پی پی کی حالت ان دنوں کچھ اس طرح کی ہے کہ اس کے مستقبل
سے متعلق کچھ بھی پشین گوئی کرنا مشکل ہور ہا ہے۔اس کی قیادت کے قول و فعل
میں اس قدر تضاد پایا جارہاہے کہ آنے والے دنوں میں اس جماعت کی کامیابی
اور ناکامی دونوں کی برابر کی امید کی جاسکتی ہے۔قیادت کی بڑھکیں تو یوں
ہیں کہ گویا پی پی کے سوا کوئی اور قوت ہی نہیں ۔مگر عملا قیادت سیاسی عمل
سے لاتعلق ہے۔ا س قدر لاتعلق کہ اگلے الیکشن میں ان کے پاس شاید تمام حلقوں
کے امیدوار بھی نہ مل سکیں۔اگر پی پی الیکشن ہار جاتی ہے تو اس کے پیچھے
قیادت کا آج کل کا خیالی پلاؤ آسرا کارفرما ہوگا۔بھٹو نے اپنا نام اس طرح
کے خالی پلاؤ کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے بنایا تھا۔وہ ایوب کی کابینہ
میں مختلف وزارتوں میں رہے۔مگر تب ان کی حیثیت ایک عام سیاست دان کی سی
تھی۔انہیں اصل پہچان تب ملی جب انہوں نے بڑے ایشو کی سیاست اپنائی۔ان کی
طرف سے آمریت کے خلاف ایک نان سٹاب تحریک کے بعد ہی بھٹو کا نام زبان ذد
عام ہوا۔وہ مکان وزمان کی پرواہ کیے بغیر اپنے مشن میں لگے رہے ۔کراچی سے
پشاور تک اور دن سے رات تک انہوں نے کوئی فرق نہیں رکھا۔تنگ گلیوں میں ۔سڑکوں
۔چبوتروں۔چوراہوں میں بھٹو کھڑے دکھائی دیے۔انہوں نے عوام کو اامریت کے
مضمرات سے آگاہی دی۔بتایا کہ جمہوریت کے فائدے کیا ہیں۔اب راج کرے کی خلق
خدا کا دلفریب نعرہ ان کی تب کی سیاست کا محورتھا۔وہ اختیارات کو کچھ لوگوں
سے چھین کر اسے عام آدمی تک منتقل کرنے کا مشن رکھتے تھے۔انہوں نے قوم کے
دکھوں کا ذکر کیا ۔ان کی محرومیوں کو محسوس کیا۔انہوں نے وہی کہاجو لوگ
سننا چاہتے تھے۔وہی کیا جو ان کے مشن کی تکمیل کے لیے لازم تھا۔بھٹو نے قول
وفعل میں ایسی ہم آہنگی کا ثبوت دیا۔جو نظر بھی آئی اور تسلیم بھی کرلی
گئی۔انہوں نے خیالی پلاؤکی حماقت بالکل نہیں کی۔
وزیر اعظم نوازشریف کی اسلام آبادسے لاہور ریلی کو اپوزیشن جس اندازمیں
مستر د کررہی ہے۔وہ سیاست کا ایسا باب ہے۔جسے اب بند ہوجانا چاہیے۔سیاست کو
گالی کانام اگر ملا ہے۔اگر اسے جھوٹ اور ہیرا پھیری سے موسوم کیا جاتاہے۔تو
اس کا سبب اس طرح کی حقیقت سے آنکھیں موند پالیسی ہے۔کہا جارہاہے کہ
نوازشریف ہا ر چکے ہیں۔وہ اب ماسی مصیبتے بن گئے ہیں۔انہیں قوم نے
مستردکردیاہے۔وغیرہ وغیرہ۔پی پی قیادت کا اس طرح کی سیاست کا حصہ بن جانا
یوں زیادہ چبھ رہاہے۔کہ وہ حقیقت حال سے بخوبی واقف ہے ۔مگر جانے کیوں وہ
بھی جھوٹ اور مکر کے کچھ لوگوں کے کھیل کی حصہ دار بن رہی ہے۔سابق وزیر
اعظم سید یوسف رضاگیلانی کا کہنا ہے کہ نوازشریف مگر مچھ کے آنسو بہا کرقوم
کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔
پی پی کے بعض دیگر رہنما بھی کچھاسی طرح کے تبصرے کررہے ہیں۔ان کی آواز اس
دھڑے سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔جو پچھلے کچھ برسوں سے نوازشریف کو کسی بھی حال
میں سیاست سے آؤٹ کرنے کی تحریک چلارہے ہیں۔گروہ تابعداران کو اس کام کا
معاوضہ یا تو کیش کی صورت میں مل رہاہے۔یا پھر کسی اچھی امید فرداکی صورت
میں ۔ بڑے بڑے جلسے اورریلیاں اس کیش کی وصولی کی دلیل ہیں۔اور درجن کے
قریب لوگوں کا خود کو ممکنہ وزیر اعظم تصورکیے ہونا ۔امید فردا کی ایک
مثال۔پی پی کی طرف سے نوازشریف کی ریلی پر پھبتیاں کسنا حیران کن ہے۔وہ
اپنے سواکسی کو جمہوریت کا علم بردار تصور نہیں کرتی۔نوازشریف کے خلاف
تحریک چلانے والے گروہ کو کئی بار مستردکرچکی ہے۔تحریک انصاف اور اس جماعت
کے ہم راہیوں کو پی پی پچاس بار اشاروں پر چلنے والے قرار دے چکی ہے۔اب ان
لوگوں کی آوازمیں آواز ملا کرجانے پی پی قیادت کیا ثابت کرنا چاہتی
ہے۔اپوزیشن نوازشریف پر حکومتی مشینری استعمال کرنے کا الزام لگارہی ہے۔کیا
پی پی نہیں جانتی کہ اصل حکومت کن کی ہوتی ہے۔کیا اسے نہیں پتہ کہ اصل
حکومت اس وقت نوازشریف کی جانی دشمن بنی ہوئی ہے۔پی پی کو اپنے تجربے او
رمضبوط سیٹ اپ کو سامنے رکھ کر اپنے اہداف ترتیب دینے چاہیے ۔اگر وہ بھی
غیر ذمہ دارانہ طرز سیاست اپنائے گی۔تو اس میں بھی زیادہ نقصان اسی کے حصے
آئے گا۔نوازشریف کے پاس کھونے کوکچھ نہیں مگر کیا پی پی کے کچھ لوگ بلاول
کوبھی ایسا پاکستان دیناچاہ رہے ہیں۔جہان کئی متوازی حکومتیں ہوں۔جہاں
ہیراپھیری کا دور دورہ ہوں۔جہان کرے کوئی اور بھرے گا کوئی کی ریت
ہوگی۔غلطیاں کسی کی ہوں۔اور پھانسی یا عمرقید کوئی بھگتے گا۔
پی پی کے موجودہ قول وفعل کاتضاد اس کے تاریک مستقبل کے امکانات
پیداکرہاہے۔قیادت جو لائحہ عمل ا س وقت اپنائے ہوئے ہے۔وہ کسی طور پر
موجودہ سیاسی منظرنامے میں مفید نہیں ۔وہ نوازشریف کی طرح کھل کر اینٹی
سٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کر پارہی۔اس کی بد قسمتی کہ وہ کھل کر تحریک انصاف
اور ان کے ہمراہیوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو ہر حال میں ڈیفنڈ کرنے کی پوزیشن
بھی نہیں لے پارہی۔اس کی موجودہ پوزیشن بڑی غیر موثر ہے۔یا تو میدان
نوازشریف ماریں گے۔یا پھر تحریک انصاف موجودہ منظر نامے میں پی پی کا موثر
رول کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔کیاپی پی قیادت اب صرف ہوائی قلعوں تک ہی رہے
گی۔یا کچھ عملا کمال بھی دکھائے گی۔اگر پی پی کی ڈھیلی ڈھالی سیاست جاری
رہی تو سمجھ لیا جائے گاکہ موجودہ پی پی قیادت پوری طرح ہار مانے بیٹھی ہے۔ |