لیبیا ایک ہنستا مسکراتاخوشحال ملک تھا، ہر طرف امن وامان
اور فراوانی تھی، تعلیم، اقتصاد اورآئین کی بالادستی میں اپنی مثال آپ تھا،
چوری، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ، جھوٹ اور فراڈ کافور دور تک نام ونشان نہیں تھا،
لیکن جب استعماری طاقتوں کی خونخوار نظروں میں کھٹکنے لگا، تو وہاں کے
حکمران طبقے اور عوام میں اپنے طاقتور میڈیا اور انٹیلیجنس اداروں کے ذریعے
ایسی بد اعتمادی اور بد ظنی کا بیج بودیا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ ایک دوسرے
پر کیچڑ اچھالنے لگے، بیان بازیوں سے بات دشمنی پر آئی، جانوں کے در پے
ہوگئے، کرنل قذافی کا چالیس سالہ اقتدار اس طرح المناک انداز میں اختتام
پذیر ہوا کہ اُس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ، ملک خانہ جنگی کی خطرناک
آگ میں چلا گیا ، ادارے تباہ ہوئے، اقتصاد برباد ہوگیا، تجارت لوٹ کھسوٹ
میں بدل گئی، ہر طرف موت کا رقص آج تک دن رات چل رہاہے، چارسو تباہی و
بربادی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اب وہاں کے سیاستدانوں کو نجات کی راہ نظر
آرہی ہے نہ اڑوس پڑوس کے چاہنے والوں کو، عرب ممالک ہوں یا اسلامی دنیا سب
اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہیں، پھر بھی جو کوششیں وہ کررہے ہیں بے سود
جارہی ہیں۔ تیونس میں بھی انقلاب کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے، ایک حد تک
انقلاب برپا بھی ہوا، مگر ملک ابھی تک سنبھل نہیں سکا۔ مصر میں ایک منتخب
صدر پر سنگین الزامات لگائے گئے، چنانچہ وہ اندر جیلوں میں اور اس کے حامی
باہر آتش بداماں ہیں، آئے روز وہاں قتل وغارتگری کا بازار سجا رہتاہے، عوام
اس کی صدارت بچانے میں کامیاب ہوئے نہ حکمران اپنی حکمرانی میں۔سوڈان دو
ٹکڑوں (شمالی اور جنوبی ) ہم سب کے سامنے بٹ چکاہے، دونوں میں بے چینی ہے،
وہاں کا دار فور صوبہ بھی آگ کا ایک بگولا بناہواہے، صدر کے خلاف بین
الاقوامی عدالت نے سمن جاری کیاہواہے، اس تمام تر صورتِ احوال میں سوڈان
اور سوڈانی کن مشکلات کے شکار ہوں گے، یہ ہر عام وخاص سمجھنا چاہے تو بڑی
آسانی سے سمجھ سکتاہے۔ صومالیہ، تنزانیہ ، مالی اور اریٹیریا میں بھی
تقریباً یہی سیناریو ہے، فلسطین اور فلسطینیوں کی حالتِ زار کسی سے پوشیدہ
نہیں، "جائے ماندن نہ پائے رفتن" والا معاملہ ہے۔ایران کی ایٹمی صلاحیت کو
موضوع بناکر جو اس کی درگت بنائی گئی وہ کس سے مخفی ہے، عالمی پابندیاں ہیں
اور ایران ہے، ترکی میں عسکری خود ساختہ انقلاب لانے کی ناکام کوششیں اور
ملک میں خانہ جنگی سی صورت پیدا کی گئی، ملک کی ترقی کو روکنا مقصود تھا،
اوپر سےآزاد کردستان کی تحریکیں ترکی کے لئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔
افغانستان، عراق اور شام کی تباہیوں اور بربادیوں کی داستانوں کے لئے تو
کالم کیا بہت بڑی بڑی کتابیں بھی ناکافی ہوجائیں گی، طبقات ، اداروں اور
عوام وخواص میں وہاں جو عداوتیں اور دشمنیاں کرائی گئیں صدیوں تک اُن کا
خاتمہ مشکل نظر آتاہے، ہر گھر پر بمباری ہوئی اور ہر خاندان سے لاشیں
اٹھائی گئیں، کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اب وہاں کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ظاہر
شاہ ، صدام اور بشار ہی موجودہ خلفشار سے بہتر تھے۔ خلیجی ممالک جہاں کےامن
وامان کی مثالیں دی جاتی تھیں، میں اب یمن کے جھگڑے نے طول پکڑلیاہے، پہلے
سے غربت کا شکاریمن تو انقلابیوں کی وجہ سے برباد ہی ہوچکا تھا مگر اُس نے
اپنی جنگ کی آگ میں بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بالعموم پورے
خلیج کو پھنسالیاہے، کوئی معقول حل سوائے جنگ وجدل کے یہاں بظاہر ناپید ہے۔
قطر کی کچھ حرکتوں پر پڑوسی عرب ممالک کو اعتراضات تھے، بائیکاٹ کی صورت
میں وہ اسے راہِ راست پر لانا چاہتے تھے، پر حالات مزید بگڑ گئے، سب کو
نقصان ہورہاہے، اسٹاک مارکیٹیں بری طرح متأثر ہیں، لیکن میز پر آنے کے لئے
کوئی تیار نہیں ہے، مندرجہ بالا دگرگوں حالات میں خسارہ عام آدمی کو سب سے
زیادہ ہواہے اور ہورہاہے، وہ عام آدمی جو سیاستدانوں کی سیاست کا محور ہے،
ملکوں میں تباہی ہوئی ہے، وہ ممالک جن میں لیڈرز سیاسی بساط پے کھیلتے ہیں،
عقلمندی کا تقاضا یہ تھا کہ قیادت وسیادت پر برجمان لوگ اِ ن ملکوں اور اٰن
عوام کو نقصان پہنچنے سے بچاتے، تب اُن کا کھیل جاری رہتا، مگر جنہوں نے یہ
پیش بندی نہیں کی اُن کا انجام بہت برا ہوا، اپنا بھی بیڑا غرق کردیا اور
ملک وملت کو بھی تباہی سے نہ بچا پائے ۔ خود بھی نشانِ عبرت بن گئے اور
اپنے ملکوں اور عامةً الناس کو بھی لے ڈوبے۔ پاکستان کن قربانیوں کے بعد
معرضٰ وجود میں آیا، ہزاروں رونگٹے کھڑے کرنے والے واقعات میں سے چند
ملاحظہ ہوں: ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی ۔ چوک سراجاں پر حملے کی
دوسری رات۔۔۔حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہاتھا۔ پہلے روز پچاس نوجوان
شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ، شام ہونے سے پہلے دوچار ایسے دلدوز واقعات ہوئے
کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی
میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ ایک مسلمان
نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدا ن
کے بالکل سامنے تھا۔ گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ خواتین کو
ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوں اور سکھوں کی
طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلا چلا کر اعلان کیا، دیکھو ہم آج
مسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے
پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا۔
بچے کی چیخ اس قدر دلدوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا۔ ا س نے تڑپ تڑپ کر وہیں
جان دے دی۔ ایک کانوائے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک نوجوان نے
دورانِ راہ جوکچھ دیکھا وہ اس طرح بیان کرتاہے : راستے میں اِکا دکا مسلمان
عورتیں ملتی گئیں ،انہیں بھی ساتھ لیتے آئے۔ سکھوں اور ہندوں نے اپنی
درندگی کا جی بھر کر مظاہرہ کیا تھا۔ ہوشیارپور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی
حالت میں پڑی ملی۔ والد صاحب نے اٹھا یا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے
تھے۔ ایک مشہور خاندان کی نوجوان خاتون تھی ۔ ابا جی کو معلوم ہواتو ضبط نہ
کرسکے ۔ اس خاتون نے صرف اتنا کہا آپ جائیے چاچا جی ،غم نہ کریں !۔اتنا سب
کچھ ہوجانے پر پاکستان تو بن گیا۔ مجھے خوشی ہے میں امت کے کسی کام تو آئی۔۔۔۔نہر
عبور کرکے ہم سب شدت تاثر سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز
آئی۔ ایک بزرگ ڈاکٹر نصیرالدین آگے بڑھے ۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ نسوانی
آواز آئی۔ وہ فورا لپکے ۔ ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی۔ پانی پلاکر
مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ اس خاتون نے مرتے وقت صرف
اتنا کہا شام چوراسی کی جنگ میں میرے والد اور سات بھائی ، چچا اور ان کے
چار لڑکے شہید ہوگئے۔ تین بہنیں لڑتے لڑتے اور اپنی عزت بچاتے ہوئے نہر میں
ڈوب گئیں ۔ والدہ کو انہوں نے قتل کردیا ۔ میں چھپ گئی ، انہوں نے مجھے
ڈھونڈ نکا لا جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کردیا ۔
انہوں نے جھلا کر میرا یہ حشر کیا ہے ۔آخری سانس لینے سے پہلے اِس مظلوم
خاتون نے کہا پاکستان کو میرا سلام پہنچا دیجئے ۔ ۔۔۔جالندھر کے مسلمانوں
نے جس بے جگر ی، دردمندی اور زبردست قربانی سے تحریک پاکستان کے لئے کام
کیا وہ تاریخ پاکستان کا روشن باب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو
برقرار رکھنے کیلئے تحریک پاکستان کو تاریخی قربانیوں سے ہمکنار کیا ۔
جالندھر کیمپ کے واقعات بڑے دلدوز تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک خاتون آخری دموں
پر تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم لوگ کانوائے پر پاکستان جا رہے ہیں تو اس
نے بابا جی کو بلا کر کہا ، یہ میرے زیورات ہیں ۔خاندان کے سارے مرد شہید
ہوچکے ہیں۔ ان زیورات کو قائد اعظم تک پہنچا دیں ۔ شاید پاکستان کے کام
آجائیں۔(بحوالہ:اردو ڈائجسٹ اگست 2016)۔ پاکستان قدرت کا ایک عطیہ ہے، بڑی
دردناک قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، ہماری نا لائقیوں سے دو لخت بھی
ہوگیا، پھر بھی شرق وغرب کے شر انگیز طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہے، خدارا
اس پر رحم کیاجائے، اسے مضبوط بنایا جائے۔اگست کا مہینہ اور یومِ آزادی کے
پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، |