غیر جمہوری قوتوں نے اپنی جگہ بنانے او رپھر بالادستی
پانے کے لیے بڑی لمبی جدوجہد کی ہے۔جمہوری قیادت کی ذر ا سی غلطیوں کو ان
غیر جمہوری قوتوں نے اپنی بہترین پلاننگ سے اپنے حق میں کیا۔اور پھر یہ
بالا دست ہوتی چلی گئیں۔ان کی کامیابی کو بددکے اس اونٹ کی کامیابی سے
جوڑا جاسکتاہے۔جومالک کی ناسمجھی سے ملنے والی سہولت کا ناجائزہ فائدہ
اٹھاتاہے۔جمہوری حکمرانوں کی معمولی کوتاہیوں نے اونٹ کو اپنی گردن خیمے
میں گھسانے کا موقع دیا اور پھر خیمے کے اندر کے مزے اونٹ کو اپنا قیام
بڑھانے پر اکساتے چلے گئے۔اب یہ اونٹ اتنا منہ زور ہوچکا ہے کہ مالک کو بے
دخل کرکے خود خیمے پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ایک لمبے عرصے سے یہ سلسلہ
چلتاآرہا ہے۔اب نوازشریف کی صورت میں ایک ایسا امکان نظر آرہاہے جیسے بدو
نئے سرے سے اونٹ کو خیمے سے باہر نکال کر اسے اس کی اصل جگہ پر باندھنے کی
کوشش میں ہے۔اونٹ کی بدقسمتی دیکھیے کہ کچھ اور باتیں بھی اس کے اندازے کے
برخلاف ہوتی چلی آرہی ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے ان غیر جمہوری قوتوں کی
تدبیریں الٹی پڑنے لگی ہیں۔ یہ غیر جمہوری قوتیں اپنی ہربات منوانے میں
ناکام سی نظر آئیں۔پہلے ایک چیف جسٹس نے ان قوتوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔اور
اب ایک جمہوری رہنما ان کے گلے کی ہڈی بنا ہواہے۔جمہوری حکمرانوں کے لیے ان
کے دورعموما مشکلات کے حامل رہے ہیں۔مگر جانے نوازشریف پر کیا غصہ تھا۔کہ
ان کا موجودہ دور میں غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے جمہوریت کو نشان عبرت
بنانے کی ایک نان سٹاپ کوشش کی گئی۔جتنی رسوا اس دور میں جمہوریت کی گئی۔اس
کی مثال نہیں ملتی۔اس غصے کی اصل وجہ بار بار نوازشریف سے جان چھڑانے کی
تدبیر ناکام ہوجاناہے۔مگر تدبیر کرنے والے بھی ہار ماننے پر آمادہ نہیں
ہورہے۔
نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد اگلی حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہیں۔اپنے
خلاف فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر چکے۔انہوں نے پینچ کی طرف سے فیصلہ
سنائے جانے کے وقت دو ججز کے یکا یکی شمولیت پر اعتراض اٹھایا ہے۔نیب کورٹ
پر سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کوبھی چیلنچ کیاہے۔اور سب سے بڑھ کر اس
ایشو کا ذکر کیا ہے کہ انہیں جس معاملے پر نااہل کیا گیا ۔اس کا ذکر مدعیوں
کی کسی پیٹیشن میں نہیں تھا۔سابق وزیر اعظم نے استدعا کی ہے کہ نظر ثانی کی
پیٹیشن کا فیصلہ آنے تک پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔نواز
شریف کی اس نظر ثانی کی اپیل پران کے مخالفین کی طر ف سے کڑی تنقید کی
جارہی ہے۔ سابق صدر پرویز مشر ف نے کہاہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے
کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔کنٹینر کنٹینر کرتے وہ
خود بھی کنٹینر ہوگئے ہیں۔سابق صدر کا کہنا تھا۔کہ وہ پاکستان میں ایک جلسے
کررہے ہیں۔جس میں وہ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔
سابق صدر پرویز مشرف کا انداز بیان سیاستدانوں والا ہے۔وہ سیاست کاشوق
رکھتے ہیں۔اوریہی شوق انہیں آہستہ آہستہ سیاسی چال چلن اور گفتگو کا فن
سکھا رہا ہے۔ان کی اب تک سیاست میں دال نہ گلنے کا سبب اس فن سے ناآشنائی
تھا۔جس وجہ سے وہ سیاست میں اب تک کوئی بڑی کامیابی نہ پاسکے۔وہ اب تک یہی
سمجھتے رہے کہ ان کا ادارہ ایک بار پھر انہیں ملک کا حکمران بنوادے گا۔ان
کی بغیر کچھ کیے سب کچھ پالینے کی خواہش ان کے سیاسی کیرئیر میں سب سے بڑی
رکاوٹ بنی۔اب وہ نئی حکمت عملی اختیار کرکے منزل پانے کی کوشش میں
ہیں۔انہیں وطن واپس آنے سے متواتر روکا گیا۔ان کے خیر خواہ انہیں باور
کراتے رہے کہ ان کے لیے اب قوت کے ایوانو ں میں وہ مقام نہیں رہا۔اب وہاں
نئے نام اور نئی شکلیںآچکیں۔مگر صدر صاحب اپنی فوجی میں نہ مانو فطرت کے
سبب سب نصیحتیں نظر انداز کرتے پاکستان لوٹ آئے۔انہوں نے اپنے ادارے کی طرف
سے دیے گئے مشورے نہ ماننے کی سزا پاکستان میں آکر پائی۔انہیں مسلسل نظر
بندی کا سامنا رہا۔نوازشریف دورسابق صدر مشرف کے لیے کسی ؑ عذاب سے کم نہ
تھا۔ان کے خواب ٹوٹ پھوٹ گئے۔ آزادانہ نقل وحمل سے محروم مشر ف بے بسی اور
لاچاری کی تصویر بن گئے۔موصوف آئے تو تھے کہ ملک گیر دھواں دھار دورے اور
خطابات کا خواب لیکر مگر وقت نے ثابت کیا کہ نوازشریف کے ہوتے۔یہ خواب
ہمیشہ خواب ہی رہیں گے۔سابق فوجی آمرنے رنگ تو کیا جمانا تھاالٹا مصیبت یہ
ہوئی کہ ہر وقت پرسش اور جیل جانے کا خوف الگ سے آن لاحق ہوا۔یہ بار بار
اپنے ادارے کی طر ف دیکھتے اور ان کا ادارہ ہر بار ان کی جلد بازیوں
پرٹوکتاہواان کی خلاصی کے لیے کوئی نئی پلاننگ ترتیب دینے میں مگن ہوجاتا۔
نواز شریف بظاہر ایک بار پھر ناکام ہوگئے۔عدالت کی طرف سے نااہلی کا فیصلہ
آنے کے بعدانہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔مگراپنی ناکامی کے باوجود وہ جمہوریت کی
مضبوطی کی ایک اور ینٹ رکھ گئے۔انہوں نے جمہوری حکمرانی کی بالادستی کو چار
سال قائم کیے رکھا۔ان چارسالوں میں ایک فوجی آمر نشان عبر ت بنا رہا۔مشر ف
کی اکڑ فوں خاک میں یوں ملی کہ نوازشریف نے اسے ریلیف دینے کی تمام
درخواستوں اور دھمکیوں کو مسترد کردیا۔ایک آمر کو اس قدر بے بسی کا سامنا
ہواکہ سوائے ملک سے بھاگنے کے اسے کوئی اور راہ نہ سوجھی ۔یہ سویلین
بالادستی کا ثبوت ہی تھاکہ مشرف کے وارثوں کے لیے سوائے جلنے بھننے کے کوئی
چارہ نہ بچا۔بیک ڈور تمام چینلز ناکام ہونے کے بعد ہی مشر ف کو باہر
بھجوانے کا فیصلہ کیاگیا۔ غیر جمہوری قوتوں کے لیے مشر ف کو مسلط کروانے
اور انہیں باس تسلیم کروانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا ناقابل برداشت تھا۔
یہ جمہوی قوتوں کی ایک ایسی فتح تھی جس پر جمہوری قیادت شاباشی کی حقدار
ہے۔ایک جمہوری رہنما نے عوامی مینڈیٹ کو اپنی قوت بناتے ہوئے مشرف کے سر سے
سیاست کا بھوت اتار کر رکھ دیا۔ |