سول ملٹری تعلقات، ٹکراؤ نہیں حل تلاش کریں

پاکستان جن حالات سے آج دوچار ہے یقینا ماضی میں کبھی نہیں رہا، ماضی میں بھی آمریت اور آمریت کے خلاف، جمہوریت اور جمہوریت کے خلاف حالات پیدا ہوتے رہے، عوامی رد عمل بھی آتا رہا اور عوامی قوت سے کبھی جمہوریت ختم ہوئی تو کبھی آمریت لیکن وجوہات تلاش کرنے اور انکے خاتمہ کیلئے کبھی کام نہیں ہوا۔ موجودہ حالات اس لئے زیادہ خطرناک ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی حکومت سڑک پر ہے جبکہ عموماً اپوزیشن سڑک پر ہوتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حالات ایک عدالتی فیصلہ کے بعد پیدا ہوئے جس میں وزیراعظم پاکستان کو نااہل قرار دیا گیا اور ابھی تک اشاروں کنایوں میں تو بات ہوئی مگر کھل کر کوئی نہیں کہہ رہا کہ اصل مسئلہ کہاں پر ہے لیکن حالات سول ملٹری تعلقات کی بدترین خرابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں ۔ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹروں نے جمہوریت حکومتوں کا تختہ الٹا تو انہوں نے جمہوریت میں موجود نقائص کو وجہ بنایا، کرپشن ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ہمیشہ رہی ہے جبکہ فرقہ واریت میں اضافہ، انتشار اور ملک خطرے میں دیگر تین بڑی وجوہات بتائی گئیں مگر ہمیشہ جب ڈکٹیٹرنے اپنا اقتدار جمہور کے حوالے کیا تو ملک میں کرپشن، فرقہ واریت، انتشار اور خطرات میں مزید کئی گنا اضافہ کر کے گیا، جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں کرپشن، فرقہ واریت، انتشار اور خطرات ماضی کے مقابلوں میں کئی سو گنا زیادہ ہوئے ۔ اسکی وجہ ہرگز یہ نہیں ہوتی کہ خدانخواستہ آمر ملک کا محب وطن نہیں ہوتا بلکہ بنیادی وجہ فرد واحد کی حکومت قائم ہونا ہے جس میں جمہور کی نمائندگی نہیں ہوتی یا پھر ہوتی بھی ہے تو محض اتنی کہ جمہور کے ذریعے لائے گئے عوامی نمائندے آمر وقت کی خوشآمد کر سکیں اور جاتے وقت اسکی برائیاں بیان کر سکیں۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے بلاشبہ بے پناہ ترقی کی، ملک میں انفراسٹرکچر کا قیام ایوب خان کے دور میں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ جو ایک بڑی غلطی اس دور میں ہوئی وہ بتدریج بنگالیوں کو قومی امور میں نظرانداز کرنا تھا جسکی وجہ سے نفرت بڑھتی بڑھتی ملک ٹوٹنے پر منتج ہوئی۔ بلاشبہ اس وقت مکتی باہنی نامی بھارتی فنڈڈ تنظیم نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا اور جلتی پر تیل ڈال ڈال کر مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے کی راہ ہموار کی مگر یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جلتی پر تیل وہیں پر ڈالا جاتا ہے جہاں کچھ جل رہا ہو۔ جنرل یحییٰ خان کی آمریت یوں تو انتہائی کم عرصہ کیلئے رہی مگر انکی قومی امور میں عدم دلچسپی اور انتظامی امور سے لاتعلقی کی بدولت ملک مزید خطرات سے دوچار ہوا ۔ جنرل ضیاء الحق ملک میں لبرلزم کے خلاف نعرہ لیکر اقتدار میں آئے تھے، انہوں نے بھی کرپشن کو اپنا بنیادی نقطہ بنایا تھا مگر جب گئے تو پاکستان میں ایک بڑی آبادی میں عدم برداشت، انتہاء پسندی چھوڑ گئے ، جنرل پرویز مشرف جب آئے تو کرپشن ، بدعنوانی اور ملک خطرے میں ہے کا نعرہ لیکر آئے مگر سب سے پہلا کام انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں تیار کی گئی فصل کے سامنے بندھ باندھ کر کیا جس کی وجہ سے وہ تمام طبقات جو سابق آمر کے دور میں پیدا ہوئے پاکستان کے ساتھ صف آراء ہو گئے، یقینا اگر انتہاء پسندی کے مقابلے روشن خیالی کا درس دینے والے پرویز مشرف جمہوری ہوتے تو وہ جمہور کی طرز پر اس فصل میں کمی کرتے اور ایک پالیسی بنا کر ملک کو بھی ٹکراؤ سے بچا لیتے اور پاکستان میں مرحلہ وار انتہاء پسندی کے خاتمہ کیلئے بھی کام کر لیتے مگر چونکہ وہ ڈکٹیٹر تھے لہذا انہوں نے وہی طرز عمل اختیار کیا جسکی ان سے توقع تھی اور اسکے نتائج آج پورا پاکستان اور قومی سلامتی کے ادارے بھگت رہے ہیں۔

آمریت کے مقابل جمہور بھی ہمیشہ کچھ مخصوص نعرے اور تحریکیں لیکر میدان میں آیا، جمہوری قوتوں نے ہمیشہ کچھ عرصہ آمریت کو جھیلا اور پھر صف آراء ہو کر جمہوریت بحالی کی تحریکیں شروع کیں۔ کہاجاتا ہے کہ بھٹو ، نوز شریف اور عمران خان آمریتوں کی کوکھ سے جنم لینے والے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی لیڈرشپ ہمیشہ ایسے ہی ادوار میں ابھر کر سامنے آتی ہے چاہے وہ آمر کے ساتھ رہی ہو یا آمر کے خلاف ہو۔ملک خطرے میں ہے، کرپشن میں اضافہ اور جمہور کی منشاء کے خلاف فیصلے ان تحریکوں کے بنیادی نکات رہے اور ان تحریکوں نے اتنا زور پکڑا کہ آمر کو اقتدار چھوڑ کر جانا پڑا مگر جمہوری قوتوں نے جمہوریت کی بحالی کے بعد ان نکات پر کوئی کام نہیں کیا جسکی بدولت ملک میں آمریت آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کی آمریت کے خاتمہ کے آٹھ سال بعد بھٹو کی جمہوریت خطرے میں تھی، ضیاء کی آمریت کے خاتمہ کے پندرہ سال بعد جمہوریت خطرے میں تھی اور مشرف کی آمریت کے خاتمہ کے نو سال بعد جمہوریت خطرے میں ہے۔ان جمہوری ادوار میں بھی آمر قوتوں کو طاقت ور کیا گیا اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی بھی کوششیں ہوتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں جمہوریت کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور 1973 کا آئین انکا ایک عظیم تحفہ ہے مگر انہوں نے بھی پاکستان کے آئین 1973 میں ایسے نکات چھوڑے جنکی مدد سے آمریت اقتدار تک پہنچ سکے ۔ ملک کے تمام اداروں کیلئے آئین سازی کر لی اور آئین میں ان اداروں کا کردار اور حدود قیود واضح بھی کر دیں مگر ملک کے سب سے بڑی اور عوام کیلئے قابل فخر ادارے کیلئے انہوں نے آئین میں واضح حدود قیود مقرر نہیں کیں اور نہ ہی جمہور کے لئے کوئی واضح حدود قیود مقرر کیں کہ ملک میں طاقت کا توازن برقرار رہ سکتا۔ ضیاء الحق کے جانے کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے باہمی مقابلوں میں فوج کو ملوث کیا جاتا رہا اور یہ میں نہیں کہتا پاکستان کی تاریخ کہتی ہے۔ ان ادوار میں بھی جمہور کی مضبوطی کی بجائے جمہور کی طاقت ختم کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں جس کے صلہ میں جنرل پرویز مشرف وارد ہوئے۔جنرل پرویز مشرف گئے تو ملک واقعی خطرات میں گھرا ہوا تھا، افغانستان کی جانب سے طالبان کی فوج حملہ آور تھی تو بلوچستان میں بھارتی ایجنسیاں پوری طاقت سے کام کر رہی تھیں اور علیحدگی پسندی میں خطرات حد تک اضافہ ہو چکا تھا، ملک میں کرپشن کا ناسور جوان ہو کر کینسر کی شکل اختیار کر چکا تھا مگر جمہوریت بحالی کے بعد مشرف کو گاڈ آف آنر پیش کر کے رخصت کیا گیا جو یقینا سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہو سکتی تھی اور اچھی روایت بھی مگر اس کے بعد جمہور کی مضبوطی کیلئے اداروں کا قیام نہ کیا جاسکا۔ زردار ی دور میں جمہور کی مضبوطی کیلئے اٹھارہویں ترمیم ایک بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں اور صدر کی طرف سے اپنے اختیار پارلیمان کو تفویض کرنا بھی پاکستان میں جمہور کیلئے بہت بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔ ان آئینی ترامیم سے غیرجمہوری قوتوں کے جمہوری نظام میں داخل ہونے کے کافی راستے بند ہوئے مگر اگلی حکومت نے وہاں سے آگے کا سفر شروع نہیں کیا۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے چار سال کے دور میں آئینی ترامیم پر بالکل توجہ نہیں دی، پارلیمان کو کمزور بنایا ، پارلیمان کی ضرورت انہیں صرف مخصوص حالات میں رہی اور یہ یقینا نواز شریف کی اہم ترین غلطیاں قرار دی جاسکتی ہیں۔ اب وہ روئے ہیں اور خوب روئے ہیں، انہوں نے پاکستان میں وزرائے اعظم کی مدت مکمل نہ ہونے کا بھی واویلہ کیا ہے ، جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشوں کا بھی ذکر کیا ہے مگر یہ نہیں بتا رہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ،

میاں نواز شریف کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور ملک کی دیگر چھوٹی جماعتیں بھی انکی اتحادی تھیں، ایسی تمام آئینی ترامیم جو جمہوریت کی مضبوطی اور آمریت کا راستہ روکنے کے لئے ہوتیں تو پیپلز پارٹی بھی حکمران جماعت کے ساتھ کھڑی ہوتی مگر میاں نوازشریف کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان سے سنگین غلطیاں ہوئیں ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے چار سالہ دور حکومت میں کوئی جمہوری ادارہ مضبوط نہیں کیا سوائے ملک کے اہم بڑے مسائل کے خاتمہ کی سنجیدہ کوششوں کے۔ میاں نواز شریف پاکستان میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ، دہشت گردی کے خاتمہ اور روزگار کے نعرے لیکر اقتدار میں آئے تھے اور یقینا اس منشور میں انہوں نے بڑی حد تک کامیابیاں سمیٹیں مگر جن مسائل کے حل کا وہ کریڈٹ لیتے ہیں اور بلاشبہ انہیں لینا بھی چاہئے وہ محض دو تین وزارتوں کا کریڈٹ ہے، بجلی میں اضافہ وزارت پانی بجلی، دہشت گردی میں کمی وزارت داخلہ و دفاع ، سی پیک وزارت خارجہ و صنعت و حرفت وغیرہ اور موٹر وے اور میٹرو بسیں وزارت شاہرات و ٹرانسپورٹ کا کریڈٹ ہو سکتا ہے مگر ملک میں وزارت قانون سمیت لگ بھگ 50 وزارتیں موجود تھیں اور اگر ان وزارتوں کے امور کی بات نہیں ہو رہی تو اسکا مطلب یہی ہے کہ ان وزارتوں میں ٹھیک طرح سے کام نہیں ہوا۔

ان تمام خرابیوں کا ذکر کرنے کا مطمع نظر ہرگز یہ نہیں کہ نواز شریف پر تنقید برائے تنقید کرنا یا آمریت کو برا بھلا کہنا بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے بڑے اور بااختیار ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے، سب سے بڑی ضرورت ملک میں ایک بااختیار اور باکردار احتساب کا ادارہ بنے جس میں فوج کی بھی نمائندگی ہو، پارلیمان کی بھی اور عدلیہ کی بھی اور وہ ادارہ ملک میں ان تینوں ستونوں کا احتساب کر رہا ہو جبکہ اسکے ذیلی ادارے ملک میں نچلی سطح تک احتساب کریں ۔ وہ ادارہ اس قدر بااختیار ہو کہ اسے شواہد حاصل کرنے کیلئے کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہ رہے بلکہ شواہد اسکے پاس چل کر آرہے ہوں اور جب شواہد کافی ہو جائیں تو وہ ادارہ حرکت میں آئے اور جو جتنا بھی بااثر ہو اسے گرفتار کرے اور ان شواہد کی بنا پر دنوں میں اس کو سزا سنائی جا رہی ہو۔ پاکستان میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا ادارہ موجود ہے مگر متحرک نہیں، جدید دنیا میں ملکی سلامتی کے ادارے متحرک ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کو متحرک کرنے اور اس میں ایسے تھنک ٹینکس لانے کی ضرورت ہے جو بااختیار ہوں اور غیرمتنازعہ بھی، وہ ملکی سلامتی کی پالیسیوں سمیت دیگر قومی نوعیت کی پالیسیوں پر اپنی رائے دیں ، سول ملٹری تعلقات ایسے اداروں کی متحرک ہونے سے بہتر بھی ہونگے اور ملکی سلامتی کو درپیش مسائل سے بھی نمٹا جاسکے گا۔اسی طرح پاکستان میں وزیراعظم کے ماتحت ایک ادارہ ایسا بھی بننا چاہئے جو تمام وزارتوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کر رہا ہو اور اسکی رپورٹ پر کابینہ اراکین سے بھی پوچھ گچھ ہو رہی ہو۔

آپ پاکستان جیسے ملک میں نہ تو سول ملٹری تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں اور نہ ہی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر برتری دے سکتے ہیں بلکہ ان دونوں حلقوں میں بہتر تعلقات اور دونوں کے مابین کشیدگی کے خاتمہ کے لئے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی پوری قوم جیسے سیاست دانوں کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے بالکل اسی طرح پاکستان کی پوری قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ بھی کھڑی ہوتی ہے اور پاکستان کے جغرافیائی حالات نہ تو پاکستانی فوج کی قدر ومنزلت میں کسی قسم کی کمی کی اجازت دے سکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ریاست کے تینوں ستونوں کو ملک بیٹھ کر موجودہ حالات کا جائزہ لینا ہوگا اور ملک میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم استحکام کے خاتمہ کیلئے ذاتی اناؤں کو پاؤں تلے روندھ کر ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا ، اﷲ ہمارے وطن کو سلامت رکھے۔
 

Attiq Ahmad Sadozai
About the Author: Attiq Ahmad Sadozai Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.