مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے فضا سازگار بنانے میں
برسوں سے کام ہو رہا ہے۔ سرینگر، مظفر آباد، دہلی، اسلام آبادسمیت دنیا بھر
میں کسی نہ کسی طور پر بعض لوگ متحرک رہے ہیں۔ نیک نیتی اور حسن ظن کا
تقاضا ہے کہ دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ہونے والی کوششوں کو قدر کی
نگاہ سے دیکھا اور سمجھا جائے۔ محض تعصب ، حسد یا نفرت کی زد میں آکر تنقید
سے بچا جائے۔ اگر کوئی کسی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تو اس بنیاد پر
تخریبی یا انتقامی کارروائی بالکل نامناسب ہو گی۔ بعض معاملات ایسے ہیں کہ
جن سے سبھی متاثر ہوتے ہیں اور اجتماعی سوچ پر اس کے منفی یا مثبت اثرات
مرتب ہوتے ہیں۔ 31جولائی تا 2 اگست کو دوبئی میں منعقدہ کشمیر کانفرنس کے
بارے میں بھی یہی تاثر ہے۔ اسے بعض اطراف سے غیر سنجیدہ قرار دیا گیا۔
شرکاء کی جانب سے کسی یک طرفہ موقف کی طرفداری کا الزام لگایا گیا۔ اس لئے
اس کا جائزہ لینا مناسب ہو گا کہ سچ کیا ہے۔ کیا یہ سب قیاس آرائیاں ہیں یا
ان ک پیچھے چھپے بعض اشارے بھی ہیں جن کا مقصد مسلہ کشمیر کے نام پر نام و
نمائش، کاروباری سوچ، زاتی مفاد، سیر و تفریح ، شاپنگ ،وغیرہ کا حصول ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ایسا تنازعہ نہیں جو راتوں رات حل ہوا ہو یا جسے مذاکرات
کی میز پر گپ شپ سے حل کیا جا سکا ہو۔ مگر کشمیر کا مسلہ راتوں رات کا
نہیں۔ 70سال کا ہے۔ تیسری چوتھی نسل اس پر قربان ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں
کی قربانیاں ہیں۔ جن پر کوئی کاروبار، سیاست یا اپن روشن مستقبل کے محلات
کھڑا کرنا چاہے تو شاید یہ اس قدر آسان نہ ہو۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ
مخلتلف سمینارز، مذاکروں، کانفرنسوں کے متظمین شرکاء کی فہرست مرتب کرتے
وقت بعض اہم نکات کو زیر غور لاتے ہیں۔ اس میں ایسے نام شامل کئے جاتے ہیں
جن کے نام پر ان کی سیاست یا مفاد خصوصی پروان چڑھنے میں کوئی دقت پیش نہ
آئے۔ یا جو ان کے عزائم کو سمجھنے س قاصر ہوں۔ وہ کھیل میں شامل ہوں لیکن
نتائج من پسند نکالے جائیں۔ یہ انحصار ریفری پر ہے کہ وہ کسے کس طرح
استعمال اور بروئے کار لاتا ہے۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کا آلہ کار سمجھا
جاتا ہے۔ اسی تناسب سے وہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں کو مہرے بنانے
میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا نام اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔
یا ان کی نیک نامی سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ فوائد معاشی اور سیاسی یا
سفارتی ہوتے ہیں۔ مالی فوائد کو سب پر ترجیح دی جاتی ہے۔ دوبئی کانفرنس پر
انگلیاں اٹھیں۔جس کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ جسے برطانوی
منتظمین این جی او کی ویب سائیٹ پر یوں پیش کیا گیا، ’’کنسیلائیشن ریسورسز
نے کشمیر انیشیٹو گروپ کے اشتراک سے بھارت اور پاکستان کے معزز سیاسی اور
سول سوسائیٹی نمائیندگان کا اجلاس دوبئی میں طلب کیا ۔ شرکاء نے جموں و
کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ
ڈائیلاگ کو بحال کیا جائے اور جموں و کشمیر کے عوام کی تکالیف میں کمی لانے
کے لئے ریلیف اقدامات شروع کئے جان چاہیئں۔ انہوں نے سفارش کی کہ ہر طرف سے
دشمنی کا خاتمہ یقینی بنایا جائے، 2003میں قائم ہونے والے سیز فائر کا
احترام کیا جائے، اعتماد سازی کے اقدامات کو مضبوط بنایا جائے اور لائن آف
کنٹرول کے آر پار نئے تجارتی اور سفری راستے کھولے جائیں ۔‘‘
یہ وہ اعلامیہ ہے جو دوبئی کانفرنس کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ اس کا زبان و مکان
جو بھی ہو مگر شرکاء کو بھارت یا پاکستان سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس میں آر
پار کشمیر کے شرکاء کا ذکر نہیں۔ جب کہ کانفرنس میں بھارت سے فضائیہ کے
سابق وائس مارشل کپل کاک اور پاکستان سے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان
جنرل احسان الحق اور جنرل(ر)اسد درانی نے شرکت کی۔ جموں سے بی جے پی کے
کشمیر کونسل رکن وکرم رندھاوا، وادی سے نیشنل کانفرنس کے سابق وزیر ناصر
اسلم سوگامی، لداخ سے کانگریس کے اسلم کربلائی، آزاد کشمیر سے مسلم لیگ ن
سے وابستہ سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر، پی پی پی کے صدر چوھدری لطیف اکبر،
جماعت اسلامی کے عبد الرشید ترابی، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق سے وابستہ
خرم پرویز، صحافی حضرات شجاعت بخاری، ظہیر الدین، افتخار گیلانی، ڈاکٹر
شاہین اختر، ارشاد محمود وغیرہ نے شرکت کی۔ حریت کانفرنس کی نمائیندگی فیض
نقشبندی نے کی جو اسلام آباد میں میر واعظ عمر فاروق کے نمائند ے ہیں۔ اس
کانفرنس پر تنقید کی گئی اور طرح طرح کی باتیں اس سے منسوب ہوئیں۔ جس پر
جناب عبد الرشید ترابی نے کہا’’دوستوں کو اعتماد رکھنا چاہیئے کہ جن کے
نزدیک تحریک آزادی ایمان کا حصہ ہو، وہ نہ کسی کے جھانسے میں آ سکتے ہیں
اور نہ کسی سازش یا سودہ بازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘‘ بعض اخبارات نے شہ
سرخی لگائی کہ پہلی بار کسی کانفرنس نے’’ ملی ٹینسی‘‘کے خاتمہ کا مطالبہ
کیا ہے۔ سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار کشمیر ریڈر نے کانفرنس میں
شریک کسی نامعلوم مندوب سے منسوب یہ رپورٹ دی کہ سب نے اتفاق کیا کہ عسکریت
مسلے کا حل نہیں اس لئے اسے بند کیا جائے۔ بعض نے یہ کہا کہ کانفرنس میں
سرحد پار دہشت گردی کی بات کی گئی جب کہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا کسی
نے تذکرہ نہ کیا۔
اس طرح کی باتیں قربانیاں پیش کرنے والوں کے لئے نا قابل قبول ہیں۔ اگر چہ
ٹریک ٹو اور بیک چینل ڈپلومیسی کو جاری رہنا چاہیئے۔ تا ہم کشمیریوں پر
بھارتی مظالم کا جاری رہنا اور کشمیریوں کی نسل کشی انتہائی تشویشناک ہے۔
بھارتی مظالم کا خاتمہ اور مسلے کا حل کشمیریوں کی پہلی ترجیح ہے۔ اگر کوئی
اس پر سمجھوتہ کرے تو اسے سودابازی قرار دیا جائے گا۔ کشمیر انیشیٹو گروپ
کے کنوئنیئر ارشاد محمود سے میں نے یہی سوال کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ
اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں بھی بات چیت جاری رہی۔ ’’ ہم
کشمیریوں نے پہلی بار ریاستی گروپ تشکیل دیا جس کے صدر سرینگر کے صحافی
شجاعت بخاری ہیں۔ تا کہ ہم دہلی اور اسلام آباد کے بجائے کشمیر کا مقامی
موقف دنیا کو بتا سکیں۔بات چیت ہی مسلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔
کسی کی نیت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتا سکتا۔ اس پر قیاس ہی کیا جا سکتا
ہے۔ جو بھی دستیاب حقائق ہیں ، ان کی بنیاد پر ہی کوئی رائے قائم کی جا
سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیریوں کی نمائیندگی ہمیشہ پاکستان اور بھارت نے
ہی کی ہے۔ کشمیریوں کو مسلے کا فریق ہی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اسی لئے اس
مسلے کو بھارت دو طرفہ مسلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ حریت کانفرنس کو سہ فریقی
بات چیت کا جھانسا دیا گیا۔ وہ بہکاوے میں آ گئے۔ جب دنیا بھارت پر دباؤ
ڈال رہی تھی۔ اس وقت دہلی نے مکاری سے دباؤ سے نکلنے کی راہ اختیار کی۔ اس
میں حریت بھی غیر شعوری طور ہی سہی، مگر استعمال ہوئی۔ کشمیری ایسے ہاتھی
ہیں جس کے آگے چارہ پانی ڈالا گیا ہے،وہ چاہے تو سب کچھ توڑ کر نکل سکتا ہے
لیکن غلامی کی تاثیر ہی ایسی ہے کہ زنجیر نہ ہون کے باوجود ہاتھی غلامی کر
رہا ہے۔جاری۔
|