پانامہ کے ہنگامے میں آخر کار سابق وزیر اعظم کو گھر بھیج
دیا گیا جو کہ ایک عدالتی فیصلے کے بعد ہی ممکن ہو سکا اس کیس میں دونوں
اطراف سے خوب بحث ہوئی اور دونوں پارٹیوں نے اپنی تئیں پورا زور لگایا جس
کے بعد ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں اعلیٰ عدلیہ نے وزیر اعظم کو ناہل
قرار دے کر ان سے منصب چھوڑ دینے کا کہا گو کہ مسلم لیگ ن نے منصب چھوڑا
مگر فیصلے کے بعد ان کا رویہ اس قدر جارحانہ ہوا کہ ایسے لگتا ہے کہ یہ
نظام کو لپیٹ دینے کی بات کر رہے ہیں اسی سلسلے میں سابق وزیر اعظم نے
اسلام آباد سے لاہور تک ریلی نکالی اور اس پوری ریلی میں اس نالائق بچے کی
طرح ایک ہی رٹ لگائے رکھی جو ہر بار یہی کہتا ہے کہ اسے نہیں پتا کہ استاد
اسے کلاس سے کیوں نکال دیتے ہیں حالانکہ وہ ریگولر کلاس اٹینڈ کرتا ہے ایسا
ہی کچھ میاں صاحب کے فرمان سے لگ رہا تھا انھیں ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ
رہی کہ انھیں نکالا کیوں گیا ہے ۔یا تو حقیقت میں ان کو سمجھ نہیں ہے یا
پھر وہ ان باتوں سے اداروں کو پریشر میں لانے کا سوچ رہے ہیں اگر دونوں
باتیں درست مان لی جائیں تب عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیامیاں
صاحب نے تیس پینتیس سال پتا نہیں کیسی سیاست کی اور کیسے وہ حکمران بنے رہے
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو اگر انھوں نے چیلنج کرنا ہی تھا تو پھر اتنی بڑی
سرکاری وسائل سے بھر پور ریلی کا انعقاد کیا ہی کیوں یہ بات تو وہ ڈی چوک
میں یا موٹر وئے چوک میں بھی کر سکتے تھے اگر ان کا دل نہیں مان رہا تھا تو
پنجاب میں تین چار بڑے جلسے کر کے ہی کثر نکال سکتے تھے مگر انھوں نے اتنی
بڑی ریلی معزرت کے ساتھ بڑی تعداد کے حساب سے نہیں بلکہ بڑی طوالت کے حساب
سے لکھ رہا ہوں کی اور اس میں سے نکلا کیا یہی ایک جملہ کے مجھے کیوں
نکالا،مجھے کیوں نکالا ۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد سے لے کر لاہور تک ریلی اس اعتبار
سے ناکام ترین ریلی تھی جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کی حد تک تو کوئی
جوش وجزبہ نہیں تھا نا ہی سیاسی اور نہ ہی اخلاقی شاید اسی بات پر ناراض ہو
کر میاں صاحب نے بہت سارے مقامی ایم این اے اور ایم پی ایز کی خوب ٹھکائی
کی اور وہ لوگ جوصبح شام ان کی مداح سرائی کرتے تھے آج کل ٹی اور ٹاک شوز
سے غائب ہو چکے ہیں اس ریلی کے دوران انہوں نے اپنی مختلف تقاریر میں جس
جدوجہد کی بات کی اور عوام سے ساتھ دینے کے عہد کئے یہ بات ناقابل فہم ہے
ان کے سیاسی مخالفین اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اپنی تقاریر کے ذریعے
انہوں نے عوام کو عدلیہ کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے جو قابل تشویس ہے
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان کی پارٹی کے وفاق میں حکومت ہے ملک کے سب سے
بڑے صوبے پنجاب میں بھی وہی حاکم ہیں پھر ایسی ریلی کا کوئی جواز باقی نہیں
رہتا اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ریلی سے عوام میں شعور بیدار ہو گا تو یہ
دیوانے کے خواب جیسا ہے کیا ایک شخص کو ہی جمہوریت سمجھ لیا گیا ہے یا اگر
نواز شریف اقتدار میں ہے تو جمہوریت ہے اور اگر نہیں ہے تو آمریت ہے۔ مناسب
یہی ہے کہ وہ قانونی جنگ لڑنے کے اپنے عزم پر قائم رہیں اور معاملات کو اس
سے آگے نہ لے کر جائیں' جمہوریت اگر مثالی نہ سہی تو بھی خوش آئند ہے کہ
ملک ایک بہتر سمت چل پڑا ہے جوں جوں جمہوریت آگے بڑھے گی یہ استحکام حاصل
کرتی جائے گی اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں گے ہماری بدقسمتی ہے کہ
یہاں زیادہ عرصہ مارشل لاء میں گزرا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے پاس
سوائے قانونی راستہ اختیار کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے دوسرے راستے ملک
اور قوم کے خسارے کی طرف جاتے ہیں اس لئے موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت
مکمل کرنے کے لئے تحمل سے کام لینا ہوگا یہی نہ صرف اس کے بلکہ ملک و قوم
کے مفاد میں ہے انتخابات تک مزید دورانیہ کو معاشی بہتری اور مزید
کامیابیوں کے لئے استعمال میں لایا جانا چاہیے لیکن اگر اس کے برعکس محاذ
آرائی کے راستے کا انتخاب کیا گیا تو جو کچھ اب تک قوم نے حاصل کیا ہے وہ
بھی تلپٹ ہو کر رہ جائے گاسابق وزیراعظم نواز شریف کو اس پر بھی غور کرنا
ہوگا کہ پیپلزپارٹی جس کے ساتھ ماضی میں انہوں نے میثاق جمہوریت کیا اور جس
سے مکالمے کی صورت بنتی تھی اس نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ مسلم
لیگ (ن)کے ساتھ ہرگز مکالمہ نہیں کرے گی ایک ایسی صورتحال میں جبکہ کوئی
موثر سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے لئے آمادہ نہیں ہے اور اس کے
ساتھ مل کرکام کرنے کے لئے تیار نہیں دانشمندی یہی ہے کہ محاذ آرائی کے
بارے میں سوچنے سے بھی گریز کیا جائے۔ ریلی کے دوران سابق وزیراعظم کا جو
بھی لب و لہجہ تھا اب اس سے گریز کرنا چایے سابق وزیراعظم کو جو وقت میسرہے
اسے کسی محاذآرائی کے بجائے اپنی پارٹی کی حکومت کو مزید کامیابیوں کے لئے
استعمال میں لایا جانا چاہیے۔ہمیں آزاد ہوئے ستر سال ہو چکے ہیں مگر ہم آج
بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پوری دنیا میں اہمیت نظام کی ہے کہ فرد
کی نہیں اور جو قومیں نظام کے بجائے افراد کو اہمیت دیتی ہیں وہ پیچھے رہ
جاتی ہیں بد قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شخصیات
اپنی من مانی کے لئے نظام کو تہس نہس کر دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ستر
سالوں سے ہم یہی دیکھتے اور سنتے آ رہے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے، ہم حالت
جنگ میں ہیں، خزانہ خالی ہے، اور ہمیں اقتدار میں رہنے کی ضروت ہے، یہی وہ
جملے ہیں جو ہر آنے والا حاکم دہراتا ہے اور ہر جانے والا حاکم بھی یہی
دہراتا ہے عوام آج بھی اپنے حقوق کے لئے خوار ہو رہے ہیں اور حاکم آج بھی
موج کر رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سمجھیں کہ کامیانی نظام کی مضبوطی
میں ہے افراد نے تو ایک نا ایک دن چلے جانا ہے اس ملک نے اس نظام نے ہمیشہ
قائم رہنا ہے سو ایسے میں نظام کو لپیٹنے کی باتیں کرنے سے ہم جمہوریت کے
ساتھ ساتھ ملک کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔ |