وہ اگر چہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں ، کہنے کو تو
عوامی صدر ہیں ، لیکن اپنے مزاج کے اعتبار سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک
جمہوریت دشمن شخص ہیں، انہوں نے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی زبان و
بیان میں ناقابل یقین حد تک سختی لائی ہے۔
اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کینہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے جس کی واضح
مثال ان کا ریاض کانفرنس میں خطاب ہے۔ اس خطاب میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ
پاکستان جیسے ایٹمی ملک کی دہشت گردی کے خلاف خدمات کو نظر انداز کیا بلکہ
وہاں موجود پاکستانی وزیراعظم سے بھی نظریں نہیں ملائیں۔
اس کے بعد وہ سیدھے اسرائیل چلے گئے۔ یہ مسلم دنیا کے لئے امریکہ کا واضح
پیغام تھا کہ وہ خود امریکہ کی ترجیحات کو سمجھ جائیں۔
اسرائیل خود ایک جبری اور غیر جمہوری ریاست ہے ، اسی طرح ریاض میں امریکی
صدر کا خطاب بھی غیر جمہوری ڈائیلاگز پر مشتمل تھا ، وہ جس غیر جمہوری پٹڑی
پر سفر کر رہے تھے اس کے راستے میں اب شمالی کوریا کھڑا ہو گیا ہے۔
شمالی کوریا نے دھمکی دی ہے کہ وہ بحرالکاہل میں امریکی خطے گوام کی طرف
میزائل داغے گا۔ اس خطے میں امریکی افواج کا ایک بڑا مرکز موجود ہے۔بین
الاقوامی سیاست سے دلچسبی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ دھمکی امریکہ
جیسے مغرور ملک کو لوہے کے چنے چبوانے کے مترادف ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی دھمکی میں ایک بار پھر خبردار کیاہے کہ
اگر گوام میں کچھ بھی ہو ا تو شمالی کوریا میں بہت بڑی مشکل صورتحال پیدا
ہو جائے گی۔امید ہے شمالی کوریا میرے انتباہ کو سمجھ جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ اس سے پہلے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا چکا
ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنی ایٹمی قوت سے دوسرے ممالک کو مرعوب کئے
رکھے۔ تاہم وہ زمانہ گزر گیا جب امریکہ ایٹمی طاقت کا کارڈ استعمال کر کے
اپنے مخالفین کی ہانت اور توہین کیا کرتا تھا۔
جو حال امریکہ صدر کا ہے وہی ہمارے ہاں پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کا
بھی ہے۔
پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی ناہلی کے بعد انہیں اپنے مخالفین
کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آتے ہیں، انہوں نے خود اور ان کے حاشیہ برداروں نے
وزیراعظم آزاد کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ امریکی ڈکٹیٹر شپ کے
اخلاق کا آئینہ دار تو ہو سکتا ہے لیکن پاکستانی اخلاق کے بالکل منافی ہے۔
جس طرح شمالی کوریا امریکی آمریت کے راستے میں کھڑا ہے اسی طرح کشمیری
عوام عوام بھی عمران خان کے راستے میں کھڑے ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف العوامیہ میں بھی صورتحال کشیدہ ہے اور جمہوریت کے نام لیوا ،
ایک عرب ریاست کو انسانوں کا قبرستان بنتے ہوئے دیکھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں
، ایسا ہی کچھ افغانستان میں بھی ہو رہا ہے جہاں طالبان اور داعش نے پچاس
کے قریب لوگوں کو قتل کرنے کے بعد تقریبا اتنی ہی تعداد میں خواتین کو اغوا
کر لیا ہے لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکدار اور جمہوریت کے علمبردار فارغ ہی
نہیں کہ وہ ان مسائل پر فوکس کر سکیں۔
بالکل یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کی بھی ہے ، وہاں بھی ظلم و
ستم ہو رہا ہے لیکن جمہوریت کا راگ الاپنے والے کسی بھی طور پر کشمیریوں کو
ان کا حق خود ارادیت دینے پر راضی نہیں۔
ایسی صورتحال میں پارٹیوں ، شخصیات اور ممالک سے مایوس ہوجانا ایک لازمی
بات ہے، دنیا بھر کے باشعور لوگوں کو چاہیے کہ وہ آمرانہ مزاج کی شخصیات
اور پارٹیوں کے سامنے ایک بندھ باندھیں۔ کسی بھی طور پر اور کسی بھی قالب
میں آمریت کو قبول نہ کیا جائے۔
مسلسل آگاہی، شعور ، بیداری اور انسان دوستی کے ذریعے آمریت کی دیوار میں
جمہوریت کے روشندان بنانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ورنہ ہماری یہ دنیا
ناقابلِ تلافی نقصان اٹھائے گی۔
|