سیا ست خدمت اور عباد ت یہ الفاظ اکثر ہم اپنے سیا ست
دانوں سے سنتے رہتے ہیں پوری دنیا میں جمہو ری مما لک میں عوا می لیڈر وسیا
سی نما ئندوں کی اولین تر جعی عوا می خدمت اور ان کے مسا ئل کو کر نا ہو تی
ہے جبکہ وہ سیاست دان کئی بار ایو نوں میں آکر مختلف عہدوں پربراجمان ہو تے
رہتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن پور ی دنیا کے بر عکس ہمارے ملک
کی سیا ست میں صورت حال یکسر مختلف ہے یہاں عوامی خدمت کی بجا ئے اقتدار
طاقت اور حکمرانی حاصل کرنے کے لئے کی جا تی ہے ووٹ حاصل کرنے کے بعدعوام
کیا ہے اور خدمت کسے کہتے ہیں پانچ سال کے لئے فریزرمیں محفوظ کر دیا جاتا
ہے جیسے کو ئی قربا نی کا گوشت ہو اسی طر ح عوامی مسائل کے ساتھ بھی ایسے
ہی کیا جا تا ہے ہماری سیاست خدمت سے نکل کر کھیل میں تبدیل ہو چکی ہے اور
یہ کھیل آج سے نہیں کئی سال سے عوام کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ہمارے ملک میں
جمہو ری حکو متوں کا شکوہ رہا ہے کہ انہیں مد ت پور ی نہیں کر نے دی گئی
جبکہ ان جمہوری حکو متوں کا تختہ الٹنے والو ں کا کہنا ہے انہوں نے ملک کو
نقصا ن پہنچا کر کمز ور کیا ہے ان لوگوں نے عوام اور ملک کی خدمت کم لیکن
اپنی تجو ریاں زیادہ بھر ی ہیں ملک میں حکو مت جمہو ری سیاسی جما عتوں کی
ہو یا خودساختہ جمہوری پلستر والی ہو جس کے پیچھے کوئی ڈکیٹر بیٹھا ہو عوام
کی تقدیر نہ وہ بدل سکے اور نہ ہی یہ سیا سی لو گ ملک میں مو جودہ سیا سی
صورت حا ل کو دیکھیں تو ایک دوسرے سے اقتدار حاصل کرنے کی جنگ ہے کہ ختم ہو
نے کا نا م ہی نہیں لے رہی 2013ء کے الیکشن سے پہلے عوام سے بڑے بڑے وعدے
اور دعوے کیے گئے تھے لیکن ساڑھے چارسال میں وہوعدے عہد وفا نہ ہو سکے بلکہ
وہ پورے ہو نے کے انتظارکرتے کرتے خودہی مر جھا گئے بچاری عوام نے بھی
مسائل میں زندہ رہنے کی عادت بنا لی ہے ملک میں ایک سال سے زیادہ پانامہ کا
بھونچال رہا جو آخر کار وزیراعظم کی رخصتی کے بعد ختم ہو جاتا لیکن یہ
سیاسی کھیل ہے ہر روز کوئی نئی داستان پر یس کا نفرنسوں کے ذریعے عوام کو
سنا کر ہمدردی بٹورنے کی کو شش کی جا تی ہے اور اس داستان کو کئی کئی دن
عوام کے ذہنوں پر سوار رکھنے کے لئے ہر نیو ز بلیٹن ٹاک شو اور اخبارات کے
اداریوں وکالمز میں رقم کیا جاتا ہے اب توسیاست میں شطرنج کا چالیں چلی جا
رہی ہیں حالیہ عائشہ گلا لئی کا معاملہ پوری قوم کے سامنے ہے بس بیس کروڑ
عوام کا مسئلہ ہی یہی رہے گیا تھا اب ایک عائشہ قو م کے ذہنوں میں گھو م
رہی تھی کہ دوسری پارٹی بھی ایک اور عائشہ کو سامنے لے آئیبس ایک دوسرے کی
کردار کشی کے علاوہ سیا ست میں رہے ہی کیا گیا ہے سیا ست میں مقابلہ ہمیشہ
خدمت کا ہو تا ہے یہاں مقابلہ صرف پر یس کا نفرنس میں کر دار کشی اور کیچڑ
اچھالنے کا ہو رہا ہے ایک وقت تھا جب کسی بھی نیوز چینل کا خبر نا مہ سننے
کے لا ئق ہو تا تھا جس میں خبروں کے علاوہ معلومات بھی ہو تی تھیں جن میں
ملکی غیر ملکی خبروں کیساتھ کھیل شوبز تجارت اور مو سم کی خبر یں بھی نشر
ہو تی تھیں آج کل نیو ز چینلز کی بھر مارے ہے مقابلہ ہی مقابلہ ہے ایک
دوسرے سے بازی لے جا نی ہے سیاست دانوں کی طر ح میڈیا میں بھی تقسم نظر آتی
ہے جو غیر جا نبداری کو بھول کر جا نبداری کی راہ پر چل پڑے ہیں کوئی کسی
کو سچا تو کسی کو جھوٹا ثابت کرنے میں لگا ہو اہے اب تو نیوز چینلز کے
بلیٹن میں پندرہ منٹ سے زیادہ کی ہیڈ لائن نشرکی جا تی ہے جس میں ساری
خبریں سیا سی بیا نا ت پر مشتمل ہو تی ہیں ادھر سوشل میڈیا پر تو ایک جنگ
برپا ہے کچھ عرصہ سوشل میڈیا پر عوام کوسلیفی نے اپنے سحر جکڑرکھا تھا جو
وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو رہا تھااورعوام سوشل میڈیا کو اپنے مسائل اور
معلومات کے حصول کا ذریعہ بنا رہی تھی لیکن اب اس سیا سی جنگ میں عوام بھی
اپنے مسائل کو پس پشت ڈال کر سیا ست دانوں کیحمایت کے لئے کو د پڑی ہے سوشل
میڈیا پر ہر ایک دوسرے کے لیڈ ر کو بد کردار اور اپنے لیڈر کو حاجی صاحب
ثابت کرنے میں لگا ہو ا ہے سیا ست دان بھی یہی چا ہتے تھے کہ عوام کسی طر ح
اپنے مسائل سے دوررکھا جائے اور عوام ہمیں بار بار الیکشن سے پہلے کیے جا
نے والے وعدے یاد نہ کر وائے آپ کسی بھی سیا سی جماعت کا منشور اٹھا کر
دیکھ لیں سب کے منشور میں عوام کی فلاح بہبود اور خدمت اولین ترجعی ہو گا
عام آدمی اور ملک کے غریب کا مسئلہ کسی کے بدکر دار ہو نے یا نہ ہو نے سے
حل نہیں ہو گا کیا لوڈ شیڈنگ اس سے ختم ہو جا ئے گی نو جوانوں کوروز گار مل
جا ئے ہسپتالوں کی سہولیا ت میں آضا فہ ہو جا ئے جہاں لاش کے ساتھ مریض کو
لیٹا کر علاج کیا جا تا ہے کیا تھر کے بچے صحت مند ہو جا ئیں گے سندھ طاس
اور کشمیر کا مسئلہ حل ہو جا ئے گا ہر بچہ سکو ل میں داخل ہو جا ئے گا ہرگز
نہیں موجودہ نئے وزیر اعظم اور ان کی کا بینہ کے لئے وقت کتنا رہے گیا اس
قلیل وقت میں کیا کیا کر یں گے عوام کی خدمت مسائل کا حل یا اسمبلی میں نئی
قانون سازی کر یں گے پچھلے کئی سالوں سے ہیلتھ ریفارمز کا بل اسمبلی کے
ٹھندے کمر وں میں پڑا سو رہا ہے انتخابی اصلاحات پر کام مکمل نہ ہو سکا نئے
الیکشن سر پر ہیں جب 2018 الیکشن ہو جا ئیں گے تو پھر کو ئی اوردھاندلی کا
رونا روئے گا ملک میں با مشکل مر دم شماری عدالتی حکا مات کے بعدہو تو چکی
ہے لیکن نئی حلقہ بندیاں نہ ہو سکی ہیں بس فوری کمیٹیاں بنتی ہیں تو کسی
فون کے میسج پر یا پھر بل پاس ہو تے ہیں تو ممبران کی تنخواہوں اور مر اعات
کے لئے جس پر نہ حکمران جماعت کو اعتراض ہو تا ہے اور نہ ہی اپو زیشن کو جو
کثرت رائے سے فوری منظور کر لیا جا تا ہے ملک کس طر ف جا رہا ہے کچھ پتہ
نہیں بس جلسے جلوس ریلیاں اور پر یس کا نفرنس یہ سب سے اہم اور ضروری کا م
رہے گیا ہے فری انیڈ فیر الیکشن نیٹ ورک ’’فافن ‘‘نے رواں سال ایک رپورٹ
جاری کی ہیجومو جودہ اسمبلی کی چار سالہ کا رگردگی پر تھی جس کے مطابق
اسمبلی کے چار سالوں میں پہلے سال 100 دن دوسرے سال 109دن تیسرے سال 103 دن
اور چوتھے سال 102 دن کا م ہو اچوتھے سال میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر 86 دن
سابق وزیر اعظم نو از شریف 6 دن اپو زیشن لیڈ رخورشید شاہ 69 دن اور عمر ان
خا ن 2 دن اسمبلی میں تشریف لا ئے اب یہ صورت حال ہے کہ ملک پر واجب الاد
قرضوں کا بوجھ 233 کھر ب 89 ارب60 کروڑ ہے ملک کا ہر فرد ایک لا کھ 15 ہزار
911روپے کا مقروض ہو چکا ہے لیکن 30 سالوں میں ملک کے سیا ست دانوں اور بڑے
لو گوں نے 400 ارب کے قرضے معاف کر وائے ہیں اس سے واضع ہو تا ہے عوام کے
ساتھ کو ئی بھی مخلص نہیں ہے سب کو اپنے اپنے مفا دات اور اقتدار عزیز ہے
عوام پچھلے 70 سال سے مسائل کی چکی میں پستی چلی آ رہیہے اورپستی ہی رہے گی
جبکہ سیا ست میں ذاتی الزام تراشیوں کی سیا ست ملک وقوم کے مفاد میں نہ ہے
اور نہ ہو گی یہ غلط روایات جنم لے رہی ہیں جو آنے والی نسلوں کی اخلاقی
تربیت میں بگاڑ پیدا کر ے گی ہمارے سیاست دانوں کو تو اخلاقیات اور برداشت
کی اعلی مثال قائم کرنی چاہیے عوام سے ہمدردی صرف اور صرف خدمت کی بنیا د
پر ہی لی جا سکتی ہے نہ کہ ایک دوسرے پر الز مات لگا کر - |