لالا اسد پٹھان میرے چینل میں سکھر شہر کے بیورو چیف ہیں
، ان کی شخصیت نہایت نفیس، مہذب، با اخلاق، با کردار، سچے اور کھرے صحافی
بھی ہیں، انسان دوست اور ہمدرد جذبے کے مالک ہیں، بار ہا بار ملاقات کا بھی
شرف رہا ہے ،سکھر پریس کلب کے کئی بار صدر بھی رہ چکے ہیں اور اب بھی ہیں،
صھافیوں کے حقوق میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ شفاف سیاست اور حب
الوطنی سے سرشار بھی ہیں، ادارے اور مالکان سے مخلص اور محنتی بھی ہیں، ان
میں قائدانہ صلاحیت کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہے ، آج میرے فیس بک میں لالا اسد
کی تحریر موجود تھی جسے میںحرف با حرف اپنے قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں
اس کے بعد اپنا تجزیہ پیش کرونگا، لا لا اسد پٹھان تحریر کرتے ہیں ۔۔۔الطاف
حسین کے نام ۔۔۔۔ہند اور سندھ پر جب انگریز سرکار قابض ہوئی تو اس وقت سے
انڈو پاک کے بسنے والوں نے ان کے ظالمانہ تسلط اور آمریت کے خلاف طویل
سیاسی و مزاحمتی جنگ کا آغاز کیا تھا ، سیاسی محاذ پر قائد اعظم محمد علی
جناح ، مہاتما گاندھی ، خان عبدالغفار خان ، لیاقت علی خان ، جی ایم سید ،
مولانا محمد علی جوہر ، عبداللہ ہارون ، حسن علی آفندی سمیت کئی نامور اور
سینکڑوں گمنام رہنماؤں اور کارکنوں نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ، انگریز
سرکار کے ظلم و ستم ، جیل، اور دیگر تکالیف کا سامنا کیا تھا ۔۔دوسری طرف
انگریز سرکار کے اس غاصبانہ تسلط کے خلاف موجودہ پاکستان میں حروں کے
روحانی پیشوا "سورھیہ بادشاہ "المعروف پیر پگارہ ، غازی علم الدین شہید ،
بھگت سنگھ سمیت ہزاروں نامور اور گمنام وطن پرستوں نے نہ صرف اپنی جانوں کے
نزرانے پیشن کیے بلکہ انگریز سرکار کو برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کر دیا
۔۔۔۔آج اسی خطے پر قائم موجودہ پاکستان جس کے قیام کے لئے سب سے پہلے جی
ایم سید نے سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی اور قائد اعظم کی لازوال
سیاسی جدوجہد کے نتیجے میںہمارا مشترکہ وطن وجود میں آیا ، اس میں کوئی شک
نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دنیا کی بڑی ہجرت کی صورت میں اردو
بولنےوالوں کے ہزاروں خاندان سندھ میں آئے اور مقامی لوگوں نے ان کو اپنے
دلوں میں نہ صرف جگہ دی بلکہ سندھ سے انڈیا جانے والے ہزاروں سندھی ہندو
خاندانوں کے بھرے ہوئے گھر ، دکانیںاور دیگر املاک دیں ، آج سندھ کے شہروں
اور دیہی علاقوں میں اردو بولنے والے سندھیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے ۔۔۔۔بدقسمتی
سے ضیا آمریت کے دور میں جنم لینے والے لیڈر الطاف حسین نے لسانیت کی
بنیاد پر سندھی پنجابی ، پٹھان ، بلوچ اور اردو بولنے والے سندھیوں میں
نفرت کی دیوار کی تعمیر کا آغاز کیا ، جو بعد میں حقوق پھر الگ صوبہ اور
اب آمریکی تھنک ٹینک کے مدد سے پاکستان اور بالخصوص سندھ کی تقسیم کی صورت
میں الگ ملک کا خواہشمند ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حکومتوں کی غلط
پالیسیوں کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے ۔۔۔
مگر ایک بات میں الطاف حسین صاحب کو بتا دینا چاہتا ہوں " گیدڑ کی جب موت
آتی ہے تو وہ شہر کا روخ کرتا ہے " پاکستان تو دور کی بات ، سندھ کی جانب
تم سمیت تمھارے یہ انگریز اور یہودی آقاؤں نے کبھی بھول کر بھی حملہ آور
ہونے کی کوشش کی تو یہاں رہنے والے سندھی چاہے ان کی زبان سندھی ، اردو،
بلوچی ، پشتو، سرائیکی یا پنجابی ہو خدا کی قسم تم سمیت انگریز سامراج کو
"چھٹی کا دودھ یاد نہ دلایا اور انڈو پاک والی وہ آزادی کی جنگ جس میں
سورھیہ بادشاہ" کی قیادت میں انگریز سرکار کو صرف سندھی بولنے والے ہزاروں
وطن پرستوں نے "منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا تھا " اب تو صرف سندھ کی
آبادی پانچ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے ان کا سامنا کرنا تیرے اور تیرے
بیرونی آقاؤں کے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔ویسے بھی اب تو اردو بولنے
والےسندھی بھی تیرے روز روز کے ڈراموں سے تنگ آ چکے ہیں اور آپ کا اصل
چہرہ بھی منظر عام پر آ گیا ہے ۔۔پاکستان زندہ باد۔۔ سندھ پائندہ
باد۔۔معزز قائرین!!لالا اسد پٹھان نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنے
جذبات کی بہترین عکاسی کی ہے میں ان کے جذبہ حب الوطنی کی قدر کرتا ہوں اور
دعا گو ہوں کہ اللہ ان کے درجات و مرتبات میں مزید اضافہ کرے!! معزز
قائرین!میرے والد محترم سردار حسین صدیقی علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ پاس
تھے اپنے زمانہ طالبعلمی میں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور قائد
اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں اپنے خدمات کو پیش کیا، والد محترم دو
ہی شخصیت کو بہت پسند فرماتے تھے ایک قائد اعظم محمد علی جناح دوسرے شاعر
مشرق علامہ اقبال ، یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال کی تمام رعبایات ، دیوان
اور نظمیں زبانی حفظ تھیں، سن انیس سے چھپن میں بھارت کے شہر مراد آباد سے
پاکستان ہجرت کرکے خیرپورمیرس آباد ہوگئے یاد رہے خیرپور میرس ایک زمانے
میں ریاست تھی، خیرپور میرس میں محکمہ تعلیم کو جوائن کیا اور ناز پائلٹ
ہائی اسکول میں استاد مقرر ہوئے، پچاس، ساٹھ اور ستر کی دھائی تک ناز پائلٹ
ہائی اسکول میں پڑھاتے رہے، پھر مختلف شہروں میں ٹرانسفر ہوتے ہوئے آخر
میرپورخاص میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ، والد
محترم کے کئی نامور شاکرد ہیں جنھوں نے تعلیم حاصل کرکے پاکستان کے مختلف
محکموں میں اپنی خدمات پیش کی ہیں اور کررہے ہیں۔۔۔
معزز قائرین!! میرے پیارے دوست لالا اسد پٹھان کو بآور کرنا چاہتا ہوں کہ
جب الطاف حسین نے اے پی ایم ایس او کی بنیاد ڈالی تو مجھے یاد ہے کہ انھوں
نے اسے نیا فتنہ قرار دیا تھا اور اردو بولنے والے لوگوں کی بدبختی کا
اشارہ کردیا تھا کیونکہ ان کے مطابق یہ جماعت لونڈہار پارٹی تھی کوئی
سنجیدہ شخصیت سامنے نہیں تھی ، نا پختہ ذہن کی بنا پر آپ کا کہنا تھا کہ
یہ جماعت بہت جلد دشمنوں کا آلہ کار بن سکتی ہے، تحریک پاکستان کے کارکن
اور علیگیرین سردار حسین صدیقی آج دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا تجزیہ سو
فیصد سامنے آگیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہجرت کرنے والے اکثر تعلیم کےزیور
سے مالا مال ہیں اور وہ تعلیم کی اہمیت کو بہتر اندازمیں سمجھتے ہیں، ان کا
یہ بھی کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں ہم تحریک
پاکستان کا حسہ رہے لیکن قائد کا حکم تھا کہ تعلیم میں ہرج ہرگز نہ آنے
دینا ، سردار حسین صدیقی نے ہمیشہ تعلیم کو سب سے زیادہ فوقیت دی ، آپ
کہتے تھے کہ سیاست کرو تو قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح ، کیونکہ قائد
اعظم کی سیاست میں سچائی، ایمانداری، عہد وفائی تھی، والد محترم نے ہمیشہ
اپنے کام سے وفا کیا اور سچائی پر گامزن رہے، آپ کہتے تھے کہ محنت کرو
اورصلحہ اللہ پر رکھ دو کوئی اگر حق تلفی کرتا بھی ہے تو وہ کبھی بھی
کامیاب نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ معزز قائرین !! اس بات کا قطعی انکار نہیں کہ ہجرت
کرنے والے لوگوں کیساتھ سندھ کے باسیوں نے انصار کی طرح سلوک کیا، یہی وجہ
ہے کہ ایک طویل عرصہ تک سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والی قومیں ایک جان
دو روح کی شکل میں تھے لیکن دشمنان پاکستان کو یہ محبت و پیار ، ہم آہنگی
اور اخوت برداشت نہیں ہوئی ، دشمنان پاکستان نے سازشوں کا ایسا جال بکھیرا
کہ آپس میں نہ صرف اردو بولنے والی قوم بلکہ تمام قوموں کے درمیان عصبیت،
تعصب، عداوت، منافقت، نفرت، دوری اور شکوک و شہبات میں مبتلا کردیا ،
پاکستان کی مختلف زبان بولنے والوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے،یاد رکھنے کی
بات تو یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں سندھ کے اندر سب سے پہلے لسانی جھگڑے
کرائے گئے ،تاریخ بتاتی ہے کہ اردو بولنے والوں اور سندھیوں کے درمیان اس
قدر نفرت کا بیج بویا گیا کہ وہی سندھی جنھوں نے انہیں انصار کی طرح
رکھاتھا نفرت اور عصبیت میں اس قدر بڑھ گئے کہ اردو بولنے والوں کو کراچی
اور دیگر شہروں میں دھکیل دیا اور گاؤں سے بیدخل کردیا، یہ نفرت کا سلسلہ
وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور سندھ کی سیاست نے اس میں مزید منفی کردار
ادا کیاہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر سمجھداری کا ثبوت دیتے تو جان لیتے
ہجرت کرنے والی قوم مر تو سکتی ہے مگر واپس ہرگز نہیں جائیگی تو پھر کیوں
نہ انہیں ان کا حق دیا جائے لیکن ایسا نہ ہوا، اسی خلا میں ایم کیو ایم نے
اس قوم میں جگہ بنالی وقت اور کے ساتھ ساتھ اس قوم کیساتھ ابتک نا انصافی
کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے ، تعلیم ہو یا ملازمت دروازے اب بھی بند ہیں کوٹہ
سسٹم آج تک قائم ہے کیا پنجاب ، بلاچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان میں
دہی اور شہری کا نظام نہیں تو پھر وہاں کوٹہ سسٹم کیوں نہیں رائج ہے، یہ
بھی حقیقت ہے کہ اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم نے سوائے مایوسی اور
بدنامی کے کچھ نہیں دیا اور اب کئی حصوں میں منقسم ہونے کے باوجود اس قوم
کی تباہی کیلئے مزید خواب دکھا رہے ہیں ، اگر ایم کیو ایم پاکستان، حقیقی،
پی ایس پی اس قوم کی مخلص جماعت ہوتی تو یقینا ً یہ ملازمتوں، تعلیمی
اداروں میں میرٹ کو اہمیت دیتی لیکن ان جماعتوں نے ان لوگوں کو بڑے عہدوں
پر فائز کیا جو رشوت، کرپشن اور لوٹ مار کے ماہر تھے انہیں نہ سندھ سے اور
نہ ہی پاکستان کی ترقی سے لگاؤ ہے دوسری جانب سندھی قوم کی سیاسی جماعتوں
نے بھی نہ اپنے لوگوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ ہی سندھ میں اردو بولنے
والوں کیساتھ ، آج سندھ میں بے پناہ کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور جہالیت
پھیلی ہوئی ہے ، تعلیمی ادارے میں تعلیم نام کی نہیں، نا اہل اساتذہ ہیں،
تقرریاں رشوت اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں، پرموشن ہوں یا دیگر امور
تمام میں رشوت کے بغیر کام مکمل نہیں ہوتا، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں
کئی سالوں سے برسرِ اقتدار میں ہے لیکن ہر دور میں حتیٰ کہ اب تک تمام وزرا
نے سوائے لوٹ مار کے کچھ مثبت تعمیری کام نہیں کیا ہے، آج سندھ سیکریٹریٹ
کے تخلق ہاؤس میں بائیو میٹرک سسٹم کردیا گیا ہے جہاں پر سرکاری ملازمین
سے روز انہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جارہا ہے ، سندھ حکومت میں چیک
آف بیلنس ہی نہیں ہے، بیانات سے تعمیری امور نہیں ہوتے ، تعمیری امور عملی
اقدامات سے ہوتے ہیں ، میرے دوست میرے قلیق لالا اسد پٹھان تمام تر بات
بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں انہیں چاہیئے کہ تاریخ کے آئینہ کو سچائی اور
حقیقت کی دنیا سے بھی بیان کرتے ، اگر اردو بولنے والوں کو بھی ان کا حق مل
جاتا تو یقیناً ایم کیو ایم بنتی ہی نہیں لیکن کیا آج کے دور میں سندھ کے
برسرِ اقتدار رہنے والے انصاف پسند ہیں کیا نا کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ
تمام سندھ کے شہریوں کو مساوی حقوق بہم کرنا ، کیا اس صوبے کا وزیر اعلیٰ
صرف ایک قوم کا وزیر اعلیٰ ہے یا گورنر ایک قوم کا ہے ،اس سوچ اور اس نظریہ
سے باہت نکلنا ہوگا اگر پی پی پی نے اپنا طریقہ کار نہ بدلا تو ممکن ہے کہ
پی پی پی بھی پی ایم ایل نون کی طرح اپنی ساکھ کھو بیٹھے، صوبے سندھ پر آج
ستر سال بعد ایک اردو بولنے والے کا وہی حق ہے جو ایک سندھی بولنے والے
کاہے کیونکہ اب نسل یہیں پیدا ہوئی ہے ،یہیں روزگار کرتی ہے اور یہیں مر کر
دفن بھی ہوتی ہے ہجرت کرنے والوں کی ایک نہیں دو نہیں تیسری نسل چل رہی ہے
، اسٹبلشمنٹ ہو یا بیروروکریٹس یا سیاستدان انہیں سندھ اور پاکستان کی ترقی
کیلئے اردو بولنے والی قوم کی صلاحیت کو مثبت انداز میں حق دینا ہوگا
کیونکہ حق تلفی کیلئے خود اللہ نے نا پسند کیا ہے ، کسی کی حق تلفی زیادہ
عرصہ خود پستی کی علامت سمجھی جاتی ہے ، میرٹ یعنی اہلیت کو فوقیت دینی
ہوگی، سندھ سے لسانیت کے کلچر کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا، تعلیمی اداروں سے
نقل اور بورڈ میں پوزیشن کی قیمتوں کو بریک لگاناہوگا پھر کہیں جاکر ہم
ترقی کے سفر پر چل پڑیں گے بصورت یہ سیاستدان سندھ اور سندھ میں بسنے والے
تمام قوم کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ماضی و حال کی طرح رہیں گے ، اللہ سندھ
میں بسنے والی تمام زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان محبت، اخوت، بھائی
چارگی کا جذبہ پیدا کردے اور عدل و انصاف کے علاوہ حقوق کا احترام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین ثما آمین ۔۔۔۔پاکستان زندہ باد، سندہ پائندہ
باد۔۔۔۔!! |