پیشہ ورانہ بددیانتی

پاکستانی میڈیانے پچھلے کچھ برسوں سے بڑی اونچ نیچ کا سامنا کیاہے۔اسے طاقت کا عروج بھی حاصل ہوا۔اور بے پناہ پابندیاں بھی جھیلنا پڑی۔وہ ایک متبادل طاقت بن کر بھی ابھرا۔اور اسے بے بناہ تنقید کا سامنا بھی رہا۔یہ سفر ابھی جاری ہے۔او رشایدابھی کچھ اور برس منزل سے دوری رہے۔یہ ایک ٹرانزیشنل پیریڈ ہے۔اس لیے پل پل رنگ بدلتی صحافتی جہتیں کل کو کیا رخ اختیار کریں گی۔اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ۔ابھی کل ہی میڈیا کو کسی گھر کی سی لونڈی کا سا مقام تھا۔اس کی اولین جدوجہد کو جس بری طرح کچلا گیا۔اس کے بعد اس کا دوبارہ اٹھ کھڑے ہونا حیران کن ہے۔تین نومبر کو جب آرمی چیف پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو اس کے اصل ہدف دو ہی تھی۔اول افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ اور دوجا میڈیا۔ان دونوں کو حرف غلط کی طرح مٹادیاگیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا واقعہ رونما ہواکہ پورے کا پورا عدالتی نظام اور صحافت کو لپیٹ دیا گیاہو۔ایک لمبے عرصے تک میڈیا کے تمام نجی چینلز بند رہے۔ا س عرصے کے دوران قوم کو مکمل طور پر آزادی اظہار رائے سے محروم رکھا گیا۔میڈیا کا گلاگھونٹ کر عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح خاموش کروادیاگیا۔میڈیا سے گلہ یہ تھاکہ یہ ایک آمر اور اس کے ٹولے کی آوازسے آواز ملانے پر آمادہ نہیں ہورہا۔جو لوٹ مار اور بندربانٹ اس ٹولے نے برپا کررکھی تھی۔میڈیا اس کی بھنک عوام تک کیوں پہنچارہاہے۔میڈیا کا جرم یہ تھا۔کہ وہ بیس جولائی کی عدلیہ بحالی تحریک کا سب سے موثر کردار بناتھا۔عدلیہ بحالی تحریک میں اگر میڈیاکاکردار مضبوط نہ ہوتاتو یہ تحریک باقی تحریکوں کی طرح اپنی موت آپ مر جاتی۔مگر میڈیا نے سیاسی اورعدالتی قوتوں کے درمیان پل کا کردار اداکرکے اس تحریک کی کامیابی کی بنیاد رکھی۔

میڈیا کا ٹرانزیشنل پیریڈ جاری ہے۔وزیر اعظم نوازشریف کی نااہل پر میڈیا نے جو کردار اداکیا۔وہ بھی غیر معمولی تھا۔نوازشریف کی فراغت تک میڈیا میں بھرپور نوک جھوک جاری رہی۔اب جب کہ وہ گھر چلے گئے۔اب بھی میڈیا کی چہلیں جاری ہیں۔محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ۔عوامی تحریک کے بعد پی پی اور تحریک انصاف نے بھی ان کاغذات کی منظور ی کو ہائی کورٹ کے ایپلٹ ٹربیونل میں چیلنچ کردیاہے۔اپیلوں میں کہاگیاہے کہ ریٹرننگ آفیسرنے حقائق سے ہٹ کر کاغذات نامزدگی منظور کیے ۔ریٹرننگ آفیسر کا فیصلہ اقامے کی بنیاد پر ملازمت کے معاہدے۔ٹیکس گوشواروں اور ویلتھ ٹیکس میں تضاداور نوازشریف کے زیر کفالت ہونے کے نکات پر خاموش ہے۔اپیلوں میں استدعا کی گئی ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کا فیصلہ کالعدم قراردے کر کاغذات نامزدگی کو مسترد کیا جائے۔محترمہ کلثوم نوا ز کے کاغذات نامزدگی کے خلاف مخالف امیدواران کے اعتراضات معمول کی کاروائی تصور کی جاسکتی ہے ۔مگر ان کاغذات کے خلاف اعتراض لگنے کے مدعے پر میڈیا میں جو ہاہا کا ر مچی وہ عجب تھی۔ہے۔محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات تو ایک پراسس کے تحت چھان بین سے گزرنے تھے ۔کسی مجاز اتھارٹی نے ان کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرناتھا۔بدقسمتی سے پراپر پلیٹ فارم سے کچھ فیصلہ آنے کی بجائے میڈیا وار سی شروع ہوگئی۔ دن رات ایک کرکے غیر متعلقہ بندوں کی طرف سے محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات کے غلط ہونے کا پراپیگنڈا کروایا گیا۔جانے کہاں کہاں سے مواد ڈھونڈا گیا۔جانے کیا کیا مدعے اٹھائے گئے۔گر میڈیا میں بیٹھے کچھ رضاکاران جانے کیوں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے پر تلے رہے۔ان کی کوشش یہی رہی کہ کسی نہ کسی طریقے سے کر کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی مسترد کروانے کی راہ ہموار ہوسکے۔

بد تدریج میڈیا کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔پچھلی بار میڈیانے افتحار محمد چوہدری کے حق میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کو غیر فعال کیے جانے کو نامناسب رویہ تصور کیا گیا۔جس انداز میں ملک کے چیف جسٹس کو ایک باوردی جنرل کے سامنے بیٹھے دکھایا گیا۔اسے سنجیدہ طبقے نے ناپسند کیا۔آمریت کی اس عدم برداشت اور تکبر کے خلاف قوم سراپا احتجاج بن گئی تھی۔میڈیا نے تب عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔مگریہ ترجیح اب بدل چکی۔اب وہ آمریت کے حمایتیوں کی آواز سے آواز ملاتا نظر آرہاہے۔یہ تبدیلی حیران کن ہے۔بظاہر پچھلے آٹھ دس سالوں میں کوئی بڑا فرق نہیں نظر آرہا۔طاقت کے توازن میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آپائی ۔اس کے باوجود میڈیا کی طرف سے اپنے جھکاؤ میں تبدیلی کرلی گئی۔اب بھی بالادستی کا جنون اپنی جگہ منہ کھولے بیٹھاہے۔اب بھی اپنے آپ کو عدم پرسش ٹھہرانے کا خبط موجود ہے۔اب بھی بے لگامی اور استثنی کا عفریت وہیں ہے جہاں کچھ برس پہلے تھا۔مگر یہ سب جاننے کے باوجود میڈیا نے اپنے حمایتیوں اور مخالفین کی ترتیب بدل ڈالی ۔جانے اب چوہدری کورٹ کی بجائے ڈوگر کورٹ کو کیوں کر ترجیح بنالیاگیاہے۔نوازشریف کا واحد گناہ عوای مینڈیٹ کی توقیر بحال کرناہے۔جو کچھ بد نیت اور شیطان صفت لوگ غصب کیے بیٹھے ہیں۔میڈیاکی پڑھی لکھی کلاس جانے کیوں حقیقت جاننے کے باوجود خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔شاید اس نے ریاست اور عوام کے مفاد کی بجائے اپنے کیرئیر کو ترجیح دے رکھی ہے۔وہ خودتو پھل پھول رہے ہیں۔مگر انہیں یادر کھنا چاہیے کہ وہ قوم اور ریاست کی حق تلفی کا باعث بن رہے ہیں۔یہ قرض آج یا کل انہیں چکانا ہی پڑے گا۔پیشہ ورانہ بد دیانتی ایک ایسی کوتاہی ہے ۔جس کا کفارہ ادا کیے بغیر جان نہ چھوٹے گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.