آپریشن نہیں فزیوتھراپی

کراچی کے ہر سیاسی عارضے کا علاج آپریشن تجویز کیا گیا، کبھی پکا قلعہ آپریشن ہوا، کبھی جنرل نصیر اختر اور وزیر داخلہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر کے بنائے ہوئے انسداد دہشت گردی کے نام پر ماورائے عدالت قتل (Extra Judiciary Killing)کو قانونی شکل دے کر ہزاروں نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں کراچی میں آپریشن کے نام پر ریاستی دہشت گردی کو فروغ دیا گیا

ہمارے ملک میں ہر مرض کا علاج آپریشن تجویزکیا جاتا ہے کیونکہ مسیحاؤں کے نزدیک مرض اور مریض سے چھٹکارا پانے کا یہی ایک سہل اور منفعت بخش طریقہ ہے۔ آپریشن سے ہم خود بھی اسی طرح سے خائف رہتے ہیں جیسے چھوٹے بچے انجکشن کی سوئی سے۔ چند سال قبل ہمیں گردن میں تکلیف محسوس ہوئی تھی جسے ہمارے معالجین نے گردن کے مہروں کا عارضہ (Cervical Spine Disorder)تشخیص کیا۔ مذکورہ مہرے اسی طرح ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں جس طرح شطرنج کے مہرے شطرنج کی اور سیاسی مہرے اقتدار و حزب اختلاف کی بساط پر براجمان ہوکر شہ اور مات والاکھیل کھیلتے ہیں۔ جسم کا سارا اعصابی نظام بھی شطرنج اور سیاسی مہروں کی طرح ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا محتاج ہوتا ہے جسے گردن کے پچھلے حصے میں موجود حرام مغزانتہائی باریک رگوں کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے، یہ رگیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے نیچے سے گزرکر پورے جسم کے اعصابی سسٹم کو چلاتی ہیں۔ بعض اوقات مذکورہ مہرے بھی مریض کے اعصابی نظام کو زِیر و زَبر کرکے شہ و مات والا کھیل کھیلتے ہیں۔ زیادہ تر طبی ماہرین اس حسّاس نوعیت کے مرض کو آپریشن کی بجائے فزیو تھراپی سےکنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ سرجیکل انسٹرومنٹس کا ذرا سا بھی اوچھا ہاتھ پورے جسمانی نظام کو مفلوج کردے گا۔ بہت سے امراض ایسے ہیں جن کا علاج آپریشن کے بغیر ناممکن ہوتا ہے، مثلاً کینسر کا علاج ادویات(Medication therapy)،کیمو تھراپی سمیت مختلف تھراپیز سے کیا جاتا ہے، آخری کوشش کے طور پر کینسر زدہ حصے کو ریڈیو ایکٹیو شعائیں گزار کر جھلسا دیا جاتا ہے لیکن اگر اس کے باوجود بھی ناکامی ہو تو متاثرہ عضو بذریعہ آپریشن جسم سے الگ کردیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں آپریشن کے بعد مرض اپنی جگہ برقرار رہتا ہےکیونکہ اس کی جڑیں پورے جسم میں پھیل چکی ہوتی ہیں اور مریض، مرض کو جسم سے لگا کر جان سے گزر جاتا ہے۔

لاقانونیت،کرپشن، منافع خوری اور ملاوٹ سمیت بے شمار اخلاقی، معاشرتی اور سماجی بیماریاں سرطان کی صورت میں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کے علاج کے لئے آپریشن ضروری ہےمگر ہمارے قومی معالجین نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ پارلیمانی ایوانوں میں موجود اہل فکر و دانش نے قوم کی مسیحائی کا بھی بیڑا اٹھایا ہوا ہے لیکن وہ بیشتر مریضوں کو تشخیصی عمل سے گزارے بغیر خطرہ جان قسم کے حکماء و اتائی ڈاکٹروں کے مشورے سے جراحت کے عمل سے گزارتے ہیں جس کے اکثر منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ماضی و حال میں زیادہ تر آپریشن ملکی ایوانوں میں موجود ’’طبی ماہرین‘‘ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کئے گئے جن سے مطلوبہ نتائج تو برآمد نہیں ہوسکے لیکن لاتعداد انسانی جانیں ضائع ہوئیں ۔
چند روز قبل ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹ کے ایک معزز رکن یا خطرہ جان قسم کے حکیم نے کراچی کی صورتحال کے علاج کے لئے آپریشن کی تجویز، قرارداد کی صورت میں پیش کی اور ایوان میں موجود ’’بقراط‘‘ قسم کے اراکین نے کراچی کے ’’سقراط‘‘ کو زہر کا پیالہ پلانے جیسے اقدامات کی توثیق کردی۔ سیاسی بزرجمہر اس قرارداد پر خاموش ہیں جبکہ ہمیں ملک و قوم کا درد رکھنے والے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی کی خاموشی پر حیرت ہے جنہوں نے چند روز قبل ایوان میں وفاقی وزیر داخلہ جناب رحمن ملک کے پیش کردہ انسداد دہشت گردی کے ترمیمی بل کو ریاستی دہشت گردی کی قانونی شکل قرار دیا تھا اور وزیر داخلہ کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پارلیمنٹ ایسےکسی بھی قانون کو منظور نہیں کرسکتی جس میں انسانی حقوق کی پامالی اور عوام کے قتل عام کا لائسنس مانگا جارہا ہو اور انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل درحقیقت ریاستی دہشت گردی کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے جس کی کسی صورت منظوری نہیں دی جاسکتی‘‘۔ مسلح افواج کے سربراہ نے کراچی میں فوجی آپریشن کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایوان بالا سے منظور ہونے والی قرارداد کراچی کے شہریوں کے سروں پر تلوار بن کر لٹکی ہوئی ہے کیونکہ آئین کے تحت سول حکومتیں کسی بھی وقت فوج کوکارروائی کے اختیارات دے سکتی ہیں۔

ہم اپنے قومی معالجین کو مروجہ طبی اصولوں کی روشنی میں باورکرانا چاہیں گے کہ امراض کے علاج سے قبل مریض کی طبعی کیفیت (Physically Condition)جانچنے کے لیے اس کی کیس ہسٹری معلوم کی جاتی ہے، پھر اسے طبی ریکارڈ کا حصہ بنا کر اس کی روشنی میں مرض کے علاج کا طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے ۔ کراچی کے امراض کی ہسٹری سابقہ مشرقی پاکستان کو لاحق عارضے سے خاصی مماثلت رکھتی ہے جہاں پہلے بدامنی، ناانصافی اور احساس محرومی کے جرثومے پھیلا کر بیماری کو مہمیز دی گئی۔ جب مرض تشویشناک حد تک بڑھ گیا تو اس کا علاج آپریشن سے کیا گیا ۔ بےرحمی اور شقی القلبی سے کئے جانے والے آپریشن کا نتیجہ پاکستان کے جسم کے ایک حصے کے سقوط کی صورت میں برآمد ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کے بعد بھی زیادہ تر طبی عوارض کو آپریشن کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے مرض میں تو افاقہ نہیں ہوا البتہ مریض پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور مملکت کی قومی و ملّی یکجہتی کا شیرازہ بکھرتا رہا۔ اگر ہم کراچی کی کیس ہسٹری کا مشرقی پاکستان کی اُس وقت کی صورتحال سے موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ شہر ابتدا ہی سے معاشی، معاشرتی و سماجی ناانصافیوں و ناہمواریوں کا شکار رہا۔ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ہی اقتدارکے ایوانوں میں محلاتی سازشیں شروع ہوگئیں، ملک کے تیسرے گورنر جنرل مَلک غلام محمد نے اپنی ذہنی و جسمانی معذوری کی وجہ سے ملک کے جمہوری نظام کو مفلوج کردیا تھا جبکہ ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے دور حکومت میں روزانہ حکومتیں بنتیں اورگرائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے حکمرانوں کو ملکی مسائل پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ ان کی عدیم الفرصتی کا خاتمہ اکتوبر 1958ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لاء لگا کرکیا۔ 1964ء کے انتخابات میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ، ایوب خان کے مخالف امیدوار کے طور پر سیاسی میدان میں آئیں، ملک کی رائے عامہ محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں تھی لیکن انتخابات میں انجینئرڈ نتائج مرتب کرنے کا آغاز بھی اسی دور سے کیا گیا اور مادر ملّت کو شکست سے دوچار کراکے جمہوری عمل پر قدغن لگائی گئی۔کراچی کے شہریوں کے دل و دماغ سے ایوب مخالف جرثوموں کو نکالنے کے لئے ان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان کی قیادت میں مختلف آبادیوں میں ’’آپریشن‘‘ کیا گیا جس کی تاب نہ لاکر لاتعداد شہری ہلاک ہوئے جبکہ قیمتی املاک کو نقصان پہنچا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی میں سہراب گوٹھ کے مقام پر اسلحہ و منشیات کے بین الاقوامی گڑھ کے خاتمے کے لئے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے نام سے آپریشن ہوا۔ اس کا نتیجہ ایک جی تھری رائفل اور ایک کلو ہیروئین کی صورت میں برآمد ہوا لیکن کراچی کے شہریوں کے لئے وہ آپریشن Reactکرگیا اورآپریشن سے بچ نکلنے والے گروپوں نے مذکورہ جدید ہتھیار علی گڑھ، قصبہ اور بنارس کی آبادیوں پر ’’جوابی آپریشن‘‘ کے لئے استعمال کئے جس میں سینکڑوں مرد و زن و بچے ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد بھی کراچی کے ہر سیاسی عارضے کا علاج آپریشن تجویز کیا گیا، کبھی پکا قلعہ آپریشن ہوا، کبھی جنرل نصیر اختر اور وزیر داخلہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر کے بنائے ہوئے انسداد دہشت گردی کے نام پر ماورائے عدالت قتل (Extra Judiciary Killing)کو قانونی شکل دے کر ہزاروں نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں کراچی میں آپریشن کے نام پر ریاستی دہشت گردی کو فروغ دیا گیا۔ کراچی میں پھیلی ہوئی جس بیماری کے انسداد کے لئے اس شہر میں آپریشن تجویزکیا گیا ہے، یہ بیماری درہ آدم خیل اور قبائلی علاقوں سے پورے ملک میں پھیلائی گئی ہے، ہمارا تو مشورہ ہے کہ پہلے بیماری کی جڑ کا خاتمہ کیا جائے ۔ ملک کی سنگین صورتحال کے پیش نظر کراچی سمیت ملک کا کوئی بھی حصہ کسی بھی آپریشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کراچی کے آپریشن کو ناک، کان، گلے (E.N.T) کی طرح کا معمولی آپریشن نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ مہروں (Spines) کی طرح کا سنگین آپریشن ثابت ہوگا اور نشتر کا ذرا سا بھی اوچھا ہاتھ پورے ملک کی زندگی کی روانی کو مفلوج کردے گا اس لیے اس کے علاج کے لئے سابق پارلیمنٹیرینز، اسمبلی سے باہر موجود جماعتوں کے قائدین اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں سے مشاورت کرکے کراچی کی بیماری کا فزیوتھراپی سے علاج کیا جائے۔


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.