کشمیر کازکے لئے ہر کوئی اپنی قربانیوں کو سب سے زیادہ
قرار دیتا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر سے بھی تحریک میں کلیدی کردار
ادائیگی کی آوازیں اٹھتی ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت بھی کشمیر کے لئے اپنے
فوجیوں کی قربانیوں کا دعویٰ پیش کرتا ہے۔ ان دعوؤں کا مقصد کشمیر پر اپنا
حق جتلانا ہے۔ دوبئی کانفرنس میں اگر بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی بات بھی
کی گئی ہو مگر بھارت کے ایک سبکدوش ائر وائس مارشل کا یہ منڈیٹ نہیں کہ وہ
کشمیر سے متعلق کسی کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے میں اپنا کوئی کردار دا کر
سکے۔ وہ ریاست کے سرکاری موقف کا بھی دفاع کرنے کی پوزیشن میں شاید نہ ہوں۔
جہاں تک تعلق پاکستان اور آزاد کشمیر کی نمائیندگی کا ہے تو اس کا پوزیشن
سب پر عیاں ہے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ دہلی حکومت کرتی ہے۔ اتفاق رائے کس نکتہ
پر ہو سکتا ہ۔ یہ شاید زیادہ کار آمد سلسلہ نہیں۔ سغت گیر بی جے پی کے
وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تک کسی حل تک نہ پہنچ سکے۔ اگر چہ جنرل(ر)پرویز
مشرف نے واجپائی حکومت کے ساتھ کشمیر ک کسی حل کا ایک فارمولہ بھی طے کر
لیا تھا۔ مگر اس میں رکاوٹ ڈالنے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ بنی۔ کیوں کہ ان کا
کاروبار اس مسلہ س وابستہ ہے۔ کاروبار ہی نہیں بلکہ بھارتی فوج کی اہمیت ہی
مسلہ کشمیر کے زندہ رہنے سے ہ۔ یہی نہیں بھارت کشمیر کو دنیا بھر میں اپنی
سفارتی اور فوجی طاقت کو بروئے کار لانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت کا
سرحد پار دہشت گردی پر واویلا اور خاص طور پر مغرب کو متاثر کرنے کی کوشش
کشمیر سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ اس لئے واجپائی یا کوئی بھی سیاسی یا انتہا پسند
قوت آسانی سے اپنی بات منوانے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔بھارت کی جانب
سے اسلحہ کی دوڑ، میزائل یا دفاعی نظام ہی نہیں تما م جنگی نظام مسلہ کشمیر
کی موجودگی اور پاکستان سے ٹکراؤ کی وجہ سے ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے کسی
ٹریک ٹو یا بیک چینل ڈپلومیسی کو اس طرح سامنے لانا یک طرفہ خوش فہمی ہی ہو
سکتی ہے۔ یا اس سے زرا زیادہ ایک بہکاوا ہے۔
کشمیر پر بھارت کا قبضہ اس لئے جائز نہیں ہو سکتا کہ اس کے فوجی کشمیرمیں
مارے گئے۔ یہ جواز درست نہیں۔ آزاد کشمیر کا تحریک میں کردار ہے۔ سرکاری
طور بھی یہ تعاون اور حمایت بظاہر چند ایام یا چند مظاہروں تک ہی محدود ہے۔
جب کہ ایسا بیانیہ شاید کلی طور نا مکمل ہو۔ یعنی اگر ایک مکان کے ایک کمرے
میں آگ لگی ہو، شعلے بلند ہو رہے ہوں، دوسرے کمرے کے مکین تماشہ دیکھیں یا
سستی اور بے خبری کا مظاہرہ کریں یہ مکان راکھ کے ڈھیر میں بنے گا، کوئی اس
کی زد سے کیسے بچ پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر سے یہ بجا شکایت کی
جاتی ہے کہ اسے بیس کیمپ کا کردار ادا کرنے کے بجائے فروعی معاملات میں
الجھا دیا گیا ہے۔ اگر آزاد کشمیر کے صاحبان اثر علاقائی عصبیت کی عینک
اتار کر صورتحال کو پیلیٹ سے آنکھیں محروم ہونے والوں کی نظر سے دیکھیں تو
کچھ سچائی آشکارہو سکتی ہے۔ جیسے کہ یہاں کے عوام کا اخلاص بے مثال ہے۔
کشمیری عوام اگر آپس میں ہی لڑتے رہیں گے تو 70سال یوں ہی راتوں رات کی بات
قرار پائیں گے۔
دوبئی کانفرنس میں بھی انٹرا کشمیر ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کی گئی ہو گی۔
مشاورت، دوسرے کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے۔ سب کو اس پر اتفاق ہے کہ
کشمیر میں رائے شماری ہو۔ لیکن بھارت ، لداخ، جموں کی رائے مختلف ہے۔ ہو
سکتا ہے کہ جموں اور لداخ سے تعلق رکھنے والے مندوبین منتظمین کا دل رکھنے
کے لئے ہاں میں ہاں ملاتے رہیں، مگر یہ مجموعی طور پر عوامی رائے نہیں۔
بلکہ گمراہ کن تاثر ہے۔ یہ فریب اور دھوکہ دہی بھی ہے کیوں کہ اس سے آراء
کی گمراہ کن وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر کسی کانفرنس میں رائے عامہ کو ہموار
کرنے والے کسی اتفاق پر پہنچتے ہیں تو اس کا نتیجہ خیز ہونا قدرے آسان ہو
سکتا ہے۔ ورنہ نشستند، خوردن، گفتند اور برخاستند والی مثال ہی پیش کی جا
سکتی ہے۔ جس کے بارے میں روایتی مذاکرے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ کیوں
کہ یہ سب سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ جب تک کشمیر اور پاک و بھارت کے
پارلیمنٹیرینز کو کسی ایک سٹیج پر جمع نہیں کیا جاتا اور ان کی سفارشات پر
کسی لوک سبھا، قومی اسمبلی یا ریاستی اسمبیلوں میں بحث نہیں کی جاتی تب تک
سٹیٹس کو کا ٹوٹنا محال ہو گا۔ اس مرحلہ کو سر کرنا کسی معرکہ سے کم نہیں۔
یہ غلط فہمیاں، عدم اعتماد، قیاس آرائیاں اور سودا بازی یا عیاشی کے
الزامات نئے نہیں، بلکہ برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ سانپ کے ڈسے رسی سے بھی
محتاط رہتے ہیں۔ کوئی کسی پر کیسے اعتبار کرے۔یہ تاریخ کے ساتھ مذاق ہے کہ
پنڈت کلہن کی راج ترنگنی جیسی دیومالائی اور درباری تصنیف کو یہاں تاریخ
قرار دیا گیا۔جس کے جا بجا حوالہ جات دیئے جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ
سچ کو مسخ کردیا گیا۔ آتش چنار شیخ محمد عبداﷲ کی وفات کے کئی برس بعد ان
کی خود نوشت کے طور پر منظر عام پر لائی گئی۔ جس میں اہم معاملات پر پردہ
ڈالا گیا جن کا جاننا اس قوم کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ مگر دہلی کی خوشودی
کے لئے سچ کو چھپا دیا گیا۔ آج اگر کشمیر پر کشمیری دوبئی ، شارجہ، یا دنیا
کے کسی کونے میں بات چیت کرتے ہیں تو اسے مسلہ کشمیر کے حل کی جانب کوئی
قدم قرار د کر عوام کو مزید گمراہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔یہ کاوش اچھا قدم
ہو سکتا ہے مگر اگر قتل عام اور ریاستی دہشتگردی کے بجائے سرھد پار
دہشتگردی یا عسکریت کو ہی مسلے کی جڑ قرار دیا جاتا ہے تو ایک فریق دنیا کو
اس نرمی یا یک طرفہ فریب سے گمراہ کرتا ہے اور اسے اپنے حق میں یا اپنے
مظالم کے جواز میں بطور اسلحہ استعمال کرتا ہے۔ اس بارے میں بات چیت کے
حامی کیا موقف پیش کریں گے۔ کس طرح نقادوں کو مطمئن کیا جا سکے گا۔ بھارتی
ریاستی دہشتگردی کی مخالفت نہ کرنے سے مسلہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ تا ہم
اگر کوئی اقوام متحدہ کے زیر انتظام کشمیر میں رائے شماری کی جانب کسی امید
کے لئے فضا سازگار بنانے میں کردار اداکرتا ہے تو اس کا خیر مقدم کوئی نہ
بھی کرے تو بھی اس کا مثبت نتیجہ ایک دن ضرور سامنے آئے گا۔ جس کا اعتراف
اپنے اور مخالفین سب کریں گے۔ |