نظریاتی باتیں ٹھوس شوہاد کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ہوا میں
تیر چلانے کے بجائے ہمیں تاریخی حقائق کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ تو سب
جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان
میں اور ہندو اکثریتی علاقوں کو ہندوستان میں شامل ہونا تھا لیکن ہم میں سے
کتنے فیصد لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ تھرڈ آپشن یعنی خود مختار کشمیر کے
آپشن نے کہاں سے اور کب جنم لیا!؟
جہاں پر خود مختار کشمیر کی بات کی جاتی ہے وہاں پر اس نظریے کی تاریخ
لوگوں سے چھپائی جاتی ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے ، جب بھی کسی قوم
کے حقوق پر ڈاکہ دالا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے اس کی تاریخ کو مخفی کیا
جاتا ہے۔
اسی طرح آپ دنیا بھر میں دیکھ لیں ، آج مسلمانوں کو دنیا بھر میں عقب
ماندہ اور پسماندہ رکھنے کے لئے مسلمانوں کے تاریخی آثار مٹائے جارہے ہیں،
مکے اور مدینے میں محلہ بنی ہاشم سے لے کر جنت البقیع کے قبرستان تک سب کچھ
مٹا دیا گیا ہے۔
اسی طرح کشمیریوں کو اُن کی نظریاتی تاریخ بتانے کے بجائے انہیں نعروں کے
پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ اگر کشمیری ان نعروں کے پیچھے چھپے ہوئے چہروں کو
پہچان لیں تو وہ اپنی قسمت کا فیصلہ بطریقِ احسن کر پائیں گے۔
اکتوبر 1932ء میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔اس موقع
پر شیخ محمد عبداللہ کو صدر اور چوہدری غلام عباس کو جنرل سیکرٹری منتخب
کیا گیا۔ ۱۹۴۷ میں دوقومی نظریے کی نیاد پر کشمیر کا فیصلہ مہاراجہ ہری
سنگھ کو کسی صورت قبول نہیں تھا، وہ کشمیر کو مستقل طور پر اپنے پاس ہی
رکھنا چاہتے تھے ، مستقل کشمیر پر مہاراجہ نے محمد شیخ عبداللہ کو قائل کیا
اور شیخ نے خود مختار کشمیر کے لئے نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ یہاں پر
یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بھارتی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس نے۲۳جون
1947ء کو کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیاتھا۔
۱۹۴۷میں کشمیر کی مسلم اکثریت کے تیور دیکھ کر مہاراجہ کو صاف معلوم ہو چکا
تھا کہ کشمیری کبھی بھی مہاراجہ کی غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں ہونگے اور
خود مختار کشمیر کی صورت میں شیخ محمد عبداللہ کا خاندان متبادل کے طور پر
سامنے آئے گا۔
چنانچہ مہاراجہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے شیخ محمد عبداللہ کے
سر سے دست شفقت اٹھا لیا اور شیخ محمد عبداللہ کو ہندوستان کے قہر وغضب کا
سامنا کرنا پڑا۔
شیخ محمد عبداللہ کا چوہدری غلام عباس سے صرف خود مختار کشمیر کے ایشو پر
اختلاف تھا، چوہدری غلام عباس تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت الحاق ِ
پاکستان کے حامی تھے جبکہ شیخ محمد عبداللہ خود مختار کشمیر کی بات کرنے
لگے تھے۔ اسی رسہ کشی میں شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کانفرنس کو چھوڑ کر
نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی لیکن کشمیر کا مہاراجہ بہت دور کی سوچ رہاتھا
، وہ کشمیر کی خود مختاری اپنے خاندان کے لئے تو چاہتا تھا لیکن وہ یہ نہیں
چاہتا تھا کہ کشمیر پر ڈوگرہ خاندان کے بجائے شیخ خاندان کی حکومت قائم ہو۔
چنانچہ مہاراجہ نے ہندوستان کو کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کی دعوت دی اور
شیخ محمد عبداللہ کو جیل ہوگئی۔
بہر حال ہم یہاں پر پہنچنے کے بعد تاریخی حقائق کی روشنی میں یہی مطالبہ
کرتے ہیں کہ یہ حق کشمیریوں کو دیا جانا چاہیے کہ وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ
وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے خواہشمند ہیں یا پھر ڈوگرہ
خاندان کے متبادل شیخ خاندان کی رعیت میں رہنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ فورتھ آپشن یہ بھی بنتا ہے کہ کشمیری مذکورہ تین آپشنز کے
علاوہ اپنی دینی روایات اور نظریات سے ہٹ کر ہندوستان یا پاکستان کے بجائے
ایک جداگانہ ریاست کا انتخاب کریں، یہ سب بھی تبھی ہو سکتا ہے کہ جب بھارت
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرے اور کشمیر سے اپنی مقبوضہ آرمی کو
نکالے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ کشمیریوں کی موجودہ تحریک آزادی کے پیچھے فقط ان کے
دینی نظریات کارفرما ہیں۔ کشمیری یہ قربانیاں اس لئے نہیں دے رہے کہ فقط
اُن کا آقا تبدیل ہو جائے اور ڈوگرہ خاندان کے بجائے کوئی اور خاندان اُن
پر حکومت کرنا شروع کر دے۔
کشمیریوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے لوگ نظریات کی خاطر قربانی دیتے چلے
آرہے ہیں لہذا یہاں پر حقِ خود ارادیت کی صورت میں غیر دینی اور سیکولر
ریاست کے خواب دیکھنے والوں کی شکست لازمی ہے۔
|