امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نیوجرسی میں گولف ریزارٹ
بیڈمنسٹر میں گوام کے خوفزدہ باسیوں کویقین دلاتے ہوئے کہاکہ گوام کی
سرزمین پوری طرح سے محفوظ رہے گی اوراگرگوام کی سرزمین پرکچھ بھی
ہواتوشمالی کوریاکوبہت بڑی مصیبت کا سامناکرناپڑسکتاہے۔ شمالی کوریاکودہمکی
دیتے ہوئے کہاکہ پیا نگ یانگ کوآگ اورغصے کاسامناکرناپڑے گا۔امریکی فوج
شمالی کوریاسے نمٹنے کیلئےبالکل تیارہے ۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں
کہاکہ''عسکری حل اب بالکل موجودہے،''لاکڈ اینڈ لوڈیڈ'' کیا شمالی
کوریادانشمندی کامظاہرہ کرے گا؟امید ہے کم جونگ ان کوئی اورراستہ اختیار
کریں گے۔ٹرمپ نے مزیدکہاکہ وہ ہم منصب شی جن پنگ سے بات کرکے شمالی
کوریاپرمزیدسخت پابندیاں عائدکرسکتے ہیں۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ نے شمالی
کوریاپرمزیدپابندیاں عائدکرنے کی قراردادکومتفقہ طورپر تسلیم کیاتھاجس
پرکوریانے اسے اپنی''خودمختاری کی متشددخلاف ورزی''سے تعبیرکرتے ہوئے
امریکاکواس کی قیمت چکانے کی دھمکی دی تھی۔
شمالی کوریانے ٹرمپ پرجوہری جنگ کے دہانے پرپہنچانے کاالزام عائدکرتے ہوئے
اعلان کیاہے کہ گوام کے پاس کے علاقوں کوحصارمیں لینے والی آگ کے منصوبے کے
بارے میں غورکررہاہے جبکہ امریکی حکام کی جانب سے اس جزیرے کے رہائشیوں
کومیزائل حملے کے خطرے کے پیش نظراقدامات کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔خیال
رہے کہ گوام میں امریکاکے جنگی بمبارطیارے تعینات ہیں۔ادھرروس نے کہاہے کہ
واشنگٹن اورپیانگ یانگ کے درمیان دھمکیوں کاتبادلہ ہمارے لیے پریشانی
کاباعث ہے۔روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اس عسکری تنازعے کوانتہائی
شدیدنوعیت کاقراردیاہے اوراس کے حل کیلئے روس اورچین کے ایک مشترکہ منصوبے
کوپیش کیاہے۔دنیاایک مرتبہ پھردوایٹمی طاقتوں کے مابین جاری سردجنگ کے
تنازعہ سے بے یقینی کے خوف میں مبتلاہوگئی ہے۔
ادھرروسی صدر پیوٹن نے ایک حکم جاری کیاہے جس میں امریکاسے کہاگیاہے کہ وہ
روس میں اپنااضافی سفارتی عملہ فی الفورواپس بلالے جس کے بعد روس میں
تعینات امریکی سفاری عملے کی تعداد۴۵۵رہ جائے گی۔عالمی سیاست پرنظر رکھنے
والے حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ روس اورامریکاایک دوسرے کے پرانے رقیب ہیں۔اس
رقابت کی بنیادی وجہ روس کااقتصادی نظام تھاجوامریکا اورمغربی ممالک کے
سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کی ضدتھا جسے امریکااور مغرب میں مستحسن نظروں
سے نہیں دیکھاجاتاتھا۔اس اقتصادی اختلاف کی بناء پرکئی عشروں تک
امریکااورسوویت یونین کے درمیان سردجنگ جاری رہی بلکہ بسااوقات حالات بے
حدسنگین رخ اختیارکرتے رہے ہیں کہ عالمی برادری کوایٹمی جنگ کے ہلاکت آفریں
سیاہ بادل چھاتے نظر آنے لگے لیکن پھرکسی نہ کسی طرح معاملات عافیت کے ساتھ
طے پاتے رہے۔ابھی یہ کشیدگی جاری تھی کہ سوویت قیادت نے گرم پانیوں تک
رسائی حاصل کرنے کیلئے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کرنے کی سنگین غلطی
کربیٹھا۔اگرروسی زعماء ہوش سے کام لیتے اورجارحانہ مداخلت سے پہلے
افغانستان کی تاریخ کابغورجائزہ لے لیتے تویہ حماقت کبھی نہ کرتے ۔
افغانستان اورخاص طورپرقبائلی علاقہ وہ خطرناک ترین علاقہ ہے جہاں انگریز
بھی پورے ہندوستان پرقبضے کے باوجوداس علاقے پرتسلط نہ جماسکا اور بالآخر
اسے علاقہ غیرقراردینے پرمجبورہوگیا۔سوویت یونین کوعسکری مداخلت کی حماقت
کابالآخربڑابھاری خمیازہ بھگتناپڑاجواس کے لخت لخت کرنے کاموجب بھی
بنا۔امریکاکے استعماری عزائم نے اس مرحلے پرہوس ملک گیری کے تابع ایک نئی
کروٹ لی۔امریکانے اس صورتحال سے بھرپورفائدة اٹھاتے ہوئے مسلم نوجوانوں
کاجذبہ جہادبیدارکیااورافغانستان میں سوویت یونین کی افواج کے خلاف ایک
لمبی گوریلاجنگ شروع ہوگئی جس میں پاکستان نے صف اوّل کاکردارادا کیااوریوں
سوویت یونین کادنیاپرراج کرنے کےعزائم خاک میں مل گئے۔اس کے بعدسوویت یونین
شکست وریخت کاشکارہوکرکئی آزادریاستوں میں تقسیم ہوگئی اورسوویت یونین صرف
روس بن کررہ گیالیکن اس تاریخی تبدیلی کے باوجود روس اورامریکاکی مخاصمت
میں کوئی کمی نہیں آئی اوران دنوں توسردجنگ کا نیاسلسلہ خطرناک شکل
اختیارکرچکاہے۔امریکاسفارتی سطح پرروس کیلئے کئی مشکلات کھڑی کرتارہااورروس
بلاک میں شامل ملکوں میں انقلاب لاکرروسی بلاک میں دراڑیں ڈالتارہا۔حقیقت
کی نظرسے دیکھاجائے توشام کی خانہ جنگی میں بھی یہی سازش کارفرماہے کہ اس
خطے میں صرف شام ہی ایک ایساملک رہ گیاتھاجوروسی بلاک میں تھااورامریکایہاں
سے روسی اثرو نفوذ کے خاتمے کیلئے بشارالاسد کے درپے تھا۔
"ثبات تغیرہے زمانے میں''،شکست وریخت کاشکارروس بھی رفتہ رفتہ سنبھلتا
چلاگیااورروسی قیادت نے اپنی پالیسی میں یہ اہم تبدیلی کی کہ چین اور
پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے لگا۔روس کامقصداس خطے میں امریکاکے
مقابلے میں ایک مضبوط اتحادقائم کرناہے۔ایران پہلے ہی آیت اللہ خمینی کی
قیادت میں برپاکردہ انقلاب (۱۱فروری۱۹۷۹) کے ساتھ ہی امریکابلاک سے نکل
چکاتھااوراب روس کی جانب جھکاہواہے۔اس صورتحال میں امریکابھی اپنی شاطرانہ
چالیں چل رہاہے لہندااس نے بھارت کے ساتھ دوستی بڑھا لی اورچین ،پاکستان کے
خلاف تیارکرنے کیلئے اسے جدید ترین اسلحے سے لیس کرنا شروع کردیا۔خاص طورپر
ٹرمپ کے صدربننے کے بعدامریکانے اپنی بساط میں بھارت کو مرکزی کرداربنا لیا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف عالمی سازشوں کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔
امریکی سینیٹ نے اب روس،ایران اورشمالی کوریاپرنئی پابندیوں کابل منظورکر
لیاہے جس کے متعلق مغربی تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ
نیوکلیئرمعاہدے کوختم کرنے کے بہانے ڈھونڈرہاہے اورپابندیوں کاحالیہ بل جو
بظاہر روس اورشمالی کوریاپرپابندی عائدکرنے کیلئے دراصل اس کا ہدف ایران ہی
ہے۔ویسے توبل میں کہاگیاہے کہ روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش نظراس
پرپابندیاں سخت کی جائیں گی تاہم بل کے مطابق یورپ کی ایسی کمپنیاں جوروس
میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کررہی ہیں،ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہوں
گی۔بل کی یہ شق یورپین ممالک کی حمائت حاصل کرنے کیلئے شامل کی گئی ہے اس
کے ساتھ ہی سینیٹ میں منظورشدہ اس بل میں ایران پردہشتگردی کی حمائت کرنے
اورشمالی کوریاکی جانب سے مسلسل میزائل تجربات کے نتیجے میں ان ممالک
پرپابندیاں سخت کرنے کافیصلہ کیاگیاہے۔اس قانون کی توثیق میں صدرٹرمپ
کومشکلات کاسامناہوسکتاہے اوراس کی منظوری کے بعد روس کے ساتھ تعلقات
بہتربنانے کی کوشش کاعمل رک سکتاہے۔بل میں ایسی شق بھی شامل ہے کہ کانگرس
روس پرعائدپابندیاں نرم کرنے کاعمل روکنے کی مجازہوگی ۔سینیٹ میں منظورکی
گئی قراردادمیں ایران اورشمالی کوریاکے خلاف بھی نئی پابندیاں شامل کی گئی
ہیں،یہی وجہ ہے کہ ایران کوایک مرتبہ پھر پاکستان کی دوستی کی اشدضرورت پڑ
گئی ہے اوربھارت کی دوستی کانشہ بھی اتررہاہے۔ سیاسی حکمت کاتقاضہ ہے کہ
ایران کومثبت جواب دیتے ہوئے اس کو مسلم امہ کے اتحادکی طرف بھی راغب
کیاجائے جس سے عرب ایران تنازعہ میں پاکستان ایک قائدانہ کردارادابھی
کرسکتا ہے جواس خطے میں امریکاکی بہت بڑی پسپائی ہوگی۔
یہ توطے ہے کہ واشنگٹن سے سفارتی عملے کی تخفیف کے حکم پرعملدرآمد سے وہاں
۴۵۵سفارتکاررہ جائیں گے۔البتہ یہ واضح نہیں کہ اس وقت روس میں کتناسفارتی
عملہ ذمہ داریاں دے رہاہے اوراس میں جاسوس کتنی تعدادمیں ہیں۔ روس نے
ماسکوکے نواح میں واقع دو ایسی عمارتوں کوبھی قبضے میں لے لیاہے جوامریکی
سفارتکاروں کے زیراستعمال تھیں۔ علاوہ ازیں امریکانے ایران کی جانب سے کئے
گئے راکٹ تجربے کواشتعال انگیز سرگرمی اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں کے خلاف ورزی بھی قراردیاہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکااب ایران
کے خلاف بھی اعلانیہ جارحانہ عزائم رکھتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ پینٹاگون نے بھی
روس،چین،ایران اورپاکستان کے بڑھتے ہوئےبااعتماد تعلقات کو اپنے لئے سنگین
خطرہ قراردیاہوگااوراس کو کمزورکرنے کیلئے اس قسم کی سفارتی سازشوں
کاآغازکیاگیاہے۔
اب روس،چین،ایران اورپاکستان پربھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ امریکاسے
براہِ راست ٹکراؤسے بچتے ہوئے اسے کمزورکرنے کی حکمت عملی اپنائیں اور اسے
کمزورکرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ بھارت کوکمزورکیاجائے اوراس کا ایک
محفوظ وسیلہ تنازع کشمیرہے۔اب روس ،چین،ایران کو چاہئے کہ وہ بھارت
کامقبوضہ کشمیرپرناجائزتسلط ختم کرانے کیلئے سفارتی کوششیں تیزکریں۔اس وقت
روس اورچین سلامتی کونسل کے رکن ہیں۔پاکستان کوسلامتی کونسل میں
قراردادلانے کی تجویزدیں اورخوداقوام متحدہ کے چارٹرسات کے تحت قرارداد
منظورکریں۔امریکااس معاملے پر یقیناً دخل اندازی کرکے اسے ویٹوکرے گااور اس
صورت میں چین اورروس مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجوں کے مظالم کو انسانی حقوق
کی بدترین خلاف ورزی اور کشمیری عوام پرڈھائے جانے والے غیرانسانی مظالم
کوانسانیت کی تذلیل قراردیتے ہوئے بھارتی سرحدوں پرفوجی نفری بڑھائیں جبکہ
چین کے ساتھ تبت سکم پرپہلے ہی بھارت کاتنازع چل رہاہے اوروہاں ان کی فوجیں
آمنے سامنے ہیں۔ان میں جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں،اس لئے چین کوبھارتی سرحدوں
پرفوجی قوت بڑھانے کا موقع بھی حاصل ہے۔ادھر پاکستان بھی بھارتی سرحدوں
پراپنی فوجی نقل وحرکت میں اضافہ کردے۔اس فوجی نقل و حرکت کامقصدجنگ
کرنانہیں بلکہ بھارت پردباؤبڑھاناہو۔ اگرمقبوضہ کشمیربھارت کے چنگل سے
آزادکرالیاتوبھارت کی آدھی سے زیادہ قوت ویسے ہی ختم ہوجائے گی اور سوویت
یونین کی طرح بھارت بھی نصف درجن ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا۔پھراس خطے میں
امریکاکاکوئی ایجنٹ باقی نہیں رہے گااوریہ خطہ پرسکون فضامیں ترقی
اورخوشحالی کی راہ پرتیز رفتاری کے ساتھ گامزن ہوسکے گا۔
|