آج یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، فاصلے سمٹ گئے ہیں
اور اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ خبر اب لمحوں میں لاکھوں میل کا سفر طے کر لیتی
ہے۔ برقی آلات نے ایک ہلچل مچا رکھی ہے۔ پہلے لوگ خبر سے چند پہروں تک بے
خبر رہا کرتے تھے۔ بے خبر سے با خبر ہونے میں تھوڑا وقت لگتا تھا مگر اب تو
اکیسویں صدی کے نفوس یہ ذخیرہ ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں اورآن کی آن میں
تہہ در تہہ معلومات سے لبریز رہتے ہیں۔
پچھلے چند دنوں کی اہم خبر پانامہ لیکس اور جےآئی ٹی سے ہوتے ہوئے عدالت
کے فیصلے کے حوالے سے تھی کہ جس میں ایک بھاری مینڈٹ والے وزیر اعظم کو تا
حیات نا اہل کر دیا گیا۔ اور یہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ شائد یہ موصوف
دنیا کے واحد وزیر اعظم بھی ہیں کہ جنہوں نے تین دفعہ یہ وزارت پائی مگر
ایک دفعہ بھی اپنا دورانیہ پورا نہ کر سکے۔ اس اہم خبر پر اسقدر بحث ہو چکی
ہے کہ میرے خیال میں مزید الفاظ ٹھونسنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ
پارٹی ارکان عدالتی فیصلے کے باوجود موصوف کو ابھی تک وزارتِ عظمیٰ کی کرسی
سے الگ نہ سوچ رہے ہیں نہ ہی مان رہے ہیں، مدبرانہ سیاسی انحطاط اور اداروں
کے کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ویسے بھی ہمارے ملک کے طاقت ور طبقے کاعمومی
رویہ بن چکا ہے ۔۔۔ جب طاقت ہے دولت ہے تو قانون اور عدالت جائیں بھاڑ میں‘‘۔
ابھی یہ معاملہ گرما گرمی کے عروج پہ تھا کہ ملک کی دوسری بڑی اور متحرک
پارٹی کی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی ہی پارٹی کے لیڈر پر
سنگین الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔ عورت کو اسلام نے ہر رشتے کے لحاظ سے بڑی
عزت دی ہے، ماں ، بہن اور بیٹی کے روپ میں ایک مقام دیا ہے۔ یہی تو فرق تھا
اسلام اور زمانہ جاہلیت کی سوچ کا۔ لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔
اسلام نے روشنی دی ، امن قائم کیا اور ماں کے قدموں میں جنت کا اعزاز رکھ
دیا۔ اس وقت کے عرب معاشرے میں سرکارِ دوعالم ﷺکی پیاری بیٹی تشریف لاتیں
تو اپنی چادر بچھا دیا کرتے۔ سبحان اللہ۔۔۔ ۔ یقینا عورت حیا کا پیکر ہوتی
ہے قابلِ عزت، قابلِ احترام ۔اور اگر کوئی اس کی عصمت پہ ہاتھ ڈالے تو یہ
عمل قابلِ معافی کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ یقینا اس معاملے کی تحقیقات ضروری
ہیں تا کہ جھوٹ اور سچ کا پتا چل سکے۔ مگر خاتون کے بیان کی تفصیلات کو اگر
دیکھا جائے تو معاملہ کچھ مشکوک لگتا ہے۔یہ کیسی مصلحت ہے کہ چند دن نہیں
چند مہینے نہیں چند سالوں سے یہ شرمناک سلسلہ چل رہا ہے اور اب جا کر ان کو
خیال آیا کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ میں محترمہ کے علم کے لئے صرف یہ بتانا
چاہتا ہوں کہ عورت چاہے کسی بھی معاشرے یا خطے کی ہو اسلام میں اس کی عزت
اور احترام کا معیار ایک ہی ہے۔ اسلامی طور پر قوموں یا خطوں کے لئے الگ
الگ قوانیں مرتب نہیں ہوئے۔ اس لئے پختون، پنجابی، سندھی یا بلوچی عورت کے
مختلف معیارات بنانے یا پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ آپ کو عزت دے ۔۔۔
مجھے یہ فکر دامن گیر ہے کہ یہ ’سیاسی ٹولے‘(بڑی معذرت کے ساتھ یہ لفظ
استعمال کرنے کی اجازت دیجیئے) جو کہ طاقت اور دولت کے نشے میں چُور ایک
دوسرے پر کھُلے عام اور بے لگام الزامات اور تہمتیں ہمہ وقت تھوپتے رہتے
ہیں، ان کو کچھ خبر بھی ہے کہ ننگ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کوئی اندازہ ہے کہ
ٹی وی پہ نشر کئے جانے والے پروگرامز میں جب کرپٹ، کم علم، ریاست ،سیاست
اور اخلاقیات کے مفہوم سے نابلد مختلف پارٹیز کے نمائندے جب ایک دوسرے کو
نیچا دکھانے کے لئے اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا
معاشرے پرکیا اثر ہو رہا ہے۔اتنی پستی۔۔۔اسلامی جمہوریہ پاکستان ، اسلام کے
نام پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کی گئی پاک سر زمین۔۔۔جس کے اعلیٰ
عہدوں پہ فائز عہدیداران کو اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ ہم کس ملک اور
قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں، غیر سُنتے اور دیکھتے ہوں گے تو کیا سوچتے ہوں
گے۔
یہ کون سی سیاست ہے، کہ جس میں ایک دوسرے کے کپڑوں کو تارتار کرنے اور
عزتوں کو اچھالنے کا مقابلہ چل رہاہے ۔ اور ایسے ایسے نازیبا الفاظ، کیا
کسی باشعور معاشرے میں زیب دیتے ہیں۔۔۔ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں،
ہم کس طرف جا رہے ہیں، اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ ٹی وی ، جو کہ تفریح اور
اصلاحی سر گرمیوں کے لئے سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اس پرسیاسی پروگرامز کا
تسلسل اس قدرہے کہ آپ کوتربیتی پروگرامز شائد ہی ملیں۔ آپ کو میڈیا پہ
کوئی اصلاحی خبر، تجزیہ یا معلومات ملیں نہ ملیں ، سیاست کے موضوع پہ تیار
کُشتہ ضرور ملے گا۔ میں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اکثر یہی سوچتا رہتا
ہوں کہ کیا ہمیں اس ’نام نہاد‘ سیاست کے وٹامن سے زیادہ اور کسی وٹامن، کسی
انرجی اور کیلشیم کی ضرورت نہیں ہے‘
با خبر رہنا اچھی بات ہے مگر جب خبر ایک کاروبار بن جائے بلکہ دھندہ بن
جائے اور اپنے اپنے مفاد کی آلائشوں میں لپٹ جائے تو اس سے اُٹھنے والے
تعفن سے معاشروں کے اندر جو بیماریاں جنم لیتی ہیں ان کا علاج دنیا کی کسی
بھی ویکسین کے بس کی بات نہیں رہتی۔ بھلے وقتوں میں علاقے آفت زدہ ہوا
کرتے تھے۔۔۔ مگر اب تو آفت سی آفت ہے۔۔۔کہ اذہان و قلوب اس کی زد میں آ
گئے ہیں۔ زمین بنجر ہو تو ہو۔۔۔ سوچیں بنجر ہو جائیں تو نسلوں کی بربادی کا
تسلسل صدیوں تک پھیل جاتا ہے۔ |