اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ نے اقامہ
کو بنیاد بنا کر پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ
عظمی کے منصب سے نا اہل قرار دے دے دیا ہے جو ماہرینِ قانون،اہلِ دانش اور
جمہوریت سے محبت رکھنے والوں کیلئے وجہِ اضطراب بنا ہوا ہے ۔بھاارت کی مثال
ہمارے سامنے ہے جب وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے خلاف بافورس سکینڈل کا زورو
شور تھا تو اس وقت گیانی ذیل سنگھ جو کہ صدرِ جمہوریہ بھارت تھے اور
کانگریس کی حمائت سے صدر منتخب ہوئے تھے ان پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے
سخت دباؤ تھا کہ وہ کرپشن کے الزامات کو بنیاد بنا کر راجیو گاندھی کی
حکومت کو خاتمہ کردیں لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کا
کہنا تھا کہ میں ہی وہ پہلا شخص کیوں بنوں جس کے ہا تھوں منتخب وزیرِ اعظم
اور اسمبلی کی برخاستگی کا حکم صادر ہو؟ ان کے اس انکار کے بعد راجیو
گاندھی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور صدرِ جمہوریہ بھارت نے اسمبلی کی
برخاستگی اور وزیرِ اعظم کی رخصتی جیسے حکم نامہ کو جاری کرنے کی روائت کا
آغاز کرنے کی نوبت نہ آنے دی جس سے بھارت میں جمہوریت مضبوط ہو ئی ۔یہ الگ
بات کہ کرپشن الزامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عوام نے عام انتخابات میں
راجیو گاندھی اور کانگریس کو شکست سے ہمکنار کیا ۔ عوامی عدالت چونکہ دنیا
کی سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے لہذا جمہوری طریقہ یہی ہے کہ سیاستدانوں کا
احتساب عوامی عدالت سے کروایا جائے۔جبکہ پاکستان میں ۵۸ ٹو بی اور کرپشن کے
نام پر کئی حکومتیں تحلیل ہوئیں اور وزرائے اعظم کو سزا بھی ہوئی جس کی
حالیہ مثال میاں نواز شریف ہیں ۔ پی پی پی میاں محمد نواز شریف کی ناہلی کے
سارے پراسس میں بالکل خاموش تھی لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ اپوزیشن کے اس
شورو غوغہ اور طوفان میں اس کا راستہ بھی نکل سکتا ہے تو وہ بھی اپوزیشن کی
ہمنوا بن گئی حالانکہ اس کی ساری زندگی جمہوری جدو جہد میں گزری ہے۔طاقت کا
سرچشمہ عوام ہیں اس کا سب سے بڑا نعرہ ہے اور عوام کی اسی طاقت کے اعتراف
میں پارٹی قیادت اور بھٹو خاندان نے بے شمار قربانیاں دیں لیکن اپوزیشن کی
ہمنوا بن کر اس نے نہ صرف میثاقِ جمہوریت کا مذاق اڑایا ہے بلکہ دخترِ قائدِ
عوام اور شہیدِ وفا محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح سے بھی غداری کی ۔ پی پی پی
کایہ نیا روپ اس کی جمہوری جدو جہد پر ایک سوالیہ نشان کی صورت میں قائم
رہیگا،پی پی پی نے جمہوری قدروں اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جو فقید
المثال جدو جہد کی ہے اس کا حالیہ رویہ اس کے کرداسے مماثلت نہیں
رکھتا۔پارلیمنٹ سپریم ہے اور کسی کو اسے تحلیل کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں
ہے۔وزیرِ اعظم کی برخاستگی اور الزامی سیاست سے پی پی پی کا کبھی کوئی تعلق
واسطہ نہیں رہا۔پی پی پی آئین و قانون اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی محافظ
ہے لیکن میاں محمد نواز شریف کی مخالفت میں وہ اپنے موقف سے ہٹ گئی ہے جس
کا اسے کوئی سیاسی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔عدالتیں سیاسی فیصلے نہیں کر
سکتیں کیونکہ عدالت اور سیاست علیحدہ میدان ہیں۔ سیاست کے شہسواروں اور
عدالت کے معزز ججز کے میدان مختلف ہیں لہذا جب وہ ایک دوسرے کے معاملات میں
مداخلت کرتے ہیں تو جمہوری نظام پر زلزلہ طاری ہو جاتا ہے۔پی پی پی کی ساری
سیاسی زند گی ہی عدالتوں کی بے رحمی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔اسے
عدالتوں سے جس طرح زخم لگے ہیں وہ بیان سے باہر ہیں ۔جنرل ضیا الحق کی
عدالتوں کا تو ایک مائنڈ سیٹ تھا جس کا نقطہ ماسکہ پی پی پی کو ملیا میٹ
کرنا اور بھٹو خاندان کا سیاست سے صفایا کرنا تھا لیکن ۲۰۱۲ میں پی پی پی
کے اپنے بحال کردہ چیف جسٹس اافتخار محمدچوہدری نے جو طوفان اٹھا یا تھا
اسے پی پی پی کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔،۔
میاں محمد نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم تھے لیکن ۲۸ جو لائی کو
انھیں جس غیر منطقی اور بھونڈے طریقے سے سپریم کورٹ سے فارغ کروایا گیا وہ
سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ سچ ہے کہ ماضی میں عدلیہ نے ہمیشہ میاں محمد نواز
شریف کو ریلیف دیا لیکن جنرل پرویز مشرف پر آئین کی شق چھ کے تحت غداری کیس
نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔جنرل راحیل شریف نے اس غداری کیس کو روکنے کی
بھر پور کوشش کی لیکن میاں محمد نواز شریف ان سے متفق نہ ہوئے۔جنرل پرویز
مشرف پر غداری کا مقدمہ دائر ہونا میاں محمد نواز شریف کی وزارتِ عظمی بھی
سوالیہ نشان لگ گیا۔ میاں محمد نواز شریف کو ان کے چند رفقائے کار نے محتاط
رہنے کا مشورہ دیا لیکن میاں محمد نواز شریف مقدمہ دائر کرنے اور جنرل مشرف
کو سزا دلوانے کے معاملہ پر ڈٹ گئے۔ اب ایک طرف فوج تھی اور دوسری طرف
جمہوری حکومت تھی لہذا جب فوج اور سیاستدان آمنے سامنے ہو جائیں تو پھر
جمہوری حکومت کی شکست اٹل ہوتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔اس جنگ کو منطقی انجام
تک پہنچانے کیلئے آمریت کی حامی جماعتیں جنرل پرویز مشرف کی رہائی کیلئے سر
گرم ہو گئیں۔ دھرنے،لانگ مارچ اور لاک ڈاؤن اسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے
کیلئے برپا کئے گئے۔اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز مشرف ملک
سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔مکہ دکھانے والا اور خود کو کماندو کہنے
والا سورما جنرل پرویز مشرف اپنے محسن جنرل راحیل شریف کی سر پرستی میں
غداری کے مقدمہ سے بچ نکلا۔وہ کمر درد کا بہانہ بنا کر سپریم کورٹ سے چند
ہفتوں کی مہلت لے کر علاج کی غرض سے ملک سے باہر گیا لیکن علاج کے بعد
پاکستان لوٹنا بھول گیا ۔وہ آج کل دبئی میں رہائش پذیر ہے اور جمہوری حکومت
کے خلاف اپنی سازشوں سے باز نہیں آ رہا۔وہ اب بھی آمریت کو جمہوریت سے بہتر
سمجھ رہا ہے۔دنیا جمہوریت کی جانب محوِ سفر ہے اور وہ دبئی میں بیٹھ کر
آمریت کی وکالت کر رہا ہے۔ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ وہ اب بھی خود کو
پاکستان کا مسیحا سمجھ رہا ہے حالانکہ عوام اس کے غیر جمہوری اقدامات کی
وجہ سے اسے جیل کی سلا خوں کے پیچھے د یکھنا ا چاہتے ہیں۔جیلوں کی سختیوں
کا مقابلہ کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔جنرل پرویز مشرف جب تک
زندہ رہیگا غداری کا یہ مقدمہ اس کا پیچھا کرتا رہیگا ۔وہ ٹیلیویژن کی
سکرینوں پر بھاشن دے سکتا ہے لیکن پاکستان میں اس کی آمد بلیک وارنٹ پر
دستخط کرنے کے مترادف ہوگی۔۔ابھی جنرل پرویز مشرف کا معاملہ حتمی طور پر
سیٹل نہیں ہوا تھا کہ ڈان لیکس کامعاملہ منظرِ عام پر آ گیا جس نے رہی سہی
کسر بھی پوری کر دی۔ ڈان لیکس کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) میں بد
اعتمادی کی جو خلیج پیدا ہوئی تھی اس کا تازہ شکار میاں محمد نواز شریف ہے
۔اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ میاں محمد نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد
خاموشی سے اپنی نا اہلی کے وار کو سہہ جائیں گے اور کسی قسم کا کوئی احتجاج
نہیں کریں گے ۔وہ میاں محمد نواز شریف کو بھی محمد خان جونیجو سمجھ رہے تھے
جو مئی ۱۹۸۸ میں اپنی حکومت کے خا تمہ کے بعد سندھڑی میں چھپ کر بیٹھ گئے
تھے۔پنجاب کے وزیرِ اعظم اور سندھ کے وزیرِ اعظم میں جو فرق ہے وہ میاں
محمد نواز شریف کی للکار سے واضح ہے۔پنجاب طاقت کا مرکز ہے اور اس مرکز کی
نمائندگی میاں محمد نواز شریف کر رہے ہیں ۔کسی زمانے میں پی پی پی کو نیچا
دکھانے کیلئے میاں محمد نواز شریف کو یہ نمائندگی دلوانے کیلئے
عدلیہ،اسٹیبلشمنٹ اور نذہبی جماعتیں یک زبان تھیں۔انھوں نے جس بت کو خود
اپنے ہاتھوں سے تراشا تھا اب اس کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے تھے ۔اب ان کا
سارا زور اپنے ہی تراشیدہ بت کو چکنا چور کرنے پر صرف ہو رہا تھا۔ وہ بت اب
ان کیلئے خطرہ بنتا جا رہا تھا لہذا اسے چکنا چور کرنا ضروری تھا۔میاں محمد
نواز شریف کی ناہلی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔میاں محمد نواز شریف نے اپنی
نا اہلی کو عوامی عدالت میں چیلج کر دیاہے اور عوام جوق در جوق ان کے جلسوں
میں شرکت کر کے ان سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔عوام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا
سمندر اس بات کا غماز ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا تراشیدہ بت اب عوامی محبت کا
ستعارہ بن چکا ہے ۔یہ ماضی والا نوز شریف نہیں ہے بلکہ ایک نیا نوا زشریف
ہے جو سیاست کا نیا بیانیہ لکھ رہا ہے۔کیا یہ بت اپنے محسنوں کے ہاتھوں
چکنا چور ہوپائے گا؟ کیا جمہوریت پھر رسوا ہو جائیگی؟ کیا اسٹیبلشمنٹ جیت
جائیگی یا ایک نیا مارشل لاء پاکستان کا مقدر ہو گا ؟۔سوچئے اور جواب دیجئے۔،۔ |