پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر میں میاں نوازشریف کاجگہ جگہ ہزاروں لوگوں
نے والہانہ استقبال کیا۔ 280 کلومیٹر طویل اِس ریلی میں میاں صاحب صرف ایک
ہی بات دہراتے نظر آئے کہ اُنہیں بے جرم وخطاتیسری بار گھر بھیج دیا
گیا۔اُنہوں نے کہا کہ یہ اُن کی نہیں بلکہ اُن ووٹرز کی رسوائی ہے جنہوں نے
اُنہیں بار بار منتخب کیا اور ہر بار وہ زورآوروں کے پنجۂ استبداد سے گھائل
ہوئے۔ اُنہوں نے سوال کیاکہ وہ ووٹ کی حُرمت کے لیے نکلے ہیں،کیا قوم اُن
کا ساتھ دے گی؟۔ جواباََ لبّیک لبّیک کی صدائیں فضاؤں میں گونجتی رہیں اور
میاں نوازشریف اپنی مقبولیت کے اِن مناظر سے سرشار۔ وہ جب سات سالہ جلاوطنی
کاٹ کر واپس آئے تو اُنہوں نے ایک روز اَز راہِ تفنن کہا ’’لوگ کہتے تھے کہ
قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے
کوئی نہ تھا‘‘۔ اب کم از کم میاں صاحب کو یہ گلہ تو نہیں رہے گاکہ لوگوں نے
اُن کا ساتھ نہیں دیا ۔میاں صاحب ہی کی سیاسی جماعت کے کچھ اصحاب اُن کے جی
ٹی روڈ پر سفر کو محض حماقت قرار دے رہے تھے ،یہ خوف دامن گیر کہ اگر خلقِ
خُدا نے توجہ نہ کی تو پھر ۔۔۔۔۔؟۔ لیکن یہ میاں نوازشریف کی جرأتِ رندانہ
اور تیقین کی انتہا تھی کہ وہ ڈٹے رہے ۔پہلے دِن کا سفر ابھی اپنے اختتام
کو بھی نہ پہنچا تھاکہ ریلی کی ناکامی کا شور اُٹھا ،طنز کے تیروں کی بارش
ہوئی اور کہا جانے لگا کہ لوگ باہر ہی نہیں نکلے ۔جب یہ کاروان راولپنڈی کے
کمیٹی چوک پرپہنچا تو ہزاروں لوگ جمع ہو چکے تھے جو والہانہ انداز میں اپنے
قائد سے کیا گیا عہد نبھانے کی قسمیں کھا رہے تھے ۔پھر چشمِ فلک نے دیکھا
کہ جوں جوں کارواں آگے بڑھتا گیا ،متوالوں کی تعداد میں بھی ناقابلِ یقیں
اضافہ ہوتا گیا۔چار گھنٹوں کا یہ سفرجب 100 گھنٹوں میں طے کرکے میاں
نوازشریف داتا دربار لاہور پہنچے تو اِس ریلی کے تاریخی ہونے پر مہرِ تصدیق
ثبت ہو چکی تھی۔ ایک غیرملکی ’’مولوی ‘‘ اگر یہ کہتا ہے کہ ریلی میں پانچ
سے سات ہزار لوگ شامل تھے تو اُس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ لاہور
ہائیکورٹ اُسے ’’جھوٹ بولنے کانفسیاتی مریض‘‘ قرار دے چکی ہے۔خلیل جبران نے
کہا ’’حق دو اشخاص کا محتاج ہوتا ہے ۔ایک وہ جو اُس کا اظہار کرے اور دوسرا
وہ جو اسے سننے کی تاب لا سکے‘‘۔ لیکن جہاں آنکھوں پر بغض ،کینہ ،عداوت اور
تعصب کی پٹی بندھی ہو ،وہاں بھلا حق کیسے اور کیوں کر نظر آ سکتاہے ۔مولانا
صاحب بھی اِسی مرضِ بَد میں مبتلاء ہیں اس لیے اُن سے صرفِ نظر ہی بہتر ہے۔
کپتان صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج کی حمایت میں نوازشریف کی
ریلی سے دَس گنا زیادہ لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں۔ بجا ! لیکن اُنہیں روکا کِس
نے ہے؟۔ میاں صاحب کی مقبولیت کے بے مِثل مظاہرتو ہر کس وناکس پر عیاں ہو
چکے، اب کپتان کی باری ہے۔لیکن اُنہیں یاد رکھنا ہوگا کہ پھول کو اپنے وجود
کے اظہار کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحنِ چمن میں جب بہار
آتی ہے تو معطر فضائیں ہی ہر راز سے پردہ اٹھا دیتی ہیں البتہ کاغذی پھول
خواہ کتنے ہی دلکش ہوں ،اُن میں خوشبو نہیں ہوتی۔ پیپلزپارٹی نے روٹی ،کپڑا
اور مکان کا نعرہ لگایا اور کپتان نے نئے پاکستان کا۔ بظاہر دونوں نعرے ہی
بہت دلکش تھے لیکن عمل کی خوشبو سے تہی۔اسی لیے پیپلزپارٹی سندھ تک ہی
محدود ہو کر رہ گئی۔ اور کپتان ایک چھوٹے صوبے کو بھی سنبھال نہ پایا۔
کپتان نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کی ریلی میں شریک لوگ بیوقوف تھے۔ جی ہاں!
عقلمند تو صرف وہی جو وزارتِ عظمیٰ پر کپتان کا حق تسلیم کریں ،اُنہیں
ارسطوئے دوراں اور قائدِاعظم ثانی سمجھے ،باقی سب بیوقوف۔
اسلام آباد سے لاہور تک کے اِس سفر میں میاں نواز شریف نے بار بار کہا ’’
عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے وزیرِاعظم منتخب کرتے ہیں اور چند لوگ اُنہیں
رسوا کرکے نکال دیتے ہیں ۔پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی ایک وزیرِاعظم
کو بھی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا موقع نہیں ملاجس سے صاف ظاہر ہے کہ
عوامی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔ تاریخِ پاکستان کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے
کہ بدقسمتی سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ملّی بھگت نے کسی حکومت کو بھی کھُل
کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ہر حکومت کے سر پر ہمیشہ زور آوروں کی تلوار
لٹکتی رہی اور اگر کسی نے چوں چرا کی تو اُسے رُسوا کرکے نکال دیا گیا ۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اِس میں کچھ قصور سیاستدانوں کا بھی ہے جو ووٹ کی
پرچی کے حصول کے بعد پیچھے مُڑ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ لاریب یہ
بھی ووٹ کی بے حرمتی ہے اور یہ بے حرمتی کروانے کے ذمہ دار ووٹرخود ہیں
جنہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ ووٹ کی حُرمت کِس چڑیا کا نام ہے۔ علامہ اقبالؒ
نے مثالی ریاست کا جو تصور پیش کیا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ مثالی ریاست’’
ہجومِ مومنین‘‘ کا نام نہیں بلکہ ہر وہ ریاست مثالی ہے جس کا سربراہ ’’مردِ
مومن‘‘ ہو ۔اقبالؒ مردِ مومن کی بہترین مثال خلفۂ راشدین کو قرار دیتے ہیں
۔گویا صرف وہی شخص اسلامی ریاست کا سربراہ بن سکتا ہے جو اعمالِ صالح کے
لحاظ سے اپنے دَور میں بسنے والے لوگوں سے افضل تَرہو ۔اب ہر ووٹر اپنے دِل
کی گواہی لے لے کہ جس شخص کو وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سرفراز کرنے جا رہا ہے
،کیا وہ اعمالِ صالح میں سب سے بزرگ وبَرتر ہے؟۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر
آرٹیکل 62/63 کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے ۔رہی اِن آرٹیکلز کو آئین سے نکالنے
کی بات تو یہ تو ہمارے دین کا جزوِلایَنفک ہیں ۔حضورِاکرم ﷺ نے فرمایا کہ
کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں سوائے اِس کے
کہ اُس کے اعمال صالح ہوں۔ اعمال سے مراد وہ اقوال و افعال ہیں جو انسان کی
معاشی ،معاشرتی اور مذہبی زندگی کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ گویا یہ اصول
وضوابط ہر عاقل وبالغ پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ پھر یہ صرف اُن اصحاب کے لیے
کیوں جو کسی انتخاب میں حصّہ لینا چاہتے ہوں ،بلاامتیاز سبھی کے لیے کیوں
نہیں؟۔ ہمارے لیے افواجِ پاکستان اور عدلیہ انتہائی محترم لیکن معصوم عن
الخطا تو کوئی بھی نہیں۔ پھر کیا افواجِ پاکستان اور عدلیہ سے محض اِس لیے
صرفِ نظر کیا جائے کہ یہ زورآوروں کے مسکن ہیں جہاں آئین کے بھی پَر جلتے
ہیں۔ اگر آرٹیکل 62/63 کو اُن کی پوری توانائیوں کے ساتھ لاگو کرنا ٹھہر
گیا تو پھر اِن کی زد سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا کیونکہ درمیان میں چودہ
صدیاں حائل ہیں۔اِس لیے اِن آرٹیکلز کو دَورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق
ڈھالنا ہوگا۔
|