے نکلنے کی اس لئے کوشش نہ کی
کہ اس طرح عزت کی موت کوگلے لگانا کہیں بہترہے،کم ازکم عزت وعصمت تومحفوظ
رہے گی۔لیکن اللہ کومجھے بچانا شائداس لئے مقصودتھاکہ میں اس شوق کے سفرکی
روداداپنی اس نسل کوسنا سکوں جوپاکستان کی قیمت سے واقف نہیں اوران افراد
کوبھی شرم دلاسکوں جو آج اس پاکستان اوراس کے بنانے والوں کے خلاف زبان
درازی کررہے ہیں۔
اس بھوسے والے کمرے میں دھوئیں کی شدت اورآگ کی حدت نے مجھے مجبور کردیاکہ
میں فوری طورپرپچھلے دروازے سے جانوروں کے باڑے کی طرف نکل جاؤں۔میں بھاگ
کراس باڑے میں داخل ہوئی تھی کہ کسی نے میرے اوپر چادرپھینک کرایک کونے کی
طرف دھکادے دیا۔پیچھے مڑکردیکھاتووہ ہمارا ملازم چچاجسونت سنگھ تھاجس نے ہم
سب بہن بھائیوں کواپنے ہاتھوں میں کھلایا تھا۔چندمنٹوں کے بعدوہ مجھے اپنے
گھرمیں لے گیا جہاں میں مکمل طورپراس کے رحم وکرم پر تھی۔پانچ دن اس کے گھر
میں اس کے خاندان نے میری حفاظت کی اوربالآخرایک دن مجھے وہ مسلمانوں کے
ایک کیمپ میں چھوڑگئے اورآج بھی جس'' کیسری رنگ کی چادر''میں مجھے وہ
چھپاکرلائے تھے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔دو دن کیمپ میں رہنے کے بعد ہمیں ٹرین
میں بٹھادیا گیا اورجب ٹرین نے اپنی منزل کی طرف رینگناشروع کیاتومیرے
گھرکے تمام شہداء خون میں لت پت میری آنکھوں کے سامنے آگئے اور مجھے نہیں
پتہ کہ وہ بوڑھی عورت کون تھی جومجھے دلاسہ دیتے وقت خودبھی اسی طرح پھوٹ
پھوٹ کررورہی تھی اورساتھ ساتھ یہ کہہ رہی تھی کہ کوئی بات نہیں اب ہم اپنے
ایسے گھر میں جا رہے ہیں جہاں ہمیں کوئی خوف ہوگااورنہ ہماری طرف کوئی میلی
آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی سکے گا۔
ٹرین پہلے ہی آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک پھرویساہی منحوس شوراٹھا
جیسا میں نے اپنی حویلی کے درودیوارمیں سنا اوردیکھاتھا۔بلوائیوں نے گاڑی
پر حملہ کردیا اورآن کی آن میں بلوائی ٹرین میں داخل ہوگئے اوراس کے
بعدکامنظر بیان کے لائق نہیں۔ہرسامنے آنے والی چیز کوکاٹ کے رکھ
دیاگیااوران لاشوں کے ڈھیرکے نیچے میں کس طرح بے سدھ گرگئی،مجھے اس کاکوئی
علم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ٹرین کس طرح اس ارضِ پاکستان پہنچی ۔ مجھے
تو اس وقت پتہ چلاکہ جب ایک خاکی وردی والازورسے چلایا کہ'' صاب! یہ لڑکی
زندہ ہے''۔مجھے خون کے اس دریاسے نکالکر فوری طورپرایک خیمے میں لایاگیا
جہاں کچھ فوجی مجھے طبی امداد دینے میں مصروف ہوگئے۔میں نے اپنے آپ کومکمل
طورپرحالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیا۔بعد میں مجھے ایک ہسپتال میں منتقل
کردیاگیاجہاں ایک رحم دل خاتون خالہ شفیقہ نے مجھے پہچان لیااورمیرے گھر کے
تمام افرادکا نام لیکر مجھ سے ان کا احوال پوچھتی رہیں۔
مجھے اپنے ساتھ گھر میں لے آئیں اورمیری دلداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
زندگی کے معاملات دوبارہ شروع ہوگئے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعدان فرشتہ سیرت
افراد نے مجھے بیٹی سے بہوبنالیا۔میں اپنے شوہرکے ساتھ امریکامنتقل ہو گئی
جہاں ان کی مددسے میں نے بھی پی ایچ ڈی کرلی۔واپس پاکستان آکرچند سال گزارے
لیکن یہ پاکستان انہی لوگوں کے ہتھے چڑھ گیااب جن کی اولادیں اس پاکستان
اور اس کے مشاہیر کے خلاف تشکیک پھیلارہے ہیں۔ہم دونوں میاں بیوی توحالات
سے مجبور ہوکرامریکا واپس آگئے اوردرس وتدریس میں مصروف ہوگئے۔ہمارے
شاگردوں میں اس وقت بھی پاکستان کے بہت سے بیورو کریٹ اوراسمبلی میں بیٹھے
ہوئے ممبران موجودہیں بلکہ چندامریکی شاگردتوامریکا کے اعلیٰ عہدوں پربھی
براجمان ہیں۔ہم دونوں میاں بیوی نے ساری عمربالخصوص پاکستانی شاگردوں کو
تعلیمی میدان میں ہرطرح سے سپورٹ کیا کہ وہ اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوکرواپس
وطن لوٹیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس''شوق کے سفر''سے بھی ضرورآگاہ
کیا کہ ان کوپاکستان کی قدرومنزلت کاپتہ چل سکے۔
ہم دونوں میاں بیوی بڑی خوشحال ریٹائرزندگی گزاررہے ہیں۔پاکستان کے حالات
کے بارے میں ہم بھی اسی طرح پریشان ہیں جس طرح میرے وطن کے دوسرے کروڑوں
بیکس اورمجبورانسان لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کاہمیشہ سے یقین رہاکہ
ایک ایسادن ضرورآئے گاکہ اسی ملک سے اقبال اور محمد علی جناح کے بیٹے اٹھیں
گے اوراس ملک کی قسمت سنواردیں گے لیکن آپ کے کالم پڑھ کراورالیکٹرانک
میڈیا کی وساطت سے پاکستان کے جو حالات دیکھ رہی ہوں دل خون کے آنسورورہاہے
اورخصوصاًان دنوں پاکستان میں ہونے والے تماشے کو دیکھ کرپاؤں تلے سے زمین
نکلنے لگی ہے۔خدارا آپ اپنے اس کالم میں ان افراد کی آراءکوضرورجگہ دیں جو
میری طرح اس شوق کے سفر کے مسافررہے ہیں ۔آپ کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
قائد اعظم اورپاکستان دونوں اقبال کی دریافت ہیں،جو ہمارے ان مشاہیر کی
تضحیک کرتے ہیں،غیرت کاتقاضہ تویہ ہے کہ وہ اس دریافت شدہ جنت سے واپس ان
بلوائیوں کی جہنم میں چلا جائے لیکن ایسے لوگ غیرت جیسی انمول نعمت سے واقف
نہیں۔اللہ میرے اس پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔
قارئین!مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں کہ اس کے بعدکچھ اورتحریرکرسکوں! |