رہبروں کا کام آئندہ نسلوں کی تربیت ہوا کرتا ہے ،اسی طرح
اساتذہ کرام ،والدین ،بزرگوں اور خاص طور سے میڈیا کی یہ اولین ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ پر دھیان دیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک کے تمام
طبقات تسلسل کے ساتھ ملک و ملت کی تباہی و بربادی کا سامان کرنے پر ادھار
کھائے بیٹھے ہیں۔تمام اخلاقی حدود وقیود سے مبرا ہمارا پرنٹ و الیکٹرانک
میڈیا جس طرح وطن عزیزکے اسلامی و ملی تشخص کا جنازہ نکالنے میں دن رات
اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے ۔وہ انتہائی قابل مذمت و باعث تشویش ہے ۔
قومی سیاست میں پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد
’’نادیدہ قوتوں‘‘ نے انہی سیاسی شعبدہ بازوں اور عوام و خواص کو عائشہ
گلالئی کی شکل میں ایک نیاایشو دے دیا ہے ۔ گذشتہ چند دنوں سے میڈیا تسلسل
کے ساتھ عمران خان کی طرف سے عائشہ گلالئی کوبھیجے جانے والے پیغامات کو
’’فٹ بال‘‘ کی طرح اچھا ل رہا ہے ۔ عمران خان کے میسج کیسے تھے ۔؟ اس بارے
کوئی چیز واضح نہیں ہے ۔مگر ایک بات جس کا عائشہ گلالئی اور میڈیا باربار
تکرار کر رہا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’گندے گندے میسج‘‘۔۔میڈیا پر اس کا
تواتر سے تذکرہ ایک سرطان کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ ایشو بنانے والوں نے
قوم کی تما م تر توجہ ’’صادق نہ آمین وزیر اعظم نواز شریف ‘‘سے ہٹا کر
’’گندے گندے میسج‘‘ کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث کی طرف موڑ دی ۔ ان
پیغامات کے گندے ہونے کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا فضول ہے کیونکہ موجودہ
دور میں کوئی بڑے سے بڑالیڈر ہو یا کوئی جاہل و گوار عام شہری ۔۔۔کم از کم
موبائل پر کوئی بیہودہ پیغام ارسال کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا ۔البتہ ملنے
والے پیغام کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں ۔ اس بات کا انحصار انسان کی
ذاتی سوچ و فکر پر ہے کہ وہ کسی پیغام کا مطلب کیا لیتا ہے ۔شادی کا پیغام
موبائل پر دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی انسان کسی لڑکی کو
ٹریپ کرنے کے لیے ’’شادی ‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ واقعی جرم ہے ۔ایسے
ٹھرکی لوگوں کی شادی بھی محض اپنے وقتی جنسی غبار کی تسکین تک ہوتی ہے ایسے
بدقماش لوگ شادی کا بندھن زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ پاتے ۔ مشاہدے میں
آیا ہے کہ اگر کوئی لڑکی کسی بدقماش شخص سے اپنی عزت کو بچانے کی کوشش کرتی
ہے تو وہ شخص اس لڑکی کو پھانسنے کے لیے ’’شادی‘‘ کا جال بچھاتا ہے ۔اور یہ
تعلق بھی اس لڑکی کی رسوائی کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ ایسا انسان من کا
کھوٹا اور بے ایمان ہوتا ہے ۔معاشرے میں کتنی ہی معصوم اور شریف لڑکیاں اس
قماش کے درندوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنا آپ برباد کر لیتی ہیں ۔ مگر دنیا میں
کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں ہوا کہ جو یہ بتا سکے کہ انسان کے من میں کتنا
کھوٹ بھرا ہے ۔ایسی بچیوں کو طلاق کا داغ بھی سہنا پڑتا ہے لیکن ان تمام تر
مظالم کو مردوں کے اس معاشرے میں روکنا ممکن نہیں ہے ۔عائشہ گلالئی کی طرف
سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لئے قومی اسمبلی میں ایک کمیٹی بھی بنا
دی گئی ۔دیکھیں وہ کمیٹی اس معاملے پر کیا کہتی ہے ۔ قبائلی لیڈروں نے
عائشہ گلالئی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دینا شروع کر دی ہیں ۔جس
کوبنیاد بنا کر ممکن ہے کہ وہ کسی بڑے ملک میں سیاسی پناہ ہی لے لیں ۔ادھر
یہ خدشہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ کہیں عائشہ گلالئی کا انجام بھی قندیل بلوچ
کی طرح کا نہ ہو ،کیونکہ میڈیا کا اس معاملے میں کردار کچھ زیادہ حوصلہ
افزا ء نظر نہیں آ رہا۔
عائشہ گلالئی کے عمران خان پر ’’گندے گندے میسج‘‘ بھیجنے کے الزام کو
مصالحے لگالگا میڈیا پر اچھالنے میں تقریباً سارے چینل ہی پیش پیش ہیں ۔
مگر چند ایک چینل تو اس ایشو پر اس قدر زیادہ بول رہے ہیں کہ اﷲ کی پناہ
۔۔۔ عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک ’گندے گندے میسج‘‘ والی
بات کی اس قدر تکرار کی جا نے لگی ہے کہ ہمارے معصوم بچے اور بچیاں اپنے
والدین ، اساتذہ کرام اور بڑوں سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ عمران
خان کیسے’’ گندے گندے میسج ‘‘کرتا تھا ۔۔ذرا ہمیں بھی تو پڑھائیں اور
دکھائیں ۔ اور اس خواہش کا اظہار بڑے بھی برملا کر رہے ہیں ۔ جدید دور میں
ہمارے بچے گو کہ سمجھ بوجھ میں بہت آگے جا چکے ہیں ۔اُن کے لیے یہ باتیں
کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔۔مگر کیا عائشہ گلا لئی سمیت میڈیا پرسنز اس بات کا
جواب دینے کی زحمت گوارا کریں گے کہ یہ ’گندے گندے میسج‘‘ ۔۔گندے گندے میسج‘‘
۔۔کی گردان کرکے ہم اپنے نونہالوں کو کیا سکھا رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے ہم نے عمران خان کے 2013ء میں عائشہ گلالئی کو کئے گئے میسجز کو اب4سال
میڈیا پر لانے کی ضرورت کیوں محسوس کی ۔۔؟عائشہ گلالئی کو ایک لمحہ اپنے
گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے کہ اس گیم میں وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
اگر 4سال پہلے عمران خان نے اسے بغیر کسی نقصان مخصوص نشستوں پر ممبر
اسمبلی بنوایا تھا تو اب کیوں عمران خان پر الزامات لگانا ضروری سمجھا گیا
۔ بقول فیض احمد فیض ؔ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گذری ہے
عورت کے پاس سب سے قیمتی چیز ’’عزت‘‘ہی ہوتی ہے ۔جب یہی سربازار نیلام ہو
جائے تو اُس کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا ۔ ایک بار جو داغ عورت پر لگ جاتا
ہے وہ کبھی اترتا نہیں ۔میڈیا پر’’ عزت ‘‘کے نام پر حق و انصاف کی دہائی
دینے والوں کو کبھی کچھ نہیں ملا ۔عائشہ گلا لئی کو ایک بات ذہن نشین کر
لینا چاہئے تھا کہ عورت کا لہراتادوپٹہ ہی میڈیا کے کاروبار کو وسعت دینے
کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔چاہئے اس تشہیر سے عورت کی زندگی جہنم بن جائے اس سے
انہیں کوئی سرکار نہیں ہوتی ۔کسی پر الزام لگانے سے پہلے اُس کے مابعد
اثرات کا ادراک کرنا چاہئے ۔رسوائی جلد باز انسان کا مقدر ہوا کرتی ہے ۔ہم
سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے عائشہ گلالئی کو جیسے بھی میسج کئے اُن سے
انہیں کوئی زِک نہیں پہنچی ہو گی ۔ ممکن ہے ان سے انہیں ذہنی کوفت کا سامنا
رہا ہو ، مگر سرعام میڈیا پر اس بات کو اچھالنا ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ
ثابت ہو رہا ہوگا ۔ایک لمحے کو وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ اس گیم میں
انہیں کیا ملا ۔عمران خان تو مرد ہے مردوں کے اس معاشرے میں مرد کو کوئی
نقصان نہیں ہوتا مگر عزت دار عورت کو ہمارا معاشرہ اور میڈیا رسوا کرکے رکھ
دیتا ہے ۔ بیشک ! عائشہ گلالئی کو آج اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ وہ کس
سمت جا رہی ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ آنے والے وقت میں انہیں اس بات کا ضرور
احساس ہوگا کہ اُن کا یہ اقدام غلط تھا ۔اور چند مفاد پرست میڈیا گروپس یا
میڈیا پرسنز نے انہیں محض تشو پیپر کی طرح استعمال کرکے اپنی دکانداری
چمکائی تھی اور اسی بہانے مال کمایا تھا ۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ!
عائشہ گلالئی کو ہدایت دے اور وہ اپنی بقیہ زندگی عزت و وقار کے ساتھ
گزاریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |