عشرہ ذی الحجہ کے فضائل
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”الله تعالیٰ کی عبادت کے لئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں،ان
میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت شب قدر
کی عبادت کے برابر ہے۔“
(ترمذی، ابن ماجہ)
قرآن مجید میں سورئہ ”الفجر“ میں الله تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے
اور وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔
خصوصاً نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے
گناہوں کا کفارہ ہے اور عید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہنا
بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔
تکبیر تشریق :
اَللهُ اَکْبَر اَللهُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللهُ واَللهُ اَکْبَرُ
اَللهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد با آواز بلند
ایک مرتبہ مذکورہ تکبیر کہنا واجب ہے۔ فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت اور تنہا
نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اس طرح مرد و عورت دونوں پر واجب ہے،
البتہ عورت بآواز بلند تکبیر نہ کہے، آہستہ سے کہے۔ (شامی)
عیدا لاضحی کے دن مندرجہ ذیل امور مسنون ہیں:
صبح سویرے اٹھنا، غسل و مسواک کرنا، پاک صاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں
پہننا، خوشبو لگانا، نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، عیدگاہ کو جاتے ہوئے راستہ
میں باآواز بلند تکبیر کہنا۔
نماز عید
نماز عید دو رکعت ہیں۔ نماز عید اور دیگر نمازوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس
میں ہر رکعت کے اندر تین تین تکبیریں زائد ہیں۔ پہلی تکبیر:پہلی رکعت میں
سبحانک اللہم پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد
رکوع سے پہلے، ان زائد تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے ہیں، پہلی رکعت
میں دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔
دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں، چوتھی تکبیر کے
ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔
اگر دوران نماز امام یا کوئی مقتدی عیدکی زائد تکبیریں یا ترتیب بھول جائے
توازدحام کی وجہ سے نماز درست ہوگی ،سجدہ سہو کی بھی ضرورت نہیں۔
اگر کوئی نمازمیں تاخیر سے پہنچا اور ایک رکعت نکل گئی تو فوت شدہ رکعت کو
پہلی رکعت کی ترتیب کے مطابق قضاء کرے گا یعنی ثناء (سبحانک اللھم) کے بعد
تین زائد تکبیریں کہے گااور آگے ترتیب کے مطابق رکعت پوری کریگا۔نماز عید
کے بعد خطبہ سننا مسنون ہے۔خطبہ سننے کا اہتمام کرناچاہیے، خطبہ سے پہلے
اٹھنا درست نہیں ہے۔
فضائل قربانی
قربانی کرنا واجب ہے ،رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہر سال
قربانی فرمائی ،کسی سال ترک نہیں فرمائی،جس عمل کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی
دلیل ہے ۔ علاوہ ازیں آپ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی،
حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں،مثلاً: آپ کا یہ ارشاد کہ جو قربانی
نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے
بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے، جو لوگ حدیث پاک کے مخالف ہیں اور اس کو حجت
نہیں مانتے وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں، ان سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں ،وہ
کہتے ہیں کہ پیسے دے دیئے جائیں یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے، یہ بالکل
غلط ہے۔ کیونکہ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے اورایک حقیقت ہوتی ہے۔ قربانی
کی صورت یہی ضروری ہے، اس کی بڑی مصلحتیں ہیں، اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت
قرآنی سے بھی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔قربانی کی بڑی فضیلتیں ہیں:
مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ اسے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی
سنت ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے، اون کے متعلق
فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ”قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قیامت کے
دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے
زمین پر گرنے سے پہلے الله تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس
لئے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔حضرت ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں
قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں الاّیہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔
(طبرانی)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمة الزہراء رضی
الله عنہا سے ارشاد فرمایا کہ: ”تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو،
کیونکہ خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ “
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لئے اہل اسلام سے
درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے
اور اس سلسلہ میں جن شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، انہیں اپنے
سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔
مسائل قربانی
مسئلہ نمبر ۱:…جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے ،اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
یعنی قربانی کے تین ایام (۱۰/۱۱/۱۲/ذوالحجہ )کے دوران اپنی ضرورت سے زائد
اتنا حلال مال یااشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی
کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاًرہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان
ہو ،خواہ تجارت کیلئے ہو یا نہ ہو، اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال
ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔
مسئلہ نمبر۲:…مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر۳:…قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک
ہے، بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور
دن کو ذبح کرنا افضل ہے، اگرچہ رات کو بھی ذبح کرسکتے ہیں لیکن افضل بقر
عید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ نمبر۴:…شہر اور قصبوں میں رہنے والوں کے لئے عید الاضحی کی نماز پڑھ
لینے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے، دیہات اور گاؤں والے
صبح صادق کے بعدفجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں
۔اگرشہری اپنا جانور قربانی کے لئے دیہات میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی
بھی نماز عید سے قبل درست ہے اور ذبح کرانے کے بعد اس کا گوشت منگواسکتا
ہے۔
مسئلہ نمبر۵:…اگر مسافر مالدار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے،
یا بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار
آدمی کے پاس بارہویں تاریخ کو غروب شمس سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب
نصاب ہوجائے تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
نیز اگر مسافر مالدار ہو، دوران سفر قربانی کیلئے رقم بھی ہو اور وہ پندرہ
دن سے کم عرصہ کیلئے رہائش پذیر ہو نے کے باوجود بآسانی قربانی
کرسکتاہوتوقربانی کرلینا بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر۶:…قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے، اگر
خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتداءً خودبھی چھری پر ہاتھ رکھ لیاکرتے
ہیں ،ایسے لوگوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل
طور پر تکبیرپڑھیں ،اگر دونوں میں سے ایک نے نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ
ہوگی۔ (شامی ۶/۳۳)
مسئلہ نمبر۷:… قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا ضروری نہیں،
دل میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر ۸:… قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس کو قبلہ رخ لٹائے اور اس
کے بعد یہ دعاء پڑھے:
” اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ
حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ
وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo لَاشَرِیْکَ لَہ
وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ
وَلَکَ “
اس کے بعد بِسْمِ اللهِ اَللهُ اَکْبَرُکہہ کر ذبح کرے۔ (کذافی سنن ابی
داؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھے:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ
مُحَمَّدٍ وَخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا الصَّلَوٰةُ
وَالسَّلَامُ
مسئلہ نمبر۹:… قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ اولاد کی طرف سے
نہیں۔اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ، مالدار ہو یا غیر مالدار۔
مسئلہ نمبر۱۰:… درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے: اونٹ ، اونٹنی، بکرا،
بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے ، بیل، بھینس، بھینسا۔بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبہ کے
علاوہ باقی جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں ،بشرطیکہ کسی شریک کا حصہ
ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا عقیقہ کی نیت
سے، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
گائے بھینس اور اُونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں اس
طور پر کہ مثلاً چار آدمی ہوں تو تین افراد کے دو دو حصے اور ایک کا ایک
حصہ ہوجائے نیز اگر پورے جانور کو چار حصوں میں تقسیم کرلیں یہ بھی درست ہے
۔یا یہ کہ دو آدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کئی افراد مل کر ایک حصہ ایصال ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو
یہ بھی جائز ہے ،البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکاء اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک
شریک کو ہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کردے اس طرح قربانی کا حصہ
ایک کی طرف سے ہوجائیگا اور ثواب سب کو ملے گا۔
مسئلہ نمبر ۱۱:… اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل
گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے
شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی
نیت نہ تھی ،بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا
تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر
مالدار ہے تو شریک کرسکتا ہے ،البتہ بہتر نہیں۔
ایک جانور قربانی کرنے کیلئے خریدا، اگر اسکے بدلے دوسرا حیوان دینا چاہے
تو جائز ہے، مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسراحیوان کم از کم اسی قیمت
کا ہو، اگر اس سے کم قیمت کا ہو تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں بلکہ
صدقہ کرنا ضروری ہے،ہاں اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیا ہو بلکہ یہ
ارادہ کیا ہوکہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہورہا ہو توفروخت کردیں گے ،اس
صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ نمبر۱۲:… قربانی کا جانور گم ہوا، اس کے بعد دوسرا خریدا، اگر قربانی
کرنے والا امیر ہے تو ان دونوں جانوروں میں سے جس کو چاہے ذبح کرے ،جب کہ
غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی۔
وضاحت :
اگر کسی آدمی نے قربانی کیلئے جانور خریدا اور خریدنے کے بعد وہ جانور
قربانی کرنے سے پہلے گم ہوجائے تو صاحب حیثیت آدمی پر قربانی کیلئے دوسرا
جانور خریدنا ضروری ہے، کیونکہ اس پر قربانی شرعا واجب تھی اور واجب ادا
نہیں ہوا، جب کہ فقیر آدمی پر دوسرا جانور خریدنا اور قربانی کرنا لازم
نہیں تھا، اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور بھی خرید لیا ،اب اگر مالدار
اور غریب ہر دو کا پہلا گم شدہ جانور مل جائے تو امیر پر صرف شرعی واجب
(قربانی ) کا ادا کرنا لازم ہے ۔جس جانور کو ذبح کردے، کافی ہے جب کہ غریب
پر خود سے واجب کردہ دونوں جانوروں کی قربانی کرنا لازم ہے ۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ امیر آدمی پر نصاب کی وجہ سے قربانی واجب تھی ،اس نے
وہ ادا کردی، اس کے حق میں جانور متعین نہیں ہوا تھا ،اسے اختیار ہے کہ جس
جانور کو چاہے ذبح کردے ،جب کہ غریب آدمی پر قربانی لازم نہیں تھی، غریب نے
از خود جانور خرید کر اپنے پر قربانی کو لازم کرلیا اور جو جانور اس نے
خریدا وہ بھی متعین ہوگیا ،اب پہلا جانورجو غریب کے حق میں قربانی کے نام
سے متعین ہوچکا اگر وہ گم ہوجائے تو اس کے بدلے دوسری قربانی لازم نہ تھی،
اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور خرید کر اپنے پر قربانی لازم کرلی ،اس
بناء پر فقیر آدمی پر دوسری قربانی بھی لازم ہوئی، لہذا غریب آدمی دونوں
جانوروں کی قربانی کریگا، بخلاف مالدار کے کہ اس پر صرف قربانی لازم ہے
جانور متعین نہیں ہے ۔ دونوں جانوروں میں سے کسی ایک کی قربانی کردے تو
کافی ہے ۔
مسئلہ نمبر۱۳:… قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہیں تو گوشت وزن کرکے
تقسیم کریں۔
مسئلہ نمبر۱۴:… بھیڑ بکری جب ایک سال کی ہوجائے، گائے، بھینس دوسال کی اور
اونٹ پانچ سال کا تو اس کی قربانی جائز ہے، اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔
ہاں دنبہ اور بھیڑ (نہ کہ بکرا )اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم
ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
موجودہ دور میں جانوروں کو تول کر (وزن کرکے) خریدوفروخت کرنا بھی جائز ہے،
ایسی قربانی بلاشبہ درست ہے۔
مسئلہ نمبر۱۵:… قربانی کا جانور اگر اندھا ہو، یا ایک آنکھ کی ایک تہائی یا
اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہو،یا ایک کان ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا
ہو، یا دم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی
جائز نہیں ہے۔
گائے اوربھینس کے دوتھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہوچکا ہو یا پیدائشی طور پر
نہ ہو ں تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔
مسئلہ نمبر۱۶:… اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑا ہے یعنی تین پاؤں سے
چلتا ہے چوتھے پاؤں کا سہارا نہیں لیتا تو ایسے جانور کی قربانی بھی جائز
نہیں، ہاں اگر وہ چوتھے پاؤں سے سہارا لیتا ہے لیکن لنگڑا کے چلتا ہے تو
ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ نمبر۱۷:… قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہئے، اگر جانور اس
قدر کمزور ہو کہ ہڈیو ں میں گودا بالکل نہ رہا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی
جائز نہیں ہے۔
بعض لوگ موٹا تازہ جانور محض دکھلاوے یاریاء ونمود کیلئے خرید تے ہیں ،ایسے
لوگ قربانی کے ثواب سے محروم ہوتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ موٹاتازہ جانور
تلاش کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت کریں ۔
مسئلہ نمبر۱۸:… اگر کسی جانور کے تمام دانت گرگئے ہوں تو اس کی قربانی جائز
نہیں ہے اور اگر اکثر دانت باقی ہوں ،کچھ گرگئے ہوں تو قربانی جائز ہے۔
اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اوردانت نہ نکلے ہوں تو بھی قربانی ہوسکتی
ہے، تاہم اس سلسلہ میں صرف جانوروں کے عام سوداگروں کی بات معتبر نہیں ہے
،بلکہ یقین سے معلوم ہو ناضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالاہوا جانورہو
تواس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ نمبر۱۹:… جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں
ہے۔
مسئلہ نمبر۲۰:… اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہوں اس طور پر
کہ دماغ اس سے متاثر ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور اگر
معمولی ٹوٹے ہوں یا سرے سے سینگ ہی نہ ہوں جیسے اونٹ تو بلا کراہت جائز ہے۔
اسی طر ح گائے بکری وغیرہ کے اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو اسکی قربانی بھی
جائزہے۔
مسئلہ نمبر۲۱:…خارش زدہ جانور کی قربانی جائز ہے، البتہ اگر خارش کی وجہ سے
بے حد کمزور ہوگیا ہو تو پھر جائز نہیں۔
مسئلہ نمبر۲۲:… اگر قربانی کے جانور میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوا ،جس کے
ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مالدار شخص کیلئے یہ ضروری ہے کہ دوسرا
جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے، ،غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی
کرسکتا ہے۔
اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کیلئے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے،
مثلاً:ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر
نہیں پڑے گا ،البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط کرنا چاہئے۔
مسئلہ نمبر۲۳:… قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ
اپنے لئے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کو دے، اور ایک حصہ فقراء و مساکین
کو دے، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لئے رکھے، تب بھی جائز ہے۔
مسئلہ نمبر۲۴:… قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس
کی قیمت فقراء کو دے۔ البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسہ اور جامعہ کو دے
دے تو سب سے بہتر ہے ،کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر۲۵:… قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایا جاسکتا ہے، اس
طور پر کہ اس کا عین باقی رہے ،مثلاً :مصلیٰ بنائے یا رسی یا چھلنی بنائے
تو درست ہے۔
مسئلہ نمبر۲۶:… قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام و موٴذن یا
مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی، نہ اس سے مدارس کی تعمیر
ہوسکتی ہے اور نہ شفا خانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
مسئلہ نمبر۲۷:… قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔
اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یاچھن گئی تو اسے چاہیئے کہ وہ کھال
کی رقم صدقہ کردے، اگر استطاعت نہ ہو توکوئی حرج نہیں، قربانی پر فرق نہیں
پڑے گا۔
مسئلہ نمبر۲۸:… اگر قربانی کے تین دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی تو اب ایک
بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر جانور خریدا تھا، مگر قربانی
نہیں کی، تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
مسئلہ نمبر۲۹:… ایصال ثواب کے لئے قربانی کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور
دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر۳۰:… اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو
قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم و اجازت کے بغیر
قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر حصہ
داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح
نہ ہوگی۔
مسئلہ نمبر۳۱:… قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتے ہیں، البتہ کسی کو
اجرت میں نہیں دے سکتے۔
مسئلہ نمبر۳۲:… گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے، اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو
بھی ذبح کردے۔ اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیا جائے۔
قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے، اگر کسی نے
ایساکیا تو اسے صدقہ کرے، اگر بیچ دیا تو اسکی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔
(بدائع۵/۷۸)
مسئلہ نمبر۳۳:… جو شخص قربانی کرنا چاہے اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ یکم ذی
الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ
ناخن۔ (ابوداؤد)
البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزرچکا ہو تو ان
بالوں کی صفائی کرنا بہتر ہے ۔
مسئلہ نمبر۳۴:… قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتے ہیں۔
(ابوداؤد)
مسئلہ نمبر۳۵:… جانور ذبح کرنے کیلئے چھری خوب تیز ہونی چاہئے تاکہ جانور
کو تکلیف نہ ہو۔ (ابوداؤد)
مسئلہ نمبر۳۶:… اگر کوئی شخص اپنی قربانی کا گوشت سارا کا سارا کسی اور کو
کھلادے خود کچھ بھی نہ کھائے تو ایسا کرسکتا ہے۔ (کتاب الآثار)
مسئلہ نمبر۳۷:… خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے ،کیونکہ اس میں
دوسرے کی بہ نسبت گوشت زیادہ ہوتا ہے۔
مسئلہ نمبر۳۸:… ذبح کرتے وقت تکبیر کے علاوہ کچھ اور نہیں کہنا چاہئے،
مثلاً باسم الله تقبل من فلان ۔ (کتاب الاثار)
مسئلہ نمبر۳۹:… اگر کسی نے قربانی کی نذر مانی اور وہ کام ہوجائے تو قربانی
واجب ہے، اس کے گوشت سے خود نہیں کھاسکتا ،سارا فقراء اور مساکین کو
کھلادے۔
مسئلہ نمبر۴۰:… اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو تو اس کو
اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہئے۔ اگر شریک کیا تو کسی کی قربانی
نہیں ہوگی۔
ایسا شخص جس کی ساری کمائی حرام کی ہو اس پر قربانی لازم نہیں، کیونکہ اس
کاسارا مال واجب التصدق (بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری )ہے، دوسرے یہ کہ
اللہ تعالیٰ حرام مال سے کسی کا صدقہ قبو ل نہیں فرماتے ،بلکہ وہاں صرف
پاکیزہ مال سے کیا ہوا صدقہ وخیرات قبول ہوتا ہے۔
مسئلہ نمبر۴۱:…بکری کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں تمام شرکاء اپنا اپنا حصہ
تقسیم کئے بغیر فقراء کودینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
البتہ اگر نذر کی قربانی ہو یا مرحوم کی وصیت کے تحت قربانی کررہے ہیں تو
پھر تقسیم سے پہلے کسی فقیر کو دینا درست نہیں۔
مسئلہ نمبر۴۲:… کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو
اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
الله تعالیٰ امت مسلمہ کو قربانی کی روح اور حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری یہ ظاہری قربانی حقیقی قربانی کیلئے
پیش خیمہ ہو اور ہم اس ظاہری و مادی قربانی کی طرح الله کے حکم پر اپنی جان
کی قربانی کے لئے بھی ہمیشہ تیار رہیں۔والله الموفق والمعین
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11
https://www.banuri.edu.pk/ur/node/468 |