انتہائی متوازن سوچ اور رواداری کی دولت سے مالا
مال کشمیری وحدت پسندوں نے پاک۔ہند یوم آزادی کے موقع پر ایک بار پھر دونو
ں ملکو ں کی عوام کو آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے ان کے سرکاری اداروں کی
کشمیر کے حوالے سے گمراہ کن مہم پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ متعصب اور شاطر
ہندوستان صرف قومی تہواروں پر ہی نہیں بلکہ اپنے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر
کے بچوں کو بھی سکولوں میں پڑھاتا ہے کہ جموں کشمیر کا فیصلہ تقسیم ہند کے
وقت ہو گیا تھا لیکن پاکستان نے بعد میں اس فیصلہ کو مسترد کر کے عالمی سطع
پر کشمیر پر اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔ ایک طویل مدت یورپ میں رہنے کا ایک
فاہدہ یہ ہوا کہ ہر قسم کے ہندوستانی سے ملنے کا موقع ملا۔ مجھے زندگی میں
ایسے بہت کم ہندو ملے ہیں جو مسلہ کشمیر پر کسی دلیل کو سننے کے لیے تیار
ہوتے ہیں ۔ ان کی اکثریت ہٹ دھرم ہے جو مسلہ کشمیر پر کوئی بات سننے کے
بجائے چیخنا چلانا شروع کر دیتی ہے۔ غصہ تو ہم کشمیریوں کوآنا چائیے جن کے
ملک اور خاندانوں کو زبردستی تقسیم کر دیا گیا لیکن نفرت اور غصے کا اظہار
ہندوستانی کرتے ہیں۔دوسری طرف پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ ہمارا بڑا بھائی ہے
لیکن اسلام کے نام پر قائم کیا جانے والا ملک بھی بھائی چارگی پر کشمیریوں
کے ساتھ رشتے استوار کرنے کے بجائے اپنے اور اپنے زیر قبضہ کشمیر کے تعلیمی
اداروں میں جھوٹ پر مبنی نصاب پڑھاتا ہے۔ پاکستان صرف تعلیمی نصاب کے زریعے
ہی نہیں بلکہ اپنے قومی تہواروں میں بھی فوج کے زریعے ہمارے بچوں کو یہ
جھوٹ پڑھاتا اور سکھاتا ہے کہ جموں کشمیر پر ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا
لیکن پاکستان کی بہادر فوج نے کچھ علاقہ ہندوستان سے آزاد کروا لیا تھا جسے
اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتسستان کہا جاتا ہے۔ اگر پاکستانی فوج یہاں سے
نکل جائے تو ہندوستان فوری طور پر اس آزاد خطے کو ہڑپ کر لے گا۔ دوسری طرف
ہندوستان بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ اگر وہ اپنے زیر قبضہ کشمیر سے نکل گیا
تو پاکستان سارے کشمیر پر قبضہ کر لے گا۔ دوسرے لفظوں میں دونوں ملکوں کی
کشمیر میں افواج کی موجودگی صرف کشمیریوں کے لیے ہے ورنہ ہندوستان اور
پاکستان کو سرے سے کشمیر کا کوئی فاہدہ ہی نہیں ہے جبکہ آر پارجموں کشمیر
کا بزدل۔ اقتدار اور زر پرست ٹولہ اپنے بچوں کو اپنی تاریخ پڑھانے کے بجائے
اپنے آقاؤں کے موقف کی بے شرمی کی حد تک دفاع کرتا رہتا ہے۔ کسی ملک کوجب
کشمیر کی یاد آتی ہے وہ اپنے کسی رپورٹر یا ادارہ کے رکن کو کشمیریوں کے
ساتھ رابطہ کر کے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے
کہ کشمیری جہاں تھے وہاں ہی کھڑے ہیں اور جو رٹ تقسیم کشمیر کے وقت اقتدار
کی خاطر شروع کی تھی وہی جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ
ٹھیک انہیں وہاں ہی رہنے دو۔ اگر انہیں اپنے لوگوں کو مروانے کا ہی شوق ہے
تو کسی کو روکنے کی کیا ضرورت ہے۔
اب آئیے واپس ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے تاریخی جھوٹ کی طرف۔
ہندوستان کے اس دعوی میں کوئی صداقت نہیں کہ باقی ریاستوں کی طرح جموں
کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کے اس دعوی
میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتسستان کو پاک
فوج نے ہندوستان سے آزاد کرایا تھا۔ پاک ۔ ہند تقسیم سے بہت پہلے جموں
کشمیر کے عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف اپنے سیاسی حقوق کی جد و جہد کا آغاز
کیا تھا جبکہ گلگت بلتسستان کو ایک کشمیری فوجی افسر کرنل حسن مرزا کی
قیادت میں آزاد کرایا گیا تھا ۔ بعد ازاں آزاد کشمیر اور پاکستان کی
حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کراچی کے تحت پاکستانی فوج کو گلگت میں
مسلہ کشمیر کے حل تک داخلے کی اجازت ملی تھی۔ سن اکتیس میں ڈوگرہ راج کے
خلاف زور پکڑ نے والی تحریک کے نتیجے میں مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی۔
مسلم کانفرنس کے نام سے اس وقت یہ تاثر ملتا تھا کہ یہ صرف مسلمانوں کی
نمائندگی کرتی ہے جسکی وجہ سے اس وقت کی قیادت نے جموں کشمیر کے دوسرے مذہب
کے ماننے والوں کو بھی ساتھ رکھ کر ڈوگرہ جبر کے خلاف جد و جہد کی ضرورت پر
زور دیا جسکے نتیجے میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا
گیا لیکن اس پر زیادہ دیر اتفاق قائم نہ رہ سکا جسکی وجہ سے مسلم کانفرنس
کو سن اٹھتیس میں بحال کر دیا گیا۔ قانون آزادی ہند کے تحت ہندوستان اور
پاکستان کو جو علاقے دئیے گے ان میں وہ ریاستیں شامل نہ تھیں جو آئینی طور
پر ہندوستان کا حصہ نہ تھیں یا جو برٹش انڈیا میں شامل نہ تھیں۔ جموں کشمیر
ایسی ریاستوں میں ایک بڑی اور منفرد ریاست تھی جس کے مستقبل کا فیصلہ اسکی
اپنی عوام نے کرنا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکتھا
تھا کہ کشمیری عوام کسی بھی طرح بھارت کے ساتھ الحاق کو قبول نہیں کریں گے
لیکن بھارت نے اس وقت شادیانے بجائے جب بائیس اکتوبر سن سنتالیس کو پاکستان
کے قبائلیوں کو کشمیر میں داخل کر کے ہری سنگھ کی اپیل پر ستائیس اکتوبر
کوبھارت کو بھی جموں کشمیر میں فوجیں اتارنے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔
بھارت نے مہاراجہ کی طرف سے عارضی الحاق کی جس درخواست کو جواز بنایا اور
شیخ محمد اعبداﷲ نے خود غرضی کا مظاہر کرتے ہوئے توثیق کر کے قوم کو مصیبت
میں ڈالا اس عارضی الحاق کا مہاراجہ کشمیر کو کوئی اختیار نہ تھا کیونکہ
کشمیری عوام کی بغاوت کے نتیجے میں مہاراجہ کا اقتدار ختم ہو گیا تھا ۔ وہ
کشمیر سے بھاگ گیا تھا اور اس کے خلاف ایک متوازی حکومت کا اعلان بھی ہو
گیا تھا لیکن اب ہندوستان کی مکاری اور پاکستان کی بیوقوفی ملاحظہ فرمائیے۔
بھارت کسی بھی لحاظ سے کشمیریوں کا نماہندہ نہ تھا پھر بھی وہ کشمیریوں کا
کیس اقوام متحدہ میں لے گیا اور پاکستان کو کشمیر پر پہلے حملہ کرنے والا
مجرم ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرداد
کے مطابق جموں کشمیر میں رائے شماری کے وقت پاکستان اپنی پوری اور بھارت
کچھ فوج نکالے گا جبکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستان بھی پوری فوج نکالے
تاکہ رائے شماری کے وقت بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ کی گنجائش نہ
رہے۔ اقوام متحدہ کو کشمیریوں کا یہ مطالبہ نظر انداز کرنے کا کوئی حق نہیں
کیونکہ کشمیر کا وارث ہندوستان نہیں بلکہ ہم کشمیری ہیں۔ پھر بھی پاکستان
کے ادارے ہر جگہ ہمیں کمزور اور محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں
منافق لوگ اچھے لگتے ہیں جو پیسے لے کر قومی تہواروں پر پاکستان کا جھنڈہ
لہراتے رہیں۔ ہم بھی پاکستانی جھنڈے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم نہ ہی اس
جھنڈے کو اور نہ ہی مسلہ کشمیر کو ایک کاروبار کے طور پر استعمال کرنے کی
اجازت دے سکتے ہیں۔ بھارت کو کشمیریوں کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا
موقع اس لیے بھی ملا کہ پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت کی بنیادی حیثیت کو
تسلیم کرنے کے بجائے مسلم کانفرنس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت خود ایک فریق
ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا وکیل بھی بن گیا جواب اپنے موکل کی بات ہی نہیں
سنتا بلکہ حقیقت پسندانہ کشمیر پالیسی رکھنے والوں کے خلاف اندرون خانہ
منفی مہم چلا رکھی ہے جسکا زیادہ نقصان خود پاکستان کو ہو رہا ہے۔ |