آزادی اس عمل کا نام ہے، جس میں ہم بااختیار ہوتے ہے،
ہمیں کسی طاقت و جبر کا خوف نہیں ہوتا، بہ الفاظ دیگر سوچنے میں، عمل کرنے
میں، اور سب سے بڑھ کر خواب دیکھنے میں آزاد ہونے کا نام آزادی ہے۔ اب سوال
یہ ہے کہ کیا ان کے علاوہ پھر آزادی کی کو ئی اور تعارف بھی ہو سکتی ہے، جی
ہاں ہر فرد اپنی Context کے لحاظ سے آزادی کے تصور کو سمجھنے کی کوشش کرتا
ہے، اور اختیاری یا غیر اختیاری اس کا مختلیف انداز سے تجربہ بھی کرتا
ہے۔ایک فقیر کیلئے آزادی سوکھی روٹی اور دس روپے کی بھیگ ہوتی ہے، ایک موچی
کیلئے جوتوں کا کوہ انبار ، ایک چرواہا کیلئے بھیڑ، بکریوں کا ہجوم، ایک
کسان کیلئے اچھی فصل، ایک بیوہ کیلئے کوئی سہارہ، ایک بچے کیلئے ماں باپ کا
سایہ، ایک بوڑھے کیلئے بے بسی میں ساتھ دینے والا ساتھی، ایک بیمار کیلئے
کوئی مسیحا، ایک عالم کیلئے کوئی کتاب، ایک جاہل کیلئے اس کی جہل، ایک سیاح
کیلئے اس کی سیاحت، ایک فنکار کئلیے اس کا فن، سیاست داں کیلئے اس کی جھوٹ
، ایک فلسفی کیلئے اس کی فکر، ایک شاعر کیلئے اس کا خواب، ایک عاشق کیلئے
اس کی محبوبہ، ایک بادشاہ کیلئے اس کی رعایا، ایک غریب کیلئے دو وقت کی
روٹی۔ ایک استاد کیلئے اس کا درس، ایک مردے کیلئے اس کی قبر، ایک طالب علم
کیلئے سکھنے کا عمل۔
یہی تو ان کی آزادی ہے۔ اب آپ حیراں ہوں گے، کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، تو
بتاتا چلوں کہ انسان محتا ج ہوتا ہے، ہم سب ایک دوسرے کیلئے واسطے اور
سہارے ہے اور سماج میں ہم باہم ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہے۔جب ہم اپنی آزادی
کی بات کرتے ہے، تو زہین میں یہ سوال آجاتا ہے، کہ کہیں میری آزادی دوسرے
کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں ؟
“ کہا جاتا ہے کہ امریکہ جب یورپ کے سیاسی قبضے سے آزاد ہوا، اس وقت ایک
امریکی شہری گھر سے نکلا، وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا، وہ ایک
سڑک پر دونوں ہاتھ ملاتا ہوا بے فکری کے ساتھ چل رہا تھا، اسی اثنا میں ان
کا ہاتھ دوسرے مسافر کی ناک سے ٹکرا گیا، مسافر کو غصہ آگیا، اس نے کہا کہ
یہ کیا بے ہودگی ہے، تم نے کیوں اپنی ہاتھ سے میری ناک پر مارا۔ امریکی
شہری نے جواب دیا کہ آج امریکہ آزاد ہے، اب میں آزاد ہوں جو چاہوں کروں ،
مسافر بے کہا کہ ارے بھائی تمہارا آزادی وہاں ختم ہوجاتا ہے، جہاں سے میری
ناک شروغ ہو جاتی ہے۔
Dear brother , your freedom ends where my nose begins
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں ایک سماج اور معاشرے میں رہتے ہوئے
آپ چند اصولوں اور قوانین کے پابند ہوتے ہے، اور ان کا اطلاق ریاست کرتا ہے۔
اب مسلہ یہاں پہ آجاتا ہے، کہ کیا قانوں نافذ کرنے والے عوامی خیر خواہ ہے
یا محض عوام کو ایک معیار پہ جاہل رکھ کر اپنے مقاصد اور مفادات کا تحفظ
کرنے والے؟
اب یہی سے حقیقی آزادی اور اجتمایت کی روح واضح ہو گی۔
ریاست اور عوام میں آزادی کے دو مفہوم سامنے آتے ہے، ایک میں کبھی عقائد
اور مذہبی رنگ دے کر عوام کو مغلوب اور جاہل رکھا جاتا ہے، جو کہ بہت ہی
خطر ناک ہے ، تعلیمی نظام محقق پیدا نہیں کرتا بلکہ نوکری کی تلاش کازریعہ
دیتا ہے، جو کہ ریاست نے طلبہ کو مجروح کیا ہے، اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں
کو دبایا ہے۔ ثقافت اور تہذیب کو مقدس رنگ دے کر عوامی شعور کو مسخ کیا
جاتا ہے۔ زندگی کو ایک بے قیمت رنگ دے کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
اور خود قانوں نافذ کرنے والے قانوں کے حدود و قیود سے بالا تر ہو کر تماشا
دیکھتے ہے۔
اور دوسرا ایک ایسی قانوں کا الحاق ہے جس میں قانوں کی برابری اور بلا رنگ
و نسل مساوات کی خوبصورتی، اجتمایت اور انسانی قدروں کا تحفظ ، شعوری ترقی
جیسے تصورات کے نگہبانی کی تصویر پیش کرتی ہے۔
آج ١٤ اگست کو پاکستا ن کا ٧٠ واں جشن ازادی ہے، جملہ ناشاد یہ ہے کہ ہم
اگر دو قومی نظریہ کا نعرہ لگا کہ آزاد ہوئے تو اج بھی ہم تفرقہ بازی اور
فرقہ واریت میں پیش پییش ہے، جس سوچ کو سر آغاخان ، سر سید آحمد خان، قائد
اعظم اور علامہ اقبال نے لے کر اس ملک کی آزادی کا مطالبہ کیا، اور جن
لوگوں نے مخالفت کی ، اج انکا خواب مظلوم ہے۔ لوگ شعور اور علم و آگہی سے
لا تعلق ہے، اور پیغمبر نے انما بعثت ntellectuals معلما فرما کر اسلامی
تعلیم کی حقیقی روح کو واضح کیا ،لیکن آج علم کے شمعوں کو چراغ دانوں میں
مثل مشال بجھایا جاتا ہے۔ ازادی رحمت ہے، اور آزادی کو خوش آمدید کہ کر
ہمیں شعوری آزادی اور علم و آگہی کو ترقی دینا ہوگا۔ اجتمایت اور محبت کو
فروغ دینا ہوگا، اور ہمیں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستا ں کا خواب
شرمندہ تعبیر کرنا ہو گا۔ |