نواز شریف کا مارچ اسلام آباد سے لاہور جاکر اختتام پذیر
ہوا۔ راستے میں آنے والے تمام شہروں کی پولیس ، ایم پی ایز، ایم این ایز،
ناظمین، کونسلرز و دیگر وسائل کو استعمال کیا گیا۔ جی ٹی روڈ کو تمام تر
دیگر ٹریفک کیلئے اس عرصے میں بند رکھا گیا عوام مجبورا موٹروے سے سفرکرکے
اضافی خرچے کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ اسلام آباد سے لاہور تک آنے والے تمام
شہروں میں ریلی کے دوران ٹریفک بند کرنے کے باعث عام شہریوں کو خاص شدید
پریشانی اٹھانی پڑی۔ لالہ موسی میں وزیراعظم کے پروٹوکول میں شامل گاڑی جس
میں نواز شریف نے اپنی ریلی کے سفر کا آغاز کیا تھا ، کی ٹکر سے واحد نامی
12سالہ بچہ شدید زخمی ہوگیا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال
میں دم توڑ گیا۔ ریلی میں موجود سرکاری ایمبولینس شدید زخمی کے پاس سے گزر
گئی لیکن رکی نہیں کیونکہ سیاسی جلسوں، مظاہروں میں عام ووٹرز ہلاک ہوتے
رہتے ہیں ایک اور ہوگیا تو کیا ہوا؟ بچے کی ہلاکت کو ریلی کا پہلا شہید
قرار دیا گیا اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف تو چھوڑیں گاڑی کا نمبر معلوم
ہونے کے باوجود FIR ہی درج نہ کیا گیا ۔ نامعلوم افراد کے خلاف درج FIRکو
بعد ازاں وزیراعلی پنجاب یا کسی وزیر ، مشیر، عوامی نمائندے کی مالی امداد
پر گھر پر حاضری کے بعد دبادیاجائیگا۔ اس ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں
ایسا ہوتا رہتاہے اور ہوتا رہیگا ۔ سابق وزیراظم اپنی تقاریر میں عدلیہ اور
خفیہ طاقتوں کا ذکر کررہے ہیں کہ انہوں نے اس بات پر مجھے نااہل کردیا کہ
میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی۔ ان کے بقول میں پاک صاف ہوں میرا دل
صاف ہے میر اماضی صاف ہے۔ میری سیاست صاف ستھری ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ
اب میں پنجاب کے بعد عوامی مہم پر سندھ ، کے پی کے او ربلوچستان بھی جاؤں
گا۔ کاش نواز شریف اپنے دور حکومت میں بھی عوامی رابطہ مہم پر نکلتے وہ
ریلی کے دوران دعوی کررہے ہیں کہ اگر میں وزیراعظم رہتا تو دو سال میں بے
روزگاری کا خاتمہ ہوجاتا۔ ارے بھائی ابھی بھی آپ ہی کی حکومت ہے صرف نام
بدلہ ہے۔ اصل میں تو آپ ہی کی پالیسیاں چل رہی ہیں۔ آپ کے ہر دور حکومت میں
بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ موجودہ دور میں تو سرمایہ کار بھاگ گئے، انڈسریز
بند ہوگئیں ، لوڈشیڈنگ کے عذاب مسلسل کے باعث اب آپ انقلاب کی باتیں کررہے
ہیں۔ عوام سے انقلاب کیلئے حمایت مانگ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دور حکومت میں
صرف پنجاب کو ہی ملک سمجھا۔ کے پی کے میں واپڈ اکے محکمے کو JUI F جیسی
کرپٹ جماعت کے حوالے کرکے گذشتہ چار سالوں سے عوام کا کاروبار زندگی معطل
کرکھاہے۔ پنجاب میں شہروں میں تین گھنٹے، دیہاتوں میں چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ
جبکہ KPK میں شہروں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے اور دیہاتوں میں صرف چار
گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ کے پی کے سے گزرنے والی اور قدرتی طورپر ملنے
والی سی پیک کے مغربی روٹ کو آپ نے سبوتازکیا ۔ تاحال مغربی روٹ پر وعدوں ،
معاہددوں کے باوجو د ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی اور نہ ہی اراضی خریدی گئی
ہے ۔ ڈیرہ سے اسلام آباد تک سڑک کو مغربی روٹ قرار دیکر یہاں لوگوں کو بے
وقوف بنایا گیا۔ آپ نے سب کچھ JUI Fکو سمجھ لیا جس کا ماضی کرپشن، تعصب سے
داغدار ہے جس کے اکابرین سے اس کے آبائی حلقے کے لوگ خفا ہیں۔ وہ اپنے ایم
این اے کی شکل تک دیکھنے کو ترس گئے ہیں آپ کس منہ سے کے پی کے کا دورہ
کریں گے۔ اس صوبہ میں آپ نے کیا کیا ؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ریلی میں ہزار
سے زائد سرکاری گاڑیوں کے استعمال 5دن تک سرکاری رسیدوں پر پیٹرول ، ڈیزل،
گیس کے زور پر عوام کے دلوں کو فتح کرلیں گے کہ عوام میرے ساتھ ہے آپکا
خاندان تو پھنسا ہی ہے اب آپ پنجاب حکومت کے خلاف بھی سرکاری وسائل کے
استعمال پر ریفرنس کی تیاری کرلیں۔ آپ کا پہلا دور حکومت مجھے یاد ہے جب
کاروباری سرگرمیاں عروج پر تھیں لیکن آپ کے آخری دوری حکومت میں کاروبار
اور کاروبار سے وابستہ لوگ دفن ہوگئے۔ ٹیکسوں کی بھرمار، نت نئے قوانین،
یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں نے عام عوام کے ساتھ ساتھ
کاروباری طبقے کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کاش کہ آپ نے ان سے رابطہ رکھا ہوتا۔
چاپلوسوں، خوشامدیوں، درباریوں کے نرغے سے نکل کر عوام کی حالت زار دیکھی
اور سنی ہوتی تو آج آپ کے نااہل ہونے پر پور املک سراپا احتجاج ہوتا۔ ریلی
میں آپ کے ساتھ ہوتا۔ آپ نے چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے ، کشکول توڑنے،
زرداری سے کرپشن کی رقم واپس وصول کرنے کا وعدہ کیالیکن اقتدار میں آنے کے
بعد آپ سب کچھ بھول گئے۔ آپکا قصور نہیں ہے۔ ہمارا المیہ سیاست کا یہی ہے
کہ ہم جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کو تو چھوڑیں اپنے ایم این اے، ایم
پی ایز تک کو ہم سے ملنا دشوار ہوتاہے۔ لیکن جب ہم اقتدار سے باہر کئے جاتے
ہیں تو پھر ہمیں عوام یاد آجاتی ہے۔ ایسا صرف آپ نہیں کررہے بلکہ ہرسیاسی
جماعتوں کے بڑوں کا یہی وطیرہ ہے۔ اسی لئے حکومت کوئی بھی آئے جائے عوام کا
ردعمل نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے حالات ہر آنے والی حکومت کے دن سے ابتر سے
ابتر ہوتے جاتے ہیں آپ کو قدرت نے آخری مرتبہ عوام کی خدمت کرنے کا موقع
فراہم کیا لین آپ نے سو د پر 34ارب ڈالر کا قرضہ لے کر عوام کے منڈیٹ کی
توہین کے ساتھ ساتھ اﷲ سے جنگ کا اعلان بھی کیا ۔ ہماری معاشی ابتری کی بڑی
وجہ سودی نظام ، سودی قرضہ اور حکمرانوں کی ان قرضوں پر عیاشیاں، وزیروں،
مشیروں کی فوج ظفر موج ہے۔ اب آپ گلا پھاڑ پھاڑ کر جتنے بھی دعوے کریں وعدے
کریں ہونے والا کچھ نہیں ہے۔ عوا م کا جو درد اب معطل ہونے کے بعد اٹھاہے
اگر پہلے اٹھ جاتا تو عوام آج آپ کے ساتھ تمام ملک میں کھڑی ہوتی۔ ہمارے
عدالتی اور احتسابی نظام میں بے پناہ خامیاں ہیں۔ لوگوں کو برسوں انصاف
نہیں ملتا لیکن پیسے والوں کا علاج بھی مفت اور انصاف بھی فوری لیکن آپ نے
ان اداروں کی بہتری کی بجائے انہیں مزید تباہ کیا اور کرپٹ حلیفوں کے ذریعے
مزید بربادی کی۔ اب آپ جتنا بھی رونا روئیں احتجاج کریں، مظاہرے کریں لیکن
اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئی کھیت۔اب آپکے مظاہروں، عدلیہ اور فوج
پر لگائے جانے والے الزامات سے اداروں میں تصادم کی فضاء پیدا ہورہی ہے۔
خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ اگر غیر جمہوری عمل سے کوئی طالع آزما دوبارہ مسلط
ہوگیا ، جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ پوری
22کروڑ عوام ملک سے سرمایہ لوٹ کر جانے والے سیاستدان، جرنیل، جج، صحافی،
سرمایہ دار، بیوروکیٹ کا بلا امتیاز احتساب اور ملکی دولت واپس لانے کی
خواہ ہے اﷲ کرے کہ ہمارے احتسابی ادارے بلا امتیاز احتساب کرکے کرپشن کے نہ
رکنے والے سلسلے کو ملک سے نجات دلوائیں۔ |