۱چکزئی تجو یز بر ائے کشمیر بلو چستان اور پا کستان

۱چکزئی تجو یز بر ائے کشمیر بلو چستان اور پا کستان

پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی ایشوز پر اظہار خیال کرتے ہوئے حمایت برائے حمایت اور مخالفت برائے مخالفت کے بجائے اپنی فہم و فراست‘ تجربات اور ماضی حال مستقبل کے مشاہدات کی روشنی میں ان کے حل کیلئے تجاویز پیش کی ہیں‘ جس میں ان کا کہنا ہے ہر ادارہ ہر خاص عام‘ سیاستدان‘ علماء‘ فوج‘ جرنلسٹس سمیت سب پر آئین کی پاسداری لازم ہے‘ پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہے‘ داخلی‘ خارجی سب پالیسیاں قومی اسمبلی میں بننی چاہئیں‘ ہماری غلط پالیسیوں کے باعث ملک ٹوٹا اور تمام تر مسائل مشکلات کے اسباب بھی بہت اختصار کے ساتھ خوبصورت انداز میں بتائے‘ پٹھان کی یہی شان اور پہچان ہے وہ بات کھری اور دبنگ انداز میں کرتے ہیں‘ ملک کے اندرونی حالات کے سدھار کا جو نسخہ پیش کیا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا‘ رائے مختلف ہو سکتی ہے‘ طریقہ کار پر بات ہو سکتی ہے‘ مگر جو اُصول بیان کیا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی ہے‘ اچکزئی نے ملک کو مشرقی‘ مغربی سرحدات اور بین الاقوامی‘ علاقائی حالات کے تناظر میں سب اہمیت‘ حقیقت سے تعلق رکھنے والی تجاویز میں بڑی بات کی ہے‘ وہ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھتی ہے‘ جن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ریاست جموں وکشمیر میں اپنے انتظامی وجود سے دستبرداری کی پیش کش کر دینی چاہیے ان کی تجویز کا یہ معنی بھی بیان کرنے والے کر رہے ہیں کہ ان کا کہنا ہے پاکستان آزادکشمیر سے باہر نکل جائے‘ ہندوستان نکلے یا نہ نکلے مگر پشتو لہجہ انداز کو سمجھنے والے درست سیاق و سباق کے مطابق ان کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں‘ پاکستان عالمی سطح پر یہ پیشکش کر دے‘ پاکستان ریاست جموں وکشمیر سے دسبردار ہونے کو تیار ہے‘ بھارت بھی دستبردار ہو جائے‘ دونوں ملک اپنی افواج نکال لیں اور کشمیریوں کو آزادانہ اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق کرنے دیا جائے‘ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ کریں یا پھر الگ ریاست کے طور پر رہنا چاہئیں تو بھی ان کا فیصلہ تسلیم کیا جائے‘ اچکزئی کی یہ بات ان کے مخلصانہ جذبات کی عکاسی ہے جس میں انکی مملکت پاکستان و بلوچستان کے حالات پر گہری پریشانی‘ فکرمندی بھی پوشیدہ ہے‘ بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم ریئسانی نے بھی ایک بار دو جملوں میں بات کی تھی جس کا مطلب تھا پاکستان کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر غور کرے تو بلوچستان میں ہندوستان کی مداخلت بند ہو جائے گی‘ محمود اچکزئی کا مقصد بلوچستان میں امن رہے‘ وہ درست کہتے ہیں‘ پاکستان کے بھارت‘ افغانستان سمیت تمام پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں اور کھل کر کہا افغانستان سے بھارت پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ورنہ سی پیک کا مستقبل محفوظ نہیں ہو سکتا‘ یہ وہ بات ہے جو درحقیقت اصل ایشو ہے‘ گوادر بلوچستان میں ہے جس کے ساتھ سارے سی پیک کا مستقبل وابستہ اس طرح ہے جس طرح جسم میں دِل کا ہوتا ہے‘ اور بھارت سمیت اس کے عالمی‘ علاقائی اتحادی حتیٰ کہ بعض مسلم ممالک بھی گوادر و ی پیک کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے‘ کیوں کہ ان سب کے مفادات متاثر ہونگے جس میں عالمی نمبرداری کا علمبردار اور علاقائی بالادستی کا خواب دیکھنے والا بھارت رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے سب کچھ کر رہا ہے‘ ساری دنیا میں مذہب‘ ثقافت‘ زبان‘ زمین سمیت ہر طرح کے رشتے ناطوں‘ تاریخی تعلقات پر انی اپنی نمبرداری و معاشی‘ اقتصادی مفادات بالادستی اختیار کر چکے ہیں‘ اس حقیقت کا ادراک کر کے ہی پالیسیاں اور فیصلے پائیدار ہو سکتے ہیں‘ سب کو خوش رکھ کر چاہے پڑوسی بھی ہو آگے بڑھنے کا خواب خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے‘ آپ روس‘ چین کے ساتھ بھی تعلق رکھیں اور ان سے عالمی نمبرداری چھن جانے کے خوف سے بھارت سے ہاتھ ملانے والے کو بھی خوش رکھیں ممکن نہیں ہے‘ آج کی دنیا میں دوستوں کیلئے دشمنوں یعنی اپنے لئے دوست کے دوستوں کو دوست اور دوست کے دشمنوں کو دشمن سمجھنا ہی دانشمندی ہے جسطرح پا کستان کا ایٹمی پر وگرام دشمن اور اس کے دوستوں کو ہضم نہیں ہو تا ہے اسی طرح گوادر پورٹ اور سی پیک سمیت ترقی اور خوشحالی کے بھی دشمن ہیں‘ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت رُخصت ہو جانے والے وزیراعظم کی طرح خود کو عقل کل سمجھنے کے بجائے پارلیمنٹ سے پالیسی بناتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں‘ جس میں تمام اداروں کی اپنے اپنے کاز کے تجربات‘ مشاہدات‘ حالات‘ ضروریات کو بطور مشورہ شامل کر کے فیصلہ کارآمد ہو سکتا ہے‘ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو کشمیری الحاق‘ خود مختیار سے آگے بڑھتے ہوئے بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جس دن بھارت تسلط کے خاتمے پر آ گیا تو کشمیری پرامن انداز میں اپنا فیصلہ کریں گے‘ یہ ضرورت ہے جنگیں بھی لگی ہوں تو مذاکرات جاری رہتے ہیں‘ اور محمود اچکزئی کی تجویز کو پارلیمنٹ کے اندر اس طرح زیر بحث آنا چاہیے کہ وہاں پاکستان کا پرچم‘ آیات کریمہ کی چادر کے بجائے اوڑھنے والوں کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھا جائے‘ ہر وہ پالیسی فیصلہ جو مقبوضہ کشمیر و ریاست کی قیادت کو اعتماد میں لیکر کیا جائے گا‘ وہی پاکستان کے ترقی یافتہ‘ خوشحال اور آسودہ حال عوام کا ضامن ثابت ہو گا۔

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.