سو سال کے لگ بھگ علامہ اقبال کی ایک نظم "محاورہ مابین
خدا و انسان " یعنی خدا اور انسان کے درمیان گفتگو ۔ اس نظم میں انسان عجب
تماشہ ہے اور خود ہی تماشہ گر ہے جو اپنی زندگی اور موت کے بارے میں مکمل
شعور رکھتا ہے ۔بات انسانوں کی ہو رہی تھی جنہوں نے فیصلہ کیا کہ جینا ہے
اور جینے دینا ہے انہوں نے امن اور انصاف کو معاشرے کا موٹو بنایا اور
قانون فقط زندگی کو سہل بنانے کے لیے بنائے نہ کسی چودھراہٹ اور ظلم در ظلم
سلسلوں کے لیئے معاشرہ وہی کامیاب ہوتا ہے نہاں عدل اور انصاف اساسی کے طور
پر شامل ہوتا ہے اجتماعی زندگی کی خاصیت ایثار اور اخلاص ہوتی ہے۔
محاورہ مابین خدا و انسان:
" خُدا "
جہاں رازیک و گِل آفریدم
تو ایران و تاتاوزنگ آفریدی۔
" میں نے یہ جہاں ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا ، تو نے اس میں
ایران و توزان جیش بنا لیے"۔
من ازخاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تمنگ آفریدی۔
" میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا ، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ
بنا لیے"۔
تبر آفریدی نہال چمن را
قفس سا ختی طائرِ نغمہ زن را۔
" تو نے اس (فولاد) سے چمن کے درخت کاٹنے کے لیے کلہاڑا بنا لیا ، نغمہ
گائے ہوئے پرندوں کے لیے قفس بنا لیا۔
" انسان "
تو شب آفریدی ، چراغ آفریدم
سفال آفریدی ، ایاغ آفریدم۔
" تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا ، تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے
پیالہ بنا لیا"۔
بیابان و کہسارو داغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم۔
" تو نے جنگل ، پہاڑ اور میدان بنائے میں نے اس میں خیابان ، گلزار اور باغ
بنا لیے"۔
من آنم کہ ازسنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم۔
" میں وہ ہو ں کہ پتھر سے آئینہ اور شیشہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں کہ زہر سے
شربت اتریاق بناتا ہوں۔
ایثار انہ جذبہ اور خلوص کا مادہ کسی بھی انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ کم
ترین وسائل پر بہترین محنت کرے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنائے۔
نظم : علامہ محمد اقبال – پیامِ مشرق |